تین طلاق کا قانون: کیا اس کا بھی غلط استعمال شروع ہوگیا؟

شمشاد حسین فلاحی

تین طلاق مخالف قانون آرڈیننس کی شکل میں تو پہلے ہی سے نافذ تھا مگر قانون کی صورت میں نافذ ہوجانے کے بعد اسے استحکام حاصل ہوا۔گزشتہ دنوں اترپردیش کے وزیر اعلیٰ نے تین طلاق متاثرہ خواتین کی ایک کانفرنس بھی بلائی اور انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ انھیں انصاف دلایا جائے گا۔ تین طلاق مخالف قانون کا نفاذ اور انصاف دلانے کا عزم اپنی جگہ کہ لوگ اب انتظار میں رہیں گے کہ انصاف مل رہا ہے یا نہیں مگر ہم نے گزشتہ مہینوں تین طلاق سے متعلق روزنامہ انقلاب کی خبروں پر گہری نظر رکھی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ تین طلاق سے متعلق معاملے ابھی تک ختم کیوں نہیں ہوئے۔ ایسا اس وجہ سے خیال کیا کہ ہمارے نزدیک نیا قانون آجانے کے بعد اس معاملے کو ختم ہوجانا چاہیے تھا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ ابھی تک بیک وقت تین طلاق دینے کے واقعات رپورٹ کیے جا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اس رپورٹ کو دہلی سے شائع ہونے والے روز نامہ انقلاب کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے۔

اگست اور ستمبر دو ماہ کی مدت میں کل ۱۱ تین طلاق کے واقعات انقلاب میں رپورٹ ہوئے ان میں سات واقعات صرف بلند شہر ضلع کے ہیں جو دہلی سے قریب مغربی اترپردیش کا ضلع ہے۔ جب کہ دیگر چار واقعات دوسرے مقامات کے ہیں۔ ایک واقعہ ہریانہ کے خطہ میوات کے نوح ضلع کا ہے جسے ضلع کا آٹھواں معاملہ قرار دیا گیا ہے۔ دوسرا دہلی شہر کا ہے، تیسرا مغربی یوپی کے کروکشیتر ضلع کے قصبہ لاڑوا کا ہے جب کہ ایک واقعہ میرٹھ کے مودی نگر کا ہے۔ ان واقعات کے درمیان ایک پانچواں واقعہ اور ہے جس کی نوعیت مختلف ہے۔ یہ بریلی کا ہے، یہ واقعہ اپنے آپ میں مسلم سماج کے لیے عبرت اور احتساب کی دعوت دینے والا ہے۔ شاہد ملک سے باہر نوکری کرتا ہے۔ اس کا فون پر اپنی بیوی شہناز بانو سے کسی بات کو لے کر تنازعہ ہوگیا۔ وطن واپسی پر دونوں فریقوں کے رشتہ دار جمع ہوئے، اور معاملہ سلجھایا، اور غلط فہمیاں رفع ہوگئیں اور دونوں ساتھ رہنے لگے۔ اس پر محلے کے چند مسلم مرد و خواتین ان کے گھر میں گھس آئے اور کہا کہ تمہاری طلاق ہوچکی ہے۔ ہم تمھیں محلے میں حرام کاری نہیں کرنے دیں گے۔ پہلے حلالہ کرو پھر ساتھ رہنا۔

رپورٹ کے مطابق ’’میرا حق‘‘ فاؤنڈیشن کی صدر فرحت نقوی سے متاثرہ جوڑے نے شکایت کی اور شہ زوروں پر پریشان کرنے کا الزام لگایا۔ ’میرا حق‘ کی فرحت نقوی موجودہ حکومت میں وزیر مختار عباس نقوی کی بہن ہیں، جنھوںنے تھانے میں واقعہ کی شکایت درج کرائی۔ اور اس طرح یہ واقعہ بھی تین طلاق کے ضمن میں آگیا۔ بریلی کے اس واقعے پر ہم خود کوئی تبصرہ کرنے کے بجائے اسے مسلم سماج پر چھوڑتے ہیں کہ وہ خود اس کا تجزیہ کرے اور دیکھے کہ ہم سماجی و معاشرتی اور دینی اعتبار سے کس مقام پر کھڑے ہیں۔ جب کہ نوح کا واقعہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں شوہر نے بھری پنچایت میں لوگوں کے سامنے تین طلاق دی اور طلاق کی وجہ جہیز میں ’بریزا‘ گاڑی نہ دینا بتایا گیا ہے۔

دہلی کا واقعہ وکیل جوڑے کا ہے۔ اس میں بیوی پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں اور شوہر کڑکڑ ڈوما کورٹ میں وکالت کرتے ہیں۔ دونوں کے درمیان پچھلے کچھ عرصے سے جھگڑا چل رہا تھا اور بیوی نے شوہر کے خلاف مار پیٹ کا بھی الزام لگایا تھا۔ کروکشیتر کے لاڑوا قصبہ کے معاملے میں بیوی نے تین طلاق کا الزام لگا کر ساس، جیٹھ، شوہر اور خاندان کی ایک دیگر خاتون کے خلاف مقدمہ درج کرایا ہے۔

تمام شکایتوں میں ایک ہی بات

تین طلاق کے ان واقعات میں جو مذکورہ روزنامے نے بیان کیے ہیں ایک بات اہم ہے کہ سبھی واقعات میں کسی نہ کسی صورت میں جہیز کا معاملہ دخل انداز ہے۔ جہیز کا مطالبہ ایسی بیماری ہے جو ازدواجی تعلق کو کبھی بھی پرسکون نہیں رہنے دے سکتی چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ شوہر و بیوی ہی کے درمیان نہیں بلکہ دونوں خاندانوں کے درمیان یہ چیز شدید قسم کے تنازعات اور اس سے آگے بڑھ کر ایسی دشمنی میں تبدیل ہو جاتا ہے، جس میں ہر فریق دوسرے کو ذلیل کرنے اور نقصان پہنچا کر اپنی بھڑاس نکالنے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور ہمارے سماج میں یہ چیز عام ہے۔ اس کا تعلق شوہر بیوی سے ہی نہیں بلکہ پورے کے پورے خاندان سے ہے۔

تین طلاق کے ان واقعات میں ایک بات اور ہے جو مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ اس میں رپورٹ شوہر ہی کے خلاف نہیں جو تین طلاق کا تنہا ذمہ دار ہے بلکہ خاندان کے دیگر افراد کے بھی خلاف بھی درج ہے اور یہ بات بھی سبھی واقعات میں سامنے آتی ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان پہلے ہی سے تنازعات چل رہے تھے جس میں مارپیٹ کے حادثات تک ہوچکے تھے۔

بین السطور کا مطالعہ

ان تمام خبروں کے بین السطور (Between the line) کو اگر بہ غور دیکھا جائے تو اس بات کو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ برسوں سے چلے آرہے تنازعہ کی صورت میں بدلہ لینے اور چھٹکارا پانے کی ایک صورت کی شکل میں تین طلاق کا استعمال بطور آلہ کار ہو رہا ہے۔ منظر اور پس منظر اس بات کو بہت واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ تین طلاق کو شوہر اور اس کے خاندان کو ’منہ توڑ‘ جواب دینے اور ’اچھا سبق سکھانے‘ کے نہایت کارگر طریقے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسا اس بات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ مقدمہ میں شوہر کے قریبی رشتہ داروں اور اہل خاندان کو ملزم بنایا گیا ہے جب کہ اگر معاملہ سمپل تین طلاق کا ہو تو اس کی ذمہ داری صرف شوہر پر عائد ہوتی ہے، وہی اس کا ملزم و مجرم ہے اور دیگر افراد خاندان اس سے بری ہیں ارو ہمارے سماج میں یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ہے۔ جہیز کی لعنت نے گھروں کا سکون اور ازدواجی زندگی کو ’نرک‘ میں بدل دیا ہے جس کی پوری مار صرف بیوی اور اس کے اہل خاندان پر پڑتی ہے اور جہیز کے لیے بیوی کو مختلف انداز سے ستایا جانا ہمارے سماج کی بڑی اور تلخ حقیقت ہے۔

قانون کا غلط استعمال

اب جب کہ تین طلاق مخالف قانون نافذ العمل ہے، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس جرم میں مقدمہ درج نہ کیا جائے مگر یہ تو ضرور کہیں گے کہ قانون کا غلط استعمال نہ ہونے دیا جائے کیوں کہ اس کا یا کسی بھی قانون کا غلط استعمال اس کے مقاصد کے حصول کے راستے بند کردیتا ہے اور سابقہ مدت میں ہم اس چیز کا مشاہدہ کرچکے ہیں۔ جہیز اور اس سے متعلق جرائم کو روکنے اور ازدواجی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ملک میں جہیز مخالف ایکٹ پہلے سے موجود ہے۔ جب یہ قانون بنا تو ازدواجی معاملات میں اس کا خوب غلط استعمال ہوا لیکن کیوں کہ اس میں ضمانت ملنے کی قانونی سہولت موجود تھی اس لیے اس سے خاندان بہت زیادہ متاثر نہیں ہوئے۔ اس کے بعد اس سے زیادہ اور سخت قانون ڈوماسٹک وائلنس ایکٹ آیا جس میں پیشگی ضمانت کی سہولت موجود نہیں تھی۔ اس قانون کا دھڑلے سے غلط استعمال ہوا یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے مداخلت کر کے اس کے غلط استعمال کو روکا اور اسے ضمانتی بنا دیا۔ نیز اس نے یہ ہدایت بھی جاری کی کہ فیملی معاملات میں جو اس قانون کے تحت آئیں مصالحت یا آربڑیشن کے عمل کو لازمی بنایا جائے۔ چنانچہ اس سے اس کا غلط استعمال تو نہیں رک سکا مگر غلط استعمال کی صورت میں بے گناہ لوگ جیل جانے سے ضرور بچ گئے۔ اس طرح یہ دونوں قانون بدلہ کی بھڑاس نکالنے کا سامان بن کر رہ گئے۔

جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ تمام ہی واقعات میں دو باتیں مشترک ہیں۔ ایک جہیز اور دوسرے تشدد تو ایسی صورت میں ہونا یہ چاہیے کہ اگر کوئی شوہر یا سسرال کے افراد جہیز کے لیے تنگ کریں تو فورا جہیز مخالف قانون کے تحت مقدمہ درج کیا جائے، اسی طرح اگر کوئی دلہن جسمانی تشدد کا نشانہ بنتی ہے تو اسے فورا ڈومسٹک وائلنس ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرانا چاہیے کیوں کہ ان دونوں ہی برائیوں کی سزا کے لیے پہلے سے قانون موجود ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ ہو یہ رہا ہے کہ ایف آئی آر درج ہو رہی ہیں جن میں الزام لگایا جاتا ہے کہ جہیز کا مطالبہ کرنے کے لیے مار پیٹ کی جاتی تھی اور اب تین طلاق دے کر گھر سے نکال دیا گیا ہے۔ ایسا اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ فیملی کے معاملات میں اب یہ واحد قانون ایسا بچا ہے جس میں گرفتاری سے نہیں بچا جاسکتا اور اکثر میاں بیوی کے درمیان چپقلش کی صورت میں عورت مرد کو جو ’سبق‘ سکھانا چاہتی ہے اور جو ’منہ توڑ جواب‘ دینا چاہتی ہے وہ اسی قانون کے تحت ممکن ہے اور اب یہ ہونے لگا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایف آئی آر صرف شوہر کے خلاف درج کی جاتی جو تین طلاق کا واحد ذمہ دار ہے مگر ایسا نہیں ہوتا بلکہ ایف آئی آر میں اب بھی خاندان کے دیگر لوگوں کے نام شامل کیے جا رہے ہیں جو قانون کی اس بنیادی روح کے خلاف ہے، جس کے لیے قانون بنایا گیا ہے۔

ہم تین طلاق بیک وقت دینے کے جرم میں مقدمہ درج نہ کرنے اور کرانے کی وکالت ہرگز نہیں کر رہے ہیں کہ یہ موجودہ قانون کے عین مطابق ہوگا مگر گھریلو اور خاندانی جھگڑوں کی صورت میں انتقام لینے کے لیے تین طلاق کے استعمال کو کسی صورت مناسب نہیں ٹھہرا سکتے۔ قانون قابل احترام ہے اور اسے قابل احترام رہنا چاہیے لیکن اس کا احترام قائم ہوتا ہے اس کی حفاظت سے اور قانون کی حفاظت یہ ہے کہ اس کے تحت بے گناہ لوگوں کو پھنسنے سے بچایا جائے اور اس کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف بھی اسی طرح قانونی کارروائی کی جائے، جس طرح اس قانون کے مجرم کے ساتھ کی جاتی ہے۔ اسی صورت میں قانون سے مطلوبہ مقاصد اور اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

مسلم سماج متوجہ ہو!

تین طلاق کا قانون کیوں کہ صرف مسلم سماج سے متعلق ہے اس لیے اسے اس معاملے میں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ اس قانون کے ذریعے اسلام کی شبیہ خراب ہوتی ہے اور دوسرے اس وجہ سے کہ اس میں یقینا دونوں ہی فریق مسلمان ہیں اور اہل ایمان کے درمیان تنازعہ کو ختم کرانے کے لیے آگے بڑھنا اللہ کے نزدیک قابل ستائش عمل ہے۔ اس لیے مسلم سماج میں ازدواجی تنازعات کے خاتمے کے لیے بڑے پیمانے پر کوشش ہونی چاہیے۔ ان کوششوں کا محور جہاں ابھرنے والے تنازعات کا حل ہو وہیں ان اسباب و واقعات کو بھی ختم کرنے کی بھرپور کوشش ہو جو اس کا سبب بنتے ہیں۔ ان اسباب میں سب سے بڑا سبب جہیز ہے جو لعنت بن کر ہماری خاندانی زندگی پر نازل ہوتا ہے اور یا تو گھروں کو آباد نہیں ہونے دیتا یا اچھے بھلے آباد گھروں اور خاندانوں کو توڑ دینے کا ذریعہ بنتا ہے۔

اگرچہ یہ بات صد فیصد واقعات میں نہیں کہی جاسکتی مگر اتنا طے ہے کہ جن واقعات میں یہ اسباب نہیں ہوتے ان میں طلاق اور علیحدگی کا عمل بھی باوقار انداز میں انجام پاتا ہے، لیکن جہاں جہیز اور لالچ کار فرما ہوتا ہے وہاں اس حد تک پہنچ جانا عین حقیقت کے قریب ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں