تین طلاق کا قانون

ڈاکٹر محی الدین غازی

تین طلاق قانون کے مضمرات بہت گہرے ہیں، اس میں شبہ نہیں کہ یہ ملک میں پنپنے والی ہندتوا طاقتوں کی سوچی سمجھی گہری سازش کا شاخسانہ ہے۔ اگر یہ ایک سادہ اصلاحی کوشش ہوتی جیسا کہ دعوی کیا جارہا ہے تو اس طرح ہرگز نہیں انجام دی جاتی جس طرح اسے انجام دیا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں اتنی بھی سنجیدگی نہیں دکھائی گئی جتنی دو آدمیوں کے بیچ کسی چھوٹے سے تنازعے میں دکھائی جاتی ہے۔ اور بدنیتی کا تو اس طرح کھل کر اظہار کیا گیا کہ اس پر ہلکا سا بھی پردہ نہیں رہ گیا۔

اس میں شک نہیں کہ یہ معاملہ مسلم پرسنل لا میں مداخلت کا کھلا آغاز ہے۔ اور اس آغاز کے لئے تین طلاق کے مسئلے کو بہت سوچ سمجھ کر اختیار کیا گیا ہے۔ (شرعی حکم سے قطع نظر) تین طلاق کے عمل میں ایسی خرابی ہے جو خود اس لفظ سے ظاہر ہوتی ہے۔ تین طلاق دینے کا منظر خود اس کے خراب ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ اور اسی وجہ سے اس ایشو کا انتخاب کیا گیا۔

ہمیں یہ ماننا چاہئے کہ مسلم معاشرے میں تین طلاق کا رواج مسلم معاشرے کی کمزوری بن چکا ہے۔ اور یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ تین طلاق کا شرعی حکم اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے جتنا بڑا مسئلہ تین طلاق کا رواج ہے۔ اگر کبھی کبھار، دس ہزار طلاقوں میں ایک بار، تین طلاق کا واقعہ پیش آجائے تو تین کو تین ماننے میں بھی زیادہ مضائقہ محسوس نہیں ہوگا۔ لیکن اگر تین طلاق ہی ذہنوں میں بیٹھ جائے، اور وہی طلاق کا عام طریقہ سمجھ لیا جائے، اور ایک طلاق کا تصور ہی ذہنوں سے نکل جائے، تو یہ بہت بڑی خرابی کی بات ہے۔

بہت ممکن ہے اس قانون سے یہ رواج درست ہوجائے، اور مستقبل میں کبھی اس قانون سے نجات ملے تو اس رواج کا بھی خاتمہ ہوچکا ہو، مگر شریعت پر جو ایک داغ لگایا گیا ہے، کہ شریعت سے جڑی ایک خامی کو مسلمان خود درست نہیں کرسکے، اور اسے ہندوستان کی ہندتوا طاقتوں نے درست کیا ہے، وہ بہت تکلیف دہ اور باعث شرم ہے۔

ہمیں سمجھنا چاہئے کہ اس معاملے میں مسلمانوں کے یہاں تین طلاق کے غلط رواج نے اسلامی شریعت میں مداخلت کا راستہ آسان کیا ہے۔ یاد رہے کہ جب تک ہم اپنی کمزوریوں کو اچھی طرح نہیں سمجھیں گے، اپنا صحیح دفاع نہیں کرسکیں گے۔ ‘تین طلاق قانون’ کی دیوار سے سر مارنے کے بجائے، ہمیں آج ہی یہ طے کرنا ہوگا کہ اپنی دوسری کمزوریوں کے سلسلے میں ہمارا فوری موقف کیا ہونا چاہئے۔

ہندتوا طاقتوں کی سیاسی ضرورت یہ ہے کہ وہ ہندو مذہب اور ہندو رسم ورواج اور ہندوانہ تصورات کا خود کو علم بردار بتاتی رہیں، اسی میں ان کی بقا اور برقراری ہے۔ اور چونکہ ان کے بس میں یہ نہیں ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات پر اپنی برتری ثابت کرسکیں، اس لئے ان کے سامنے ایک راستہ بس یہ بچتا ہے کہ وہ اسلام اور مسلمان دونوں کے کردار کو نشانہ بنائیں۔ مسلمانوں کو اس ملک کے لئے خطرناک بتائیں، اور اسلام کو انسانی قدروں کے لئے نقصان دہ بتائیں۔ وہ لوگ یہ بحث کبھی نہیں کرانا چاہیں گے کہ انسانیت کے لئے بہتری کس مذہب اور نظام میں ہے، ان کا سارا زور اس پر رہے گا کہ اسلام اور مسلمانوں کی اتنی اونچی آواز کے ساتھ کردار کشی کی جائے کہ اس شور شرابے میں پھر کوئی دوسری آواز سنائی نہیں دے۔

اس وقت نظریاتی طور سے ہندوستانی مسلمانوں پر یک طرف جنگ مسلط کردی گئی ہے، مسلمانوں کی اور ان کی شریعت کی خامیوں کا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ اس جنگ سے بہت سے زخم آنے کے اندیشے ہیں، تاہم اس میں بڑا فائدہ یہ پوشیدہ ہے کہ مسلمان اپنی منصبی ذمہ داری سے جو مجرمانہ غفلت برت رہے ہیں، اور دین کی دعوت کو غیر ضروری سمجھ کر اس ملک میں رہ رہے ہیں، اس غفلت سے باہر آنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔

بہترین اور کامل دین رکھنے والی امت کا منصب تو یہ ہے کہ اس کی طرف سے دین کے ہر ہر جزء￿ کو اس اعتماد کے ساتھ پیش کیا جائے کہ اس دین کا ہر جزء￿ انسانیت کے لئے خیر اور بھلائی کا ضامن ہے۔ اس امت کا منصب یہ ہے کہ وہ آگے بڑھ کر انسانوں کے درمیان رائج غلطیوں کی طرف انہیں متوجہ کرے، اور ان کے مذاہب اور قوانین میں پائی جانے والی ظلم کی چھوٹی سے چھوٹی شکل کی بھی نشان دہی کر کے اس کے اوپر بھرپور تنقید کرے۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک عزیز میں رہنے والے مسلمانوں کی طرف سے یہاں نافذ قوانین اور یہاں رائج تصورات کی خامیاں بتائی جاتیں، ان کی اصلاح کی کوشش کی جاتی، اسلام کی خوبیوں کا خوب چرچا کیا جاتا، اور اقلیت میں ہونے کے باوجود ملک کی سب سے طاقت ور آواز اسلام کے علم برداروں کی آواز ہوتی۔ کیوں کہ وہ آواز اس یقین اور اعتماد سے بھرپور ہوتی کہ اسلام کے ہر جزء میں عدل اور خیر ہے۔

لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ تین طلاق کا حوالہ دے کر اسلام کے ایک جزء کو ظلم کی ایک شکل بتاکر پیش کیا جارہا ہے، اور مسلمان نہ تو اس پوزیشن میں ہیں کہ اس کا ظلم نہیں ہونا ثابت کرسکیں، اور نہ اس پوزیشن میں ہیں کہ اس کے غیر اسلامی ہونے کو تسلیم کرسکیں۔ ہندتوا طاقتیں کچھ اس طرح باور کرا رہی ہیں کہ جیسے انگریزوں نے ہندؤوں کی ستی کی ظالمانہ رسم کو ختم کیا اسی طرح وہ مسلمانوں کے یہاں سے تین طلاق کے ظالمانہ قانون کو ختم کرنے جارہی ہیں۔ تہذیبوں اور مذاہب کے معرکے میں اسلام اور اہل اسلام کو اس قدر خفت کا سامنا شاید ہی کبھی کرنا پڑا ہو۔

‘تین طلاق قانون” کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعہ اسلامی شریعت کو انسانیت کے پہلو سے عیب دار قرار دیا گیا ہے۔ اور دین کو بدنام کرنے اور اس کی دعوت کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ کھڑی کرنے کی خطرناک سازش رچی گئی ہے۔

اسلام کی سب بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اول تا آخر خوبیوں سے عبارت ہے۔ دنیا کے کسی مذہب یا نظریے کے ماننے والے اپنے مذہب یا نظریے کی خوبیوں کے سلسلے میں اس قدر پریقین اور پراعتماد نہیں ہوسکتے ہیں، جس قدر اسلام کے ماننے والے ہوسکتے ہیں۔ “صرف خوبیاں” اسلام کا بہت بڑا امتیاز ہے۔ اسلام میں اگر کہیں کوئی خامی نظر آتی ہے تو وہ اسلام کی خامی نہیں ہے، یا تو مسلم علماء￿ کی اجتہادی غلطی ہے، یا مسلم عوام کے رویہ کا بگاڑ ہے۔ ہم ایسی غلطیوں اور ایسے بگاڑ کی اصلاح پر کتنی قدرت رکھتے ہیں، یہی ہمارا امتحان ہے، اور اسی میں ہماری فتح کا راز مضمر ہے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں