تنہائی پسندی

فہد عامر الاحمدی ترجمہ: تنویر آفاقی

چند روز پہلے میں نے ایک خبر پڑھی کہ شیکاگومیں دو برس پہلے ایک بوڑھے شخص کی موت فلیٹ کے اندر ہوگئی اورلوگوں کو اس کی موت کے بارے میں اس وقت خبر ہوئی جب مردہ لاش کی بدبو فلیٹ سے باہر تک آنے لگی۔

خبر اپنے آپ میں کوئی نئی نہیں ہے، اس قسم کی خبریں عام بات ہیں۔اس سے پہلے اس طرح کی خبریں لندن، نیویارک، ٹوکیو، برلِن اور تمام بڑے بڑے شہروں کے تعلق سے بھی ہم پڑھ چکے ہیں۔اس قسم کے حادثات صرف اس بات کی دلیل ہیں کہ عزلت نشینی اور تنہازندگی گزارنے کی وبا بڑھتی جا رہی ہے اور زیادہ تر لوگ دنیا کے بڑے بڑے ممالک میں جان لیوا تنہائی کی زندگی اختیار کر رہے ہیں۔

مغربی سماج کے اندر خاص طور سے دو ایسے مسائل ہیں جنھوں نے عزلت نشینی اور معاشرے سے علیحدگی پسندی کو پروان چڑھانے میں مدد دی ہے۔

ایک یہ کہ درمیانی عمر کے لوگوں کی تعدادمیں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور نئی پیدا ہونے والی نسل کے مقابلے میں بوڑھوں کا پلڑا بھاری ہو رہا ہے۔دوسری وجہ یہ کہ خاندان کا تانا بانا یا یہ کیہے کہ خاندانی نظام زوال کا شکار ہو گیا ہے اور نوبت یہ آگئی ہے کہ گھر سے اولاد کے نکل جانے کے بعدوالدین یا شوہر بیوی میں سے کسی ایک کی موت ہو جانے کی صورت میں دوسرا تنہا رہنے پر مجبور ہے۔چنانچہ 2005ء تک برطانیہ میں ایک چوتھائی گھر ایسے تھے جو صرف ایک فرد پر مشتمل تھے۔لیکن آج یہ تناسب بڑھ کر 40%ہو گیا ہے۔یہ چالیس فی صد گھر وہ ہیں جن میں یا تو کوئی ریٹائرڈ شخص زندگی بسر کر رہا یا کوئی بوڑھی بیوہ خاتون اس کی مکین ہے یا وہ کسی ایسے نوجوان سے آباد ہے جو حقیقی دنیا سے بے نیاز ہو کر انٹرنیٹ اور سوشل ویب سائٹس کی سیر میں مگن ہے۔

یہ صورت حال امریکہ میں بھی نوٹ کی گئی ہے ۔ چنانچہ ایسے گھروں کی تعداد جن میں صرف ایک شخص تنہا رہتا ہو1950میں 3%سے زیادہ نہیں تھی، لیکن اب شہروں کے اطراف میں بسنے والے ایسے گھروں کی تعداد بڑھ کر 32%ہو گئی ہے۔اور جہاں تک مرکزی شہروں (جو ڈائون ٹائون کے نام سے معروف ہے) کے اندر 76%فلیٹ وہ ہیں جن میں رہنے والے یا تو غیر شادی شدہ ہیں، یا ریٹائرڈ لوگ ہیں یا ہم جنس ہیں۔

اس صورتحال کا ایک واحد سبب محض عمردراز افراد کی تعداد میں اضافہ ہی نہیں ہے، بلکہ اس کی وجہ نئے وسائل ابلاغ کا استعمال اور جدید شہروں کا طرز معاشرت بھی ہے۔قدیم زمانے میں انسان کو کام کاج، ایک دوسرے سے ملاقات اور اپنی خاص ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے گھر سے نکلنا ہی پڑتا تھا، لیکن آج اس کے لیے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ وہ یہ سارے کام کمپیوٹر کی اسکرین کے توسط سے گھر سے نکلے بغیر ہی پورے کر لے۔( بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ٹیلی ویژن کی ایجاد نے انسان کی زندگی میں زبردست انقلاب برپا کیا ہے، جس کی وجہ سے سڑکوں پر نکلنے کے بجائے گھر کے اندر رہنے کارجحان بڑھ گیا ہے، بلکہ گھر کے اندررہتے ہوئے تنہائی کا تناسب بھی اس کی وجہ سے بڑھ گیا ہے۔ مثلاً یہ بات سامنے آئی ہے کہ آسٹریلیا میں میاں بیوی روزانہ اوسطاً تین گھنٹے ٹی وی دیکھتے ہیں لیکن آپس میں محض بارہ منٹ ہی ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں۔ امریکا میں بچے ہفتہ بھر میں اوسطاً بیس گھنٹے ٹی وی دیکھنے میں گزارتے ہیں، اس کے مقابلے میں وہ اپنے والدین سے محض 38منٹ ہی بات کرتے ہیں۔

موجودہ وقت میں انٹرنیٹ نے اس نئی قسم کی عزلت پسندی کے تناسب میں مزید اضافہ کر دیا اور والدین اور اولادبھی ایک دوسرے سے دور رہنے لگے ہیں۔(آپ خود ہی دیکھ لیجیے کہ آپ کا بیٹا آئی پیڈ سے کس طرح چپکا رہتا ہے۔)سماجی ویب سائٹس نے اب یہ بھی موقع فراہم کر دیا ہے کہ بیڈروم سے باہر نکلے بغیر ہی فرضی شادیاں ہو جاتی ہیں۔

یہ صورت حال اب بین الاقوامی شکل اختیار کر چکی ہے۔ چنانچہ جاپان میں ایک لفظ ’’ہیکوکوموری‘‘ استعمال ہوتا ہے جس کامفہوم قریب قریب ’اپنی ذات تک سمٹے رہنا‘ ہوتا ہے۔اب یہ لفظ وہاں کثرت سے ان نوجوانوں کے لیے استعمال ہونے لگا ہے جو خودکو بیڈروم کے اندر ہی بند کیے رکھتے ہیں اور صرف باتھ روم جانے کے لیے ہی باہر نکلتے ہیں۔ان کی اس تنہائی پسندی کی وجہ ویڈیو گیم اور انٹرنیٹ کی ویب سائٹس ہیں ۔ ان چیزوں سے ان کا لگائو اس قدر بڑھ گیا ہے کہ حقیقی دیناسے خود کو الگ کرکے وہ فرضی دنیا میں جینے لگے ہیں۔ ( اندازہ ہے کہ ایسے لوگوں کی تعدادالگ الگ صورت حال کے حساب سے ایک سے پچاس لاکھ تک ہے۔)

مختصر یہ کہ تاریخ میں یہ پہلی بار ہے کہ ہم حقیقی دنیا سے کٹ کر تنہائی کی زندگی بسر کر نے لگے ہیں۔(جن میں خود ہمارے گھراور خاندان کے لوگ بھی ہیں اور ہمارے محلے میں ہمارے ہی سامنے رہنے والے لوگ بھی)لیکن دوسری طرف فرضی دنیا اور سوشل ویب سائٹس ہیں، جہاں ہمارے ہزاروں فرضی دوست اور آشنا ہیں۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں