سمعی و بصری آلات یا آڈیو ویوژل میڈیا آج تعلیم و تفریح کا ایک اہم ذریعہ بن گیا ہے۔ گذشتہ دس برسوں میں ہندوستان میں جو بڑے انقلابات آئے، ان میں الیکٹرانک میڈیا کا انقلاب بھی شامل ہے۔ ۲۴ گھنٹوں کی نشریات کے ساتھ بے شمار چینلز کی موجودگی، ڈی ٹی ایچ اور انٹرنیٹ ایکسس کی سہولتوں کے باعث دنیا بھر کے من چاہے چینلوں تک رسائی، اور فلیٹ اسکرین اور تھری ڈی جیسی اڈوانس ٹکنالوجیز سے آراستہ ہارڈویئر— ان سب نے ہمارے لوینگ رومس کا نقشہ ہی بدل دیا ہے — بچوں اور بڑوں کے، گھر میں گزرنے والے وقت کا بڑا حصہ ٹیلی ویژن کے سامنے گزر رہا ہے۔ مغربی دنیا میں ایک لمبے تجربہ کے بعد ٹیلی ویژن کے استعمال میں بالیدگی اور شعور نظر آنے لگا ہے۔ مگر ہمارے ملک میں ٹیلی ویژن کا استعمال ابھی بھی نابالغی کے مرحلہ میں ہے۔
اس تناظر میں ایک مسلمان ماں کے لیے ٹیلی ویژن کے تربیتی پہلوؤں سے واقفیت، اس کے متوازن استعمال کا سلیقہ اور متبادل ذرائع کا شعور ضروری ہے۔
بڑوں کے لیے بے شک ٹیلی ویژن میں فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی — لیکن بچوں کے لیے تو ٹیلی ویژن سراسر نقصان دہ ہے — اس کے نقصانات ہمہ پہلو ہیں۔
ایک اندازہ کے مطابق جس گھر میں ٹیلی ویژن موجود ہے اور بچے کے لیے متبادل سرگرمی موجود نہیں ہے، وہاں بچہ اوسطاً ۲۳ گھنٹے فی ہفتہ ٹیلی ویژن دیکھتا ہے۔ اس دوران وہ اوسطاً تقریباً ۳۰۰ تشدد کے واقعات دیکھتا ہے۔ تقریباً ۸۰ عریاں مناظر، بوسہ بازی، اورجنسی ہیجان کے مناظر دیکھتا ہے۔ اور تقریباً ۶،۷ سو تجارتی اشتہارات اس کی نظروں سے گزرتے ہیں۔ سونے کے بعد واحد سرگرمی جس میں اس کا سب سے زیادہ وقت گزرتا ہے وہ ٹیلی ویژن کا نظارہ ہے۔ یہ کیفیت بچہ کے ذہن پر جو اثرات ڈالتی ہے وہ یہ ہیں:
۱- وہ سمجھتا ہے کہ زندگی میں کچھ حاصل کرنے کے لیے تشدد نہایت ضروری ہے۔
۲- جنس اور جنسی اعمال اس کے نزدیک زندگی کی سب سے بڑی دلچسپی بن جاتے ہیں۔
۳- مصنوعات اور اشیاء کا شوق اور نتیجتاً بدترین قسم کی مادہ پرستی اس کی شخصیت کا جز بن جاتی ہے۔
(تفصیلات کے لیے دیکھئے F.A.A.P، ڈاکٹر بنجامن اسپوک Televeision’s Impacts on Children)
یہ تو ہوئے ٹی وی کے اخلاقی نقصانات — یہ بات اب مسلمہ ہے کہ ٹی وی بچوں کی ذہنی ترقی کے لیے بھی سمِّ قاتل ہے۔چونکہ ٹی وی بچوں کی وہ واحد سرگرمی ہے جس میں دماغ کا کوئی استعمال نہیں ہے۔ اس لیے اس سے ذہنی صلاحیتیں ٹھٹھر جاتی ہیں۔ بچہ پڑھتا ہے تو پڑھی جانے والی چیز کا ذہن میں تصور کرتا ہے۔ اس سے اس کی تصوراتی Visualisationصلاحیت بڑھتی ہے۔ نئی چیزیں ساتھ ساتھ سوچتارہتا ہے۔ اس سے اس کی تخلیقی صلاحیت Creativityبڑھتی ہے۔ پڑھنے کے لیے اسے ذہنی صلاحیتیں مرکوز کرنی پڑتی ہیں۔ اس سے توجہ کا دورانیہ Attention Spanبڑھتا ہے۔ ٹی وی کے تیز مناظر ان سب کے مواقع فراہم نہیں کرتے۔
ایک اسٹڈی کے مطابق جو بچے تین سال سے کم عمر میں ٹی وی دیکھتے ہیں وہ سات سال کی عمر کو آتے آتے ایک قسم کی کند دماغی کا شکار ہوجاتے ہیں جیسے میڈیکل سائنس کی کتابوں میں Attention Deficit Hyperactivity Disorder (ADHD)کا نام دیا گیا ہے۔
(دیکھئے: Christakis et. al “Early Television Exposure and Subsequent attention problem in children” Pediatric 2004; 113: 708-713)
ایک اور اسٹڈی کے مطابق ٹیلی ویژن کے استعمال سے بچوں کے اندر بے سکونی، توجہ نہ دے پانے کی صلاحیت، کمزور حافظہ اور کمزور تخلیقیت جیسی بیماریاں پروان چڑھتی ہیں۔ (دیکھئے: Dr. Carolyn A. Mc Carty “Is excessive T.V. viewing in children linked to ADHD, Neuropsychiatry Reviews)
یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے امراض اطفال کے ڈاکٹروں کی انجمنAmerican Academy of Pediatricsنے سفارش کی ہے کہ تین سال کی عمر تک بچوں کو بالکل ٹی وی نہ دکھایا جائے اور تین سال کی عمر کے بعد بھی بعض مخصوص قسم کے پروگرامس ہی (جن کی نشاندہی اکیڈمی نے کی ہے) دکھائے جائیں۔
چنانچہ ہمارا پہلا مشورہ یہ ہے کہ اگر بچے گھر میں ہوں تو ٹی وی کو اسٹور روم میں بند کرکے قفل لگادیجیے۔ دین دار گھرانوں میں ہی نہیں، بلکہ دنیا بھی میں پڑھے لکھے اور باشعور والدین آج یہی کررہے ہیں۔ صرف امریکہ میں ۳۰؍لاکھ سے زیادہ پڑھے لکھے خاندانوں نے ٹی وی سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انگریزی صحافت میں آج ٹی وی کے لیے کثرت سے Idiot Box (احمقوں کا ڈبہ) کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔
ٹی وی کا آسان متبادل کمپیوٹر ہے۔ کمپیوٹر میں بھی ٹی وی کی طرح بصریات (Visuals) اور صوتیات (Sound) کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اور ٹی وی کی بہت سی تفریحات کا کمپیوٹر پر بھی نظم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کمپیوٹر کے ٹی وی کے مقابلہ میں درج ذیل فائدے ہیں:
(۱) کمپیوٹر ٹی وی کے برخلاف دو طرفہ مواصلات کا Interactiveذریعہ ہے۔ اس لیے استعمال کرنے والے کو ذہن و دماغ کے استعمال کا موقع موجود ہے۔
(۲) ٹی وی کے برخلاف کمپیوٹر پر چلائے جانے والے پروگراموں کا آپ انتخاب کرسکتے ہیں۔ اس لیے ایسے تشدد اور جنس سے پاک بناسکتے ہیں۔
(۳) کمپیوٹر پر اشتہارات اور خصوصاً ذہنوں کو مسخر کرنے والے اشتہارات کا امکان نہیں ہے۔ اس لیے مادہ پرستی کا خطرہ بھی کم ہے۔
(۴) کمپیوٹر کے استعمال کی عادت دیگر ذہنی وتعلیمی پروگراموں میں بھی معاون بنتی ہے۔
گرچہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے بھی بہت سے نقصانات ہیں۔ اور ان کا بھی غیر محتاط و غیر متوازن استعمال مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ لیکن ٹی وی کی طرح فی نفسہ کمپیوٹر بچوں کے لیے نقصان دہ نہیں ہے۔ کمپیوٹر کا صحیح استعمال بچوں کی ذہنی ترقی کا ذریعہ بنتا ہے۔ ٹی وی کے صحیح اور بہت ہی منضبط استعمال سے اس کے اخلاقی نقصانات سے ممکن ہے، بچا جاسکے لیکن بچوں کے لیے ذہنی نقصانات سے بچنا ممکن نہیں۔
۳ سال سے کم عمر بچوں کے لیے کمپیوٹر کے ویڈیو پروگراموں کا بھی بہت زیادہ استعمال مفید نہیں ہے۔ لیکن ذیل کی ہدایات کا لحاظ رکھا جائے اور توازن و احتیاط برتی جائے تو چھوٹے بچوں کے لیے بھی تعلیم، ذہنی اور عملی صلاحیتوں کے ارتقاء وغیرہ کے لیے کمپیوٹر کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔
بازار میں بچوں کی چوسی ڈیز دستیاب ہیں وہ مندرجہ ذیل قسم کی ہیں:
(۱) معلوماتی سی ڈیز، جس میں دنیا کی معلومات، جانوروں، پھلوں وغیرہ کا شعور، اے بی سی کی تعلیم، دنیا کے عجائبات، سائنسی معلومات وغیرہ ہوتی ہیں۔
(۲) امریکہ اور یوروپ میں بنی ہوئی یا ان کی نقالی میں ہندوستان میں بنی ہوئی، کہانیوں نظموں Rhmesوغیرہ کی سی ڈیز۔
(۳) ہندو دیو مالاؤں پر مشتمل سی ڈیز۔
ان میں آخری دونوں قسموں کے نقصانات کسی مسلمان قاری سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمان ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ نرسری رہائمس Nursery Rhymes کے نام سے جو زہر ہمارے بچوں کے ذہنوں میں انڈیلا جاتا ہے وہ اتنا معصوم نہیں ہے جتنا بظاہر نظر آتا ہے۔ ان میں وہ ساری مغربی تہذیبی قدریں موجود ہیں، جن سے اسلام کی اصل لڑائی ہے۔
اسی طرح ہندو دیو مالائی کہانیوں میں بھی ہندو تہذیبی قدریں ہی بنیاد بنائی گئی ہیں۔
ان دونوں قسموں سے اگر بچنا ممکن ہو تو بچا جائے بصورت دیگر کم از کم ماں باپ کو ان کی خرابیوں کا شعور ہونا ضروری ہے۔ اور انہیں یہ احتیاط ملحوظ رکھنی چاہیے کہ بچے ان نظموں میں پوشیدہ قدروں کو قبول نہ کریں۔
مثلاً میں نے بعض انگریزی نغموں میں دیکھا کہ سور (Pig) اور شراب (Wine) کا پسندیدہ جانور اور پسندیدہ مشروب کے طور پر ذکر ہے۔ اگر ماں باپ احتیاط نہ برتیں تو بچپن ہی سے بچہ کے ذہن سے ان محرمات کی کراہیت نکل جائے گی۔
رہی پہلی قسم یعنی سائنسی و معلوماتی سی ڈیز، تو ان کا بھر پور استعمال ہوسکتا ہے۔
کمپیوٹر اور ملٹی میڈیا پروگراموں کے ذریعہ بچوں کے اندر کئی چیزیں پروان چڑھائی جاسکتی ہیں۔ بعض چیزوں کا مناسب وضاحتوں کے ساتھ ہم نیچے ذکر کررہے ہیں:
(۱) بچوں کو خدا کی مخلوقات انفس و آفاق کے مشاہدہ کا موقع دیجیے۔ اور ان کے ذریعہ ان کے اندر خدا کی وحدانیت، اس کی عظمت و کبریائی، زندگی کی اہمیت، خدا کے لیے جذبۂ شکر وغیرہ جیسے جذبات پروان چڑھائیے۔ قرآن مجید نے بھی توحید،رسالت اور آخرت کے لیے انفس و آفاق ہی کو دلیل بنایا ہے۔ اور ان پر غور کرنے کی تعلیم دی ہے۔ دنیا میں گھومنے پھرنے (السائحون و سیروا فی الارض) اور کائنات کا مشاہدہ کرنے کی تعلیم دی ہے۔
سائنسی و معلوماتی سی ڈیز کا اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے بچے سی ڈی دیکھ لیں۔ اس کے بعد ماں تھوڑی دیر اس پر ان سے بات کرے۔ اور دورانِ گفتگو مندرجہ بالا مقاصد حاصل کرے، یا بچوں کو قرآن کی متعلقہ ایک دو آیات سنا کر ان کی آسان تشریح کرے پھر سی ڈی دیکھنے کے لیے دے دے۔
ہارون یحییٰ کی سی ڈیز اس کے لیے بہت مفید ہوسکتی ہیں۔ لیکن انہیں صرف بڑے بچے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کے لیے یہ ہوسکتا ہے کہ ماں خود بیٹھ کر مناظر (Visuals) دکھائے اور ساؤنڈ بند (Mute) کرکے خود سمجھاتی رہے۔
ہارون یحییٰ کی کچھ سی ڈیز اگر مائیں دیکھ لیں تو وہ دیگر معلوماتی سی ڈیز کو بھی اس انداز سے بچے کے لیے استعمال کرسکتی ہیں۔
(۲) بچوں کو اللہ کے پیغمبروں، بزرگوں اور اکابر امت کے واقعات سنائیے — عمر مختار، علامہ اقبال وغیرہ پر ویڈیوز ہندوستان میں بھی دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ تاریخی مقامات اور شہروں پر بنی فلموں کو ان شہروں سے وابستہ قصوں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً دریائے نیل اور مصر کے شہروں اور وادیوں پر بہت سی فلمیں اور ڈاکیومینٹری موجود ہیں۔ ایک ذہین ماں بہت آسانی سے ان فلموں کو استعمال کرکے موسیٰؑ کا واقعہ ذہن نشین کراسکتی ہے۔
(۲) صبح، شام بچوں کے کانوں میں قرآن مجید کی تلاوت، ترجمہ اور اسلامی نغموں کے بول پڑنے دیجیے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ قرآن مجید کا ایک ایسا انتخاب کیا جاتا جس میں قرآنی قصے، اخلاقی تعلیمات اور اللہ کی بڑائی و کبریائی سے متعلق قرآنی اقتباسات ہوتے، ان کا آسان بچوں کی زبان میں ترجمہ کیا جاتا اور بچوں کو سمجھانے والے انداز اور لب و لہجہ میں انہیں پڑھاجاتا۔ صبح شام یہ سی ڈی دلنشین تلاوت کے ساتھ لگائی جاتی۔
مائیںکم سے کم یہ کرسکتی ہیں کہ موسیٰ، عیسیٰ، یوسف، ابراہیم، اسماعیل علیہم السلام کے قصے لقمان کی نصیحتوں وغیرہ پر مشتمل آیات، سی ڈی میں سے منتخب کرکے لگادیں اور تلاوت و ترجمہ بچے صبح صبح سن لیں اور شام میں جب وہ کھیل رہے ہوں تو کمپیوٹر پر اسلامی نغمے بچتے رہیں۔
(۳) عام CDsمیں بھی ایسی سی ڈیز جن سے بچوں کی معلومات پڑھتی ہیں، ان کے سوچنے غور کرنے اور اختراع کرنے Innovationکی صلاحیت بڑھتی ہے، ان کااستعمال کیا جاسکتا ہے۔
کمپیوٹرگیمز میں سے بعض ایسے ہیں جو بے مقصد ہیں۔ بعض تشدد اور مار دھاڑ سے بھر پور ہیں۔ ان سے گریز کیا جانا چاہیے۔ لیکن بعض گیمز، بچے کے غوروفکر کی صلاحیت، قوتِ فیصلہ، قوتِ حافظہ، الفاظ پر قدرت وغیرہ کو چیلنج کرتے ہیں۔ ایسے چیلنجنگ گیمز کی مناسب احتیاطوں کے ساتھ حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے۔
ویب سائٹس پر اچھی معلومات کی تلاش،مختلف ویب مقابلوں میں حصہ کمپیوٹر پر پینٹنگ، رنگ بھرنا، ریاضیاتی اور سائنسی مشغلے، چھوٹی موٹی پروگرامنگ، ویب ڈیزائننگ، زندگی کے حقیقی مسائل کی نقالی (Simulation) پر مبنی پروگرام — ان چیزوں کو بھی ماں باپ مناسب کنٹرول رکھ کر بچہ کو استعمال کے لیے دے سکتے ہیں۔
بالی ووڈ (اور ہالی ووڈ) کی بھی بچوں کے لیے بنائی گئی بعض معلوماتی فلمیں (جن کی اکثر چلڈرنس فلم فیسٹول میں نمائش ہوتی ہے) بھی بچوں کو دکھائی جاسکتی ہیں۔ لیکن ان فلموں کا بہت ہی احتیاط کے ساتھ استعمال ضروری ہے۔
(۴) امریکہ اور یورپ کے بعض اداروں نے بچوں کے لیے بعض مفید اسلامی پروگرام بھی تیار کیے ہیں۔ یہ پروگرام اکثر بہت مہنگے ہیں۔ لیکن اگر ممکن ہو تو ان کی نیچے دی گئی ویب سائٹس پر جاکر کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ راست آپ یہ پروگرام خرید سکتی ہیں۔
1. www.soundvision.com
2. http://astrolabe.com
3. www.noorart.com
4. http://muslim.families.com/blog/toys-for-muslim-children
5. www.iplayandlearn.com
6. http://www.simplyislam.can/corner.asp
7. www.islamicity.com/bazar
(۵) ہندوستان میں بچوں کے لیے مفید ویڈیوز تیار کرنے کا کام صفر کے برابر ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں نقالی Piracyکا مسئلہ اس قدر گمبھیر ہے کہ کوئی کمپنی تجارتی مقاصد کے لیے اس محاذ پر قدم رکھنے کی جرأت نہیں کرتی۔ اس لیے یہ کام رضا کارانہ طور پر ہی ہونا ہے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری کچھ پڑھی لکھی بہنیں اور گھریلو خواتین (Hosuewives) اس طرف متوجہ ہوں۔ جدید ٹکنالوجیز نے ویڈیو، اینمیشن، گرافکس، کارٹون وغیرہ کا کام بہت آسان بنادیاہے۔ کوئی بھی خاتون جو کمپیوٹر چلانا جانتی ہو، تھوڑی سی ٹریننگ لے کر یہ کام آسانی سے کرسکتی ہے۔ کارٹون فلمیں، اسلامی گیمز، نغمے، یہ سب آسانی سے بنائے جاسکتے ہیں — آپ Youtubeاور goodle videoجیسی سائٹس میں جاکر دیکھئے، چھوٹے چھوٹے بچے گھر بیٹھے بطور مشغلہ فلمیں بنا رہے ہیں اور انہیں افادۂ عام کے لیے اپ لوڈ بھی کررہے ہیں۔ کاش یہ کام اسلامی حلقوں میں بھی ہو۔
حجاب کی قارئین میں سے کوئی پڑھی لکھی بہن اس کام کا بیڑا اٹھائے تو یہ ایسا ثوابِ جاریہ ہوگا جو ہزاروں مساجد کی تعمیر سے زیادہ افضل ہوگا۔ مزید راہ نمائی اور معلومات کے لیے مضمون کا مصنف sadathusaini@gmail.comپر حاضر ہے۔