تہذیب و ثقافت میں خواتین کا کردار

سید سعادت اللہ حسینی

اسلام اور اہل اسلام کو ایک بڑا تہذیبی معرکہ درپیش ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں سب سے زیادہ اسلام کی نظریاتی اور تہذیبی قوت سے خائف ہیں اور انہوں نے کئی محاذوں پر اسلام کے خلاف ایک زبردست تہذیبی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ یوںتو گلوبلائزیشن کے بعد دنیا بھر کے معاشرے مغربی تہذیب کے ہمہ گیر استبداد سے پریشان ہیں لیکن جہاں تک اسلامی معاشروں کا تعلق ہے، ان پر اس تہذیبی یلغار کی ضرب اور زیادہ شدید ہے۔کیوںکہ ہنٹگٹن جیسے فلسفیوں نے یہ باور کرادیا ہے کہ اسلامی تہذیب ہی مغرب کی اصل حریف ہے۔چناںچہ اسلامی تہذیب کی بیخ کنی کی نہایت منصوبہ بند کوششیں پوری طاقت اور بھرپور وسائل کے سہارے انجام پارہی ہیں۔ ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ اسلامی تہذیب کے تحفظ اور اس کے فروغ پر سنجیدہ توجہ دی جائے۔ اگر اسلامی تہذیب اپنی پوری شان کے ساتھ ظہور پذیر ہوتی ہے تو یہ اپنے بے مثل حسن اور نافعیت کے سبب ساری دنیا اور ساری انسانیت کے لئے باعث کشش ہوگی اور اس کی جاذبیت انسانوں کو اسلام کی طرف متوجہ کرے گی۔ان شاء اللہ العزیز۔

تہذیب (کلچر ) ثقافت اور تمدن (سولائزیشن) کی اصطلاحات مختلف علوم میں کثرت سے استعمال ہوتی ہیں۔ان اصطلاحات کی مختلف تعبیریں کی جاتی ہیں اور اکثر لوگ ان دونوں اصطلاحات کو ہم معنی الفاظ کے طور پر استعما ل کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک کسی سماج کی مشترکہ قدروں، جذبات ، عقائد اور زندگی کے رویوں کے مجموعہ کا نام تہذیب ہے۔ ان قدروں، عقائد اور جذبات کا اظہار ،رہن سہن کے طور طریقوں، زندگی کے آداب و اطوار، لباس اور غذا کے ذوق، اور آرٹ اور فنون لطیفہ کی صورت میںہوتا ہے ۔ انہیں ہم تہذیب کے مظاہر کہہ سکتے ہیں۔تمدن (یا سولایٔزیشن) کے نام ہی سے ظاہر ہے کہ اس کا مطلب شہری زندگی کی تنظیم اور اس میں آسانی پیدا کرنے کے لیے وجود میں لائے گئے اداروں، وسائل اور سہولتوں کے مجموعہ کا نام ہے۔ سیاسی و معاشی ادارے، سائنس و ٹکنالوجی، ابلاغ کے ذرائع، رفاہ عامہ کے کام،تعمیرات کے انداز، نظم و نسق کے طور طریقے وغیرہ تمدن کے مظاہر ہیں۔

تہذیب کا خواتین سے بڑا گہرا تعلق ہوتاہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی سماج میں خواتین تہذیب کی محافظ Guardian بھی ہوتی ہیں، تخلیق کارCreator بھی اور صارفConsumer بھی۔خواتین کی تخلیقی صلاحیتیں فنون لطیفہ، ادب، طرز زندگی، فیشن، روایات وغیرہ کی صورت میں کلچر کوپیدا کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔کلچرکا استعمال بھی سب سے زیادہ وہی کرتی ہیں اور اپنی روایتوں کو وہی سب سے زیادہ عزیز رکھتی ہیں ۔اور اس طرح کلچر کی محافظ بھی بنتی ہیں۔جیسا کہ اگلی سطروں میں ہم نے واضح کیا ہے، اسلامی تاریخ کے ہر دور میں خواتین نے یہ کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے بیرونی حملوں کے مقابلہ میں اسلامی تہذیب کا بھرپور دفاع اور تحفظ بھی کیا ہے اور اپنی اختراعی اور تخلیقی صلاحیتوں سے تہذیب کو مالا مال بھی کیا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان خواتین، اس رول کے لئے کمربستہ ہوں اور بھرپور طریقہ سے یہ کردار ادا کریں۔

علوم و فنون

کسی بھی تہذیب کے اظہار کا سب سے اہم ذریعہ اس کے علوم و فنون ہوتے ہیں۔ ہر تہذیب اپنی ضرورت اور ترجیحات کے مطابق علوم و فنون تشکیل دیتی ہے۔ یہاں اپنے ایک سابقہ مضمون کا مختصر اقتباس پیش کرنا چاہوں گا۔

’’ تمدن کی تعمیر میں اینٹ اور گارے کا کام آئیڈیاز کرتے ہیں۔ اس صدی میں تحریکاتِ اسلامی کے اولین بانیوں کے عہد کے بعد، ہماری سب سے بڑی ناکامی شاندار Brilliant آئیڈیاز کی تخلیق میں ناکامی ہے۔ دورِ جدید کی ساری رنگا رنگی وہی ہے جس کا آج سے دو ڈھائی سو سال پہلے مغربی دنیا کے افسانہ نگاروں نے خواب دیکھا تھا۔ جولز ورن (Jules Verne) نے ۱۸۶۷ء میں چاند کے سفر کا تخیل پیش کیا تھا۔ آرتھر کلارک نے ۱۹۴۵ء میں کمیونی کیشن سٹیلائٹ، رابرٹ ہیلین نے سیل فون ای ایم فاسٹر نے ٹیلی ویژن، ایم آر آئی مشین وغیرہ (The Machine Stops -1909) اور جیورج آرویل نے انٹرنیٹ کے تخیلات اپنے ناولوں میں پیش کردئے تھے۔ ہگسلے (Aldous Huxley) کی ناول The Brave New World (1931) تو شاہکار ناول ہے جس نے ہمارے عہد کی پوری تصویر ۷۵ سال قبل کھینچ دی تھی۔ اس کے مقابلے میں اسلامی تمدن کے متبادل تخیلات کہاں ہیں؟ تحریکات ِ اسلامی کے اولین نظریہ سازوں نے ہمیں ایک نئے تمدن کی تعمیر ہی کا وژن دیا تھا۔ مولانا مودودی طلبہ کو ’’مقلدوں کا سا نہیں‘‘ بلکہ ’’مجتہدوں کا سا‘‘ کمال پیدا کرنے کے لیے کہتے تھے۔ سائنس، معاشیات اور سماجیات میں اجتہادی کمال کا کیا مطلب ہے۔ یہی کہ ہم فکرو نظر کا دھارا بدل دیں۔ جزوی تبدیلیاں نہیں، علوم وفنون کی اساسیات کو نیا رخ دیں(Paradigm Change) ۔ موجود ٹکنالوجیز میں ترقی نہیں، نئی ٹکنالوجیز، علوم کے نئے شعبوں (Disciplines of Knowledge) کے بانی بنیں۔ ہمارے درمیان بھی ہگسلے، ہینلین اور آرتھر پیدا ہوں اور اسلامی دنیا کی تصویر دکھائیں۔‘‘

اس اقتباس میں جس ضرورت کی طرف متوجہ کیا گیا ہے اس کی تکمیل، لمبی، صبر آزما، اور نہایت سخت علمی کاوش کا تقاضہ کرتی ہے۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ معاشی دباؤ ہمارے ذہین طلبہ کو ایسے اطلاقی Applied شعبوں کی طرف دھکیل رہا ہے جن میں قدم رکھنے کے بعد اس طرح کی علمی سرگرمیاں ممکن نہیں رہتیں۔ ٹکنالوجی، تجارت کی بھول بھلیاں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی چکاچوند کسی نئے آئیڈیا پر غور کرنے کی کم ہی مہلت دیتی ہے۔بہت کم نوجوان خود کو اس دباؤ سے آزاد کرا پاتے ہیں۔ ان حالات میں خواتین آگے بڑھیں تو یہ خلا پر ہوسکتا ہے۔آج بھی الحمد للہ، مسلم معاشرہ میں خواتین زیادہ تر، معاشی دباو سے آزاد ہیں۔ وہ اپنے لئے تعلیم و تحقیق کے ایسے میدان منتخب کرسکتی ہیں جن کے ذریعہ وہ اسلام کی علمی خدمات انجام دے سکیں۔

اسلامی تاریخ کے ہر دور میں خواتین نے علوم و فنون کی ترقی میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔علم حدیث ، فقہ، تفسیر، ادب بلکہ طب جیسے علوم کے فروغ میں بھی ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کے رول سے حجاب کے قارئین یقینا واقف ہیں۔ عطا بن ابی رباحؒ، ام المومنینؓ کو افقہ النّاس (تمام انسانوں میں سب سے بڑی فقیہ)اعلم الناس (انسانوں میں سب سے بڑی عالم) اور احسن الناس رایاً فی العامّہ (انسانوں کے درمیان سب سے اچھی رائے دینے والی) قرار دیا ہے۔

کیمریج یونیورسٹی کے مشہور محقق، پروفیسر اکرم ندوی نے خواتین محدثات پر جو کام کیا ہے ، اُس نے ساری علمی دنیا کو چونکا دیا ہے۔انہوں نے چالیس جلدوں میں دس ہزار محدث خواتین کی تفصیل جمع کی ہے۔ (اس کا خلاصہ انگریزی میں بھی Al-Muhaddithat:The Women Scholars in Islam کے نام سے شائع ہوچکا ہے)۔ ندوی صاحب کے بقول اس وقت جو کچھ علم حدیث ہمارے پاس موجود ہے اس کا کم سے کم ایک چوتھائی حصہ خاتون راویوں کی دین ہے۔ حال ہی میں ندوی صاحب ہندوستان تشریف لائے تھے اور انہوں نے اپنے لیکچرز میں ایسی متعدد خواتین کا ذکر کیا جوقرون اولی میں مسجد حرام،مسجد نبوی اور مسجد اقصی میں درس دیا کرتی تھیں اوروقت کے بڑے بڑے محدث جن کے شاگرد تھے۔ امام بخاری، ابن عساکر، ابن تیمیہ، ذہبی، ابن حجر، سخاوی، سیوطی، یہ سب اسلامی تاریخ کے عظیم ترین علما ء میں شامل ہیں اور ان میں سے ہر ایک کئی کئی خواتین کا شاگرد رہ چکا ہے۔

حدیث کے علاوہ فقہ، سیرت، تاریخ وغیرہ میں بھی خواتین نے غیر معمولی کارنامے انجام دیئے ہیں۔ ماضی قریب میں عائشہ بنت عبد الرحمٰن الشاطی (وفات:۱۹۹۸)، زینب الغزالی(وفات:۲۰۰۵)اور مریم جمیلہ (وفات:۲۰۱۲) جیسی خواتین نے بڑے اہم علمی کارنامے انجام دیئے ہیں۔بدقسمتی سے حالیہ ادوار میں خواتین کا یہ رول بہت کمزور ہوچکا ہے۔ خصوصاً برصغیر میں خواتین کی علمی خدمات ابھی بھی بہت نمایاں نہیں ہوپائی ہیں۔اب جبکہ الحمد للہ خواتین میں تعلیم عام ہوتی جارہی ہے اور ہماری خواتین اعلی سے اعلی تعلیم حاصل کررہی ہیں ، اس بات کی ضرورت ہے کہ ہماری خواتین ، اس اہم کام کے لئے خود کو تیار کریں۔ علمی و تحقیقی کام، خصوصا سماجی و انسانی علوم میں، خواتین کے لئے نسبتاً آسان بھی ہے۔ ایک مرحلہ کے بعد گھر میں بیٹھ کر بھی یہ کام کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فقہ، حدیث، تفسیر اور پھر معاشیات، سیاسیات، سماجیات، فلسفہ، قانون، نفسیات وغیرہ جیسے علوم کی طرف ذہین طالبات کو متوجہ کیا جائے۔ ہماری ذہین طالبا جامعہ اسلامیہ شانتاپورم ، اسلامی اکیڈمی وغیرہ جیسے اداروں میں اعلی تعلیم حاصل کریں ، آئی آئی ٹی، ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ، جے این یو وغیرہ جیسے اداروں میں اور پھر اس سے آگے بڑھ کر آکسفورڈ اور کیمریج جیسے اداروں میںداخلہ کے لئے خود کو تیار کر یں اور خود کو بڑے علمی کاموں کے لئے یکسو کریں۔اب ترکی اور ملیشیا جیسے ممالک بھی بہت اچھے مواقع فراہم کررہے ہیں۔

ادب

تہذیب میں ادب کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے۔ ادب، تہذیب اور تہذیبی قدروں کا ترجمان بھی ہوتا ہے اور اُن کا محافظ بھی۔شاعری، افسانہ، ناول، انشائیہ، مزاحیہ ادب وغیرہ کے ذریعہ تہذیبی قدریں ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتی ہیں۔ کسی نے بہت صحیح کہا ہے کہ کسی قوم کا ادب، اس کی تہذیب کا جوہر ہوتا ہے۔

زمانہ قدیم میں جب کہ لوک گیت اور لوک کتھائیں قبائلی تہذیبی روایتوں کے تسلسل کا اہم ذریعہ تھیں ، اُس وقت بھی ان اصناف میں اہم اور کلیدی کردار خواتین ہی کا ہوتا تھا۔ شادی بیاہ اور خوشی کے موقعوں پرخواتین یہ گیت تخلیق کرتی تھیں اور انہیں گاتی تھیں۔ جنگجوؤں میں رزمیہ نغمے گاگاکر جنگجووں کے حوصلے بڑھانے والی بھی عام طور پر خواتین ہی ہوتی تھیں۔ گیتوں اور نغموں کا ایک اور مصرف لوریاں ہوتی تھیںجو مائیں اپنے بچوں کو سناتی تھیں۔اور بچپن ہی سے ان کے ذریعہ اپنی تہذیبی روایتیں ان کے ذہن نشین کرتی تھیں۔ اسی طرح لوک کتھا اور داستان گوئی کے فن میں ہر قوم کی تاریخ میں خواتین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

بعد کے ادوار میں جب ان فنون نے ترقی کی اور باضابطہ شکل اختیار کی تو ان زمانوں میں بھی خواتین نے ادب اور شاعری میں اہم رول ادا کیا ۔ ہر قوم کی تاریخ میں زمانہ قدیم سے ہی شاعرات اور ادیبات کے تذکرے ملتے ہیں۔ مثلا یونانی روایات میں کلیوبلینااور پریکزیلا، تمل روایات میں اویار اور ویلّی ودھیار، چینی روایات میں زو فین اورزائی ڈویون اور ہندو روایات میں شلبھتاریکا اور وِجّا وغیرہ۔

اسلامی تاریخ میں صحابیات کے دور ہی سے ادب و شاعری میں خواتین نے بہت اہم رول ادا کیا ہے۔ حضرت خنساء بنت عمروؓ، کو آج بھی عربی ادب کی تاریخ کے ممتاز ترین اساطین میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہیں ارثی العرب (یعنی عرب کا سب سے بڑا مرثیہ نگار) کہا جاتا ہے۔ ان کا دیوان آج بھی موجود ہے اور علمائے ادب کا اتفاق ہے کہ آج تک مرثیہ کے فن میں خنساءؓ کا کوئی ثانی پیدا نہیں ہوا۔ام المومنین عائشہ ؓ بھی ایک بلند پایہ ادیب اور شاعرہ تھیں۔ حضرت عروہ بن زبیر ؓ نے جن علوم کے سلسلہ میں فرمایاکہ ان میں حضرت عائشہؓ کا مثل کوئی نہیں تھا ان میں فقہ، حدیث ، علم میراث اور قرآن جیسے علوم کے ساتھ ادب، شاعری،حکمت، طب، تاریخ عرب اور علم الانساب جیسے علوم بھی بیان کئے ہیں۔

حالیہ تاریخ میں بھی خواتین نے ادب عالیہ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اورنگ زیب کی بیٹی زیب النساء بیگم صاحب دیوان شاعرہ تھیں۔ اردو کے علاوہ عربی، فارسی، ترکی، ملے، جاوا وغیرہ زبانوں کے ادب میں بھی مسلم خواتین کا رول نہایت اہم رہا ہے۔ ہندوستان کی متعدد علاقائی زبانوں کے ادب میں بھی بعض مسلم خواتین اہم کردار ادا کررہی ہیں۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کے اندر فطری طور پر جمالیاتی حس پائی جاتی ہے۔ اسلامی حلقوں کی خواتین بھی ادب پر توجہ دیں تو وہ گرانقدر خدمات انجام دے سکتی ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ خواتین ادب کی مختلف اصناف میں آگے بڑھیں۔ باصلاحیت خواتین کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ان کو مواقع فراہم کئے جائیں۔ اور اردو کے علاوہ انگریزی اور علاقائی زبانوں کے ادب میں خواتین قلم کاروں کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار کرنے پر توجہ دی جائے۔

ہمارے زمانہ میں فکشن یعنی ناول نگاری کا فن خصوصا مغربی دنیا میں بہت ترقی کرچکا ہے۔ ناول کے ذریعہ ہم دنیا کو مسائل سے بھی روشناس کراسکتے ہیں اور اسلام کیسے مسائل کو حل کرتا ہے، اس کا خواب بھی دکھا سکتے ہیں۔ یہ فن اسلامی حلقوں میں ابھی بھی زیادہ ترقی نہیں کرپایا ہے جبکہ اردو داں ہندوستانی معاشرہ نے کئی نہایت بلند پایہ خاتون ناول نگاروں کو (مثلاً قرۃ العین حیدر) جنم دیا ہے۔ اسی طرح اردو شاعری اب پھر ایک بار ساری دنیا کو متوجہ کررہی ہے۔ حالیہ برسوں میں غیر اردو داں طبقہ بھی بڑے پیمانہ پر اردو شاعری کی طرف متوجہ ہوا ہے۔ اگر پروین شاکر وغیرہ کی سطح کی شاعرات اسلام پسند حلقوں میں پیدا ہوں تو شاعری کے ذریعہ بھی بہت بڑا کام ہوسکتا ہے۔

ادب سے متعلق ایک اہم محاذ بچوں کا ادب ہے۔ اردو کے علاوہ انگریزی، ہندی اور علاقائی زبانوں میںبچوں کے معیاری ادب کی تخلیق وقت کی بڑی اہم ضرورت ہے۔خواتین اس ضرورت کی بھی تکمیل کرسکتی ہیں۔

فنون لطیفہ

موسیقی، آرٹ، پینٹنگ، مجسمہ سازی، ڈرامہ، رقص، آرکٹیکچر وغیرہ جیسے فنون کو فنون لطیفہ کہا جاتا ہے۔ ان سب فنون کو بھی تہذیبی اظہار کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اسلامی تہذیب کا اپنا مزاج ہے۔ بت پرستی اور مظاہر شرک سے حد رجہ کراہیت کی وجہ سے اسلامی تاریخ میں کبھی مجسمہ سازی کو پسند کی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ تھیٹر، اداکاری اور موسیقی جیسے معاملات متنازعہ فیہ ہیں ۔ اسلامی تہذیب مرد و خواتین کے درمیان اختلاط کو پسند نہیں کرتی اور خواتین کے حجاب اور ان کی حیا کو بہت زیادہ اہمیت دیتی ہے اس لئے تھیٹر ڈرامہ اور اداکاری کی کسی شکل کو جائز بھی مانا جائے تو اس میں خواتین کے بہت سرگرم رول کی تو اسلامی تہذیب متحمل نہیں ہوسکتی۔

مسلمانوں نے ہر زمانہ میں اپنی تہذیبی قدروں کے مطابق، اپنے ذوق جمال کی تسکین کے اپنے طریقے ڈھونڈے ہیں۔تصویر اور مجسمہ سازی کو ناپسند کیا تو خطاطی اور عمارتوں میں نقش و نگار کا اچھوتا فن ایجاد کیا۔مسلمان خواتین نے کشیدہ کاری کے فن کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ موسیقی سے گریز نے قراء ت قرآن کو باقاعدہ ایک فن کی شکل دے دی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ایسے متبادل طریقے ڈھونڈیں جن سے ہم اپنی تہذیبی ضرورتوں کی تکمیل کرسکیں۔

ہماری خواتین پینٹنگ سیکھ سکتی ہیں۔ آرٹ تہذیبی اظہار کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ کمپیوٹر کی ترقی نے ویژول آرٹ کے بہت سے ایسے میدان کھولے ہیںجن میں اسلامی اصولوں کی رعایت کے ساتھ ہم اپنی بہت سی اہم تہذیبی ضرورتوں کی تکمیل کرسکتے ہیں۔پینٹنگ اور ویژول آرٹ افکار و نظریات کی بھی اشاعت کا ذریعہ ہے اور تہذیبی قدروں کے ابلاغ کا بھی۔ موجودہ زمانہ میں اس فن کا اسلام کے لئے بہت کم استعمال ہوپایا ہے۔

کارٹون اور اینیمیشن کی ٹکنالوجی اداکاری وغیرہ سے متعلق بہت سی الجھنوں کا حل بن سکتی ہے۔اس وقت جس تہذیبی حملہ سے خاص طور پر ہماری نئی نسل کو سامنا ہے، اس کا ایک اہم ذریعہ فلم، کارٹون، گیمس وغیرہ ہیں۔ ان کا موثر اسلامی متبادل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ وعظ و نصیحت کو کارٹون کے نام پر آپ پیش کریں تو اس سے انسان کے ذوق جمال کی تسکین نہیں ہوسکتی۔ اور فنی معیار کو برقرار رکھنے کے لئے آپ اسلامی اصولوں سے سمجھوتہ کرنے لگیں تو اس سے اسلام اور اسلامی تہذیب کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لئے یہ کام غیر معمولی ذہانت اور اختراعی صلاحیت چاہتا ہے۔ نقالی کے لئے ذہانت درکار نہیں ہوتی لیکن جب آپ ایک نیا پیراڈائم ایجاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کے لئے اعلی درجہ کی صلاحیت درکار ہوتی ہے۔ فلم اور ویژول میڈیا میں ایک بالکل نئے پیراڈائم کی ضرورت ہے جو فنی لحاظ سے بہت اعلی معیار کا ہو اور مکمل طور پر اسلام کی تہذیبی قدروں سے ہم آہنگ ہو۔ یہ کام اسی وقت ہوگا جب کچھ نہایت ذہین لوگ اس کام پر بھرپور توجہ دیں گے۔ ہماری خواتین اور طالبات جو بچوں کی نفسیات کو بہت اچھی طرح جانتی ہیں اور اسلامی قدروں کی بھی محاٖ فظ ہیں، وہ اس کام کا بیرا اٹھائیں تو شاید اس ضرورت کی تکمیل آسانی سے ہوسکے۔

آرکٹیکچر بھی فنون لطیفہ کاایک اہم میدان مانا جاتا ہے۔آرکٹیکچر کی خواتین سے فطری مناسبت ہے۔ اس وقت ترقی یافتہ ممالک میں جن میدانوں میں عورتوں کا تناسب زیادہ ہے، ان مین سے ایک آرکٹیکچر کا میدان ہے۔ امریکہ اور آسٹریلیا جیسے ملکوں میں پچاس فیصد کے لگ بھگ آرکٹیکٹ خواتین ہیں۔ اس فن کا اسلامی تہذیب کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے۔مجسمہ سازی کی جگہ مسلمانوں نے خوبصورت عمارت سازی پر توجہ دی اور اسے نئے پیراڈائم عطا کئے۔ آرکٹیکچر میں مسلمان خواتین کے کارناموں پر بھی متعدد تحریریں آچکی ہیں۔ مغل انڈیا کی اکثر خوبصورت عمارتوں کے ڈیزائن میں عورتوں کا بھی بہت اہم رول رہا ہے۔ چند سال پہلے ایک عرب خاتون ضحی حدید کو آرکٹیکچر کا نوبل انعام مل چکا ہے۔ یہ انعام حاصل کرنے والی وہ پہلی خاتون تھیں۔ مسلمان خواتین اس میدان میں بھی اسلامی تہذیب کے اظہار و اعلان کے مواقع پیدا کرسکتی ہیں۔

رہن سہن

تہذیب کا ایک اہم محاذ وہ ہے جسے لائف اسٹائل یعنی طرز زندگی یا رہن سہن کا محاذ کہا جاسکتا ہے۔ لباس، فیشن، غذا اور طرز پکوان، گھر کی سجاوٹ کے طریقے وغیرہ امور اس ذیل میں آتے ہیں۔ لباس اور غذا کے معاملہ میں اسلامی تہذیب کے اپنے معیارات ہیں۔ حلال وحرام کی تمیز کے ساتھ مسلمانوں نے مختلف مقامی غذاؤں کو قبول بھی کیا اور انہیں ترقی بھی دی۔ جس کے نتیجہ میں ترکی، ایرانی، لبنانی، عربی، مغل، حیدر آبادی، پنجابی، ملے اور دیگر دسیوں قسم کے طرز ہائے پکوان Cuisinesاسلامی معاشروں میں رائج ہوئے۔ یہی نفیس مذاق لباس کے معاملہ میں بھی پروان چڑھا۔ عریاں، چست، شفاف ملبوسات کو مسلمانوں نے مسترد کیا اور اسلامی مذاق کے مطابق ساتراور باوقار ملبوسات کی مختلف قسمیں اسلامی معاشروں میں رائج ہوئیں۔

اگر مسلمان خواتین فیشن ڈیزائننگ وغیرہ میدانوں میں اسلامی قدروں کی سختی سے پابندی کے جذبہ کے ساتھ آگے بڑھیں تو وہ باحیا ملبوسات کے فروغ کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔

رہن سہن اور طرز زندگی سے متعلق اسلامی تہذیب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اسلام سادگی اور کفایت شعاری کی تعلیم دیتا ہے۔ فطرت سے ہم آہنگی اور قدرتی وسائل سے استفادہ میں احتیاط کی تعلیم دیتا ہے۔ فضول خرچ قرآن کی زبان میں شیطان کا بھائی ہے۔جدید مغربی سرمایہ دارانہ تہذیب نے صارفیت اور فضول خرچی کے رجحان کو تقویت پہنچائی ہے۔ اس کے نتیجہ میں دولت کی ہوس، سطحیت، سود اور قمار کی لعنت ، مادہ پرستی، طبقاتیت اورا س جیسی دسیوں برائیوں نے جنم لیا۔ آج ساری دنیا کے باشعور طبقات میں مغربی طرز زندگی کے خلاف بغاوت اور متبادل طرز ہائے زندگی اور قدیم روایات (Traditions) کے احیاء کا شعور پیدا ہورہا ہے۔ دنیا میں بہت سی تحریکات سادہ اور روایتی زندگی ہی کا لوگوں کو عادی بنانے کی کوشش کررہی ہیں۔ فضول خرچی سے اجتناب، ضروریات زندگی کی تحدید، زندگی کی سادگی اور عزائم و خیالات کی بلندی، (Simple living – High thinking) مصنوعات سے گریز اور ممکنہ حد تک پاک قدرتی اشیاء کا استعمال، غریبوں سے ربط و تعلق اور ہمدردی، دولت کا اچھے کاموں میں استعمال، اور زندگی کی اعلیٰ قدریں اور اعلیٰ مقاصد ، یہ سب مومنانہ اوصاف ہیں۔ جدید مغربی تہذیب ان میں سے ہر خوبی کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ جنسی بے راہ روی کی طرح مذکورہ خرابیاں بھی ہمارے معاشرہ کو جہنم میں بدل دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس لیے تہذیبی یلغار کامقابلہ کرتے ہوئے ان کا شعور و ادراک بھی ضروری ہے۔

مغربی تہذیب کے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ، اس مسئلہ کا تعلق بھی خواتین سے بڑا گہرا ہے۔ گھر کا بجٹ، اشیاء صرف کا انتخاب، معیارِزندگی کا تعین یہ سب اکثر گھرانوں میں عورتوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ خواتین چاہیں تو اس سیلاب کے آگے بند باندھ سکتی۔ مثلاً اس بات کی تبلیغ ہر جگہ کی جاسکتی ہے کہ ہم اپنے ہاں غیر ضروری گاڑیاں نہ رکھیں۔ ہفتہ میں ایک دن اور دن میں کچھ وقت گاڑی کے بغیر بھی گذاریں۔ (مثلاً نماز کے لیے پیدل جائیں یا کسی مخصوص وقت میں گاڑی استعمال نہ کریں۔) یا کچھ جگہوں پر سائیکل استعمال کریں۔ ممکنہ حد تک پاک قدرتی غذائیں استعمال کریں۔ کھانے کے معاملہ میں نبویؐ فارمولہ پر عمل کریں۔ جب بھوک لگے تب ہی کھائیں اور بھوک باقی رکھ کر دسترخوان چھوڑ دیں۔ بجلی کے استعمال میں احتیاط سے کام لیں۔ کپڑے اور جوتے، صاف اور اچھے پہنیں لیکن وارڈروب میں ان کی تعداد کو حد سے بڑھنے نہ دیں۔غیر ممالک میں بنی اشیاء پر فخر کرنے کی غلامانہ ذہنیت چھوڑیں۔ جن ہندوستانی اور برآمد شدہ اشیاء میں زیادہ فرق نہ ہو ان میں مقامی اشیاء کو ترجیح دیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے اندر بھی اور لوگوں کے مزاج میں بھی اس اعتبار سے تبدیلی لانے کی ضرورت ہے کہ ہم اشیاء کو محض ضرورت کی تکمیل کا ذریعہ سمجھیں، معیارِ زندگی، مرتبہ و مقام اور حیثیت کی علامت نہ سمجھیں۔ لوگوں کے مقام و مرتبہ کو ان کی گاڑی کے میک، موبائیل فون کے ماڈل اور گھریلو اشیاء کے معیار کی بنیاد پر طے کرنا اخلاقی اعتبار سے معیوب بھی ہے اور جدید دور میں صارفیت کے بڑھتے رجحان کا اولین سبب بھی ہے۔

ہمیں اپنے اندر بھی اور مسلم عوام میں بھی ماحول اور ماحولیاتی تحفظ کے تعلق سے حساسیت Sensitivityپیدا کرنی چاہیے۔ ماحولیاتی تحفظ کی سب سے طاقتور آواز مسلمانوں اور اسلامی تحریکات کی جانب سے اٹھنی چاہیے تھی اس لیے کہ وہی خدا کے خلیفہ اور اس کی امانتوں کے ٹرسٹی ہیں۔ لیکن یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ نہ صرف آوازیں دوسری جانب سے بلند ہورہی ہیں بلکہ ان میںہمارا سُر یا تو سرے سے شامل ہی نہیں ہے یا بہت کمزور اور دبا دبا سا ہے۔

ہر شہر اور بستی میں ہمارے بچوں، طلبہ، اور خواتین کو ماحولیاتی تحفظ کی تحریکات کا مشعل بردار بننا چاہیے۔ ہمیں خود بھی اپنے طرز زندگی کو فطری ماحول سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے معاشروں کو ماحول دوست طرز زندگی (Environment Friendly Life Style) کا عادی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

پلاسٹک کا غیر ضروری استعمال کرتے ہوئے، پانی کا اسراف کرتے ہوئے، موبائیل پر فضول باتیں اور فضول پیغامات کی ترسیل کرتے ہوئے، گاڑی چالو رکھ کر باتیں کرتے ہوئے، ہمیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم خدا کی ان امانتوں میں، جن کے تحفظ پر اگلی نسلوں کی بقاء منحصر ہے۔ کتنی بڑی خیانت کررہے ہیں۔ ہمیں خصوصاً اپنے بچوں اور نوجوانوں کو اس کے تعلق سے حساس بنانا چاہیے۔

ان سب باتو ںکا تعلق طرز زندگی سے ہے جو تہذیب کا ایک اہم حصہ ہے۔ آج جانے انجانے ہم ان معاملات میں مغرب کی مادہ پرست تہذیب کی پیروی کرتے ہیں۔ جبکہ اسلام کی تہذیبی قدریں کسی اور ہی طرز زندگی کا تقاضہ کرتی ہیں۔

روایات

تہذیب میں روایات کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ شادی بیاہ کے طریقے اور رسوم، خوشی اور غم کے مواقع کے رواج، گھر اور خاندانوںکا طرز معاشرت وغیرہ وہ امور ہیں جن سے کسی معاشرہ کی تہذیب کا پتہ چلتا ہے۔ ان سب امور پر عام طور پر خواتین کا ہی کنٹرول ہوتا ہے۔ اسلام نے ان سب امور کے سلسلہ میں بہت واضح ہدایات دی ہیں۔ ان ہدایات کا گہرا تعلق اسلام کے معاشرتی مقاصد سے ہے۔

شریعت نے نکاح کو نہایت آسان بنایا ہے۔ آسان اور جلد نکاح،ازدواجی تنازعات کے حل اور ضرورت پڑنے پر طلاق کا قرآن کا بتایا ہوا طریقہ، وراثت کی شریعت کے مطابق تقسیم ، نامحرم مرد و خواتین کے درمیان مناسب فاصلہ اور حجاب کے اصول، حیا کا اصول وغیرہ اسلامی معاشرت کے نہایت اہم اور اساسی اصول ہیں۔ جو روایات ان اصولوں سے متصادم ہیں وہ اسلامی تہذیب کی نمائندہ روایات نہیں ہوسکتیں۔ بدقسمتی سے ایسی بہت سی روایات ، دیگر تہذیبوں کے اثرات کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں عام ہوچکی ہیں۔ خواتین کا ایک اہم مطلوب تہذیبی کردار یہ ہے کہ وہ ایسی غیر صالح روایات کو جڑ سے اکھاڑیں اور صالح اسلامی روایات کو فروغ دیں۔ اس شمارہ کے دیگر مضامین میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث موجود ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں