قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ، فَقَالَ رَجُلٌ اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ اَنْ یَکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَ نَعْلُہٗ حَسَنًا قَالَ اِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ وَ یُحِبُّ الْجَمَالَ، اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ۔ (مسلم ـــــ عبد اللہ بن مسعودؓ)
’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ شخص جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا جنت میں نہیں جاسکے گا، اس پر ایک آدمی نے پوچھا آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں (تو کیا یہ بھی تکبر میں داخل ہے؟ اور کیا ایسا ذوق رکھنے والا جنت سے محروم ہو جائے گا؟)آپؐ نے فرمایا نہیں، یہ تکبر نہیں ہے اللہ صاحب جمال و کمال ہے اور جمال و کمال کو پسند کرتا ہے۔ تکبر کے معنی ہیں اللہ کے حق کو ادا نہ کرنا، اس کے حکم سے سرتابی کرنا اور خدا کے بندوں کو حقیر جاننا۔‘‘
تشریح: سورۂ اعراف کے دوسرے رکوع میں آدمؑ و ابلیس کی داستان سے تکبر کا مفہوم پوری وضاحت سے سامنے آتا ہے۔ ابلیس اللہ کو اپنا خالق اور رب مانتا ہے پر اس نے اسے حکم دیا تو نہ مانا اور اکڑ گیا تو خدا نے اس سے کہا ’’جا بھاگ یہاں سے، تیرے لیے روا نہیں کہ مقام سعادت میں رہتے ہوئے تو تکبر کرے، جا بھاگ یہاں سے تو میری نظر میں خوار و ذلیل ہے۔‘‘ اور ظاہر ہے جو خدا کے مقابلہ میں اکڑے گا وہ لازماً خدا کے بندوں کو حقیر جانے گا۔