اسلام میں صفائی ستھرائی اور طہارت و پاکیزگی کو بڑا اہم مقام حاصل ہے۔ معاشرتی زندگی میں صفائی ستھرائی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اسی صورت میں مہذب اور صحت مند رہ سکتا ہے، جب کہ اس کے افراد صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھتے ہوں۔ ہمارا دین چوں کہ دین فطرت ہے، اس لیے یہ صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ترجمہ: ’’اور اللہ صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
اسلام صرف عبادت اور بندگی کے وقت ہی پاکیزگی اختیار کرنے کی تلقین نہیں کرتا، بلکہ ایک سچے مسلمان کو ہر وقت اور ہر لمحہ جسمانی اور روحانی طور پر پاک و صاف رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ظاہری و باطنی ہر طرح کی پاکیزگی مطلوب ہے۔ آپﷺ نے نہایت تفصیل کے ساتھ طہارت اور پاکیزگی کے اعمال بھی بتائے اور احکام بھی ۔ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’پاکیزگی نصف ایمان ہے۔‘‘ آپؐ نے خود بھی پاک و صاف رہتے اور صحابہ کرامؓ کو بھی صفائی اور پاکیزگی کی تعلیم دیتے تھے۔
ارشادِ ربانی ہے: اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک وصاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ پاک رہنے والوں ہی کو پسند کرتا ہے۔ (التوبہ) اس آیت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کی کتنی اہمیت ہے۔ صحیح مسلم اور مسند احمد میں ارشادِ نبویؐ ہے: طہارت و پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے، صفائی نصف ایمان ہے۔
جسمانی پاکیزگی عبادت کے لیے بنیادی شرط ہے جب کہ دل کی پاکیزگی دخول جنت کی بنیادی شرط ہے۔ فرمان عالی شان ہے: ’’جس دن کہ مال اور اولاد کچھ کام نہ آئے گی، لیکن فائدہ والا وہی ہوگا جو اللہ کے سامنے بے عیب دل لے کر جائے۔‘‘ (الشعراء)
ابن قیم رقم طراز ہیں: ایسا دل قطعاً اللہ کے قریب نہیں ہوسکتا جس کو خواہشات نفسانی اور ریا کے ساتھ گندا کر دیا گیا ہو۔‘‘
جسموں کی طرح دل بھی بیمار اور تندرست، مردہ اور زندہ ہوتے ہیں۔ جب دل کو گندگی سے دور کیا جاتا ہے، وہ رحمت و بھلائی سے بھر جاتا ہے۔ اسلام نے صحت قلب کے لیے مکمل اہتمام کرتے ہوئے ایسی تمام باتوں سے منع کیا ہے جو فسادِ دل کا باعث ہوں۔ بغض اور حسد دلوں کی بیماری کا سبب ہیں۔ اسی لیے نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’بغض و حسد نہ کرو، پیٹھ نہ پھیرو، اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن جاؤ۔‘‘ نبی کریمﷺ کے پاس ایک شخص آیا، آپﷺنے صحابہ کرامؓ سے فرمایا: ’’تمہارے پاس جنتی شخص تشریف لایا ہے۔‘‘ جب اس سے اس کے عمل کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس نے کہا: ’’میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے لیے کینہ نہیں رکھتا۔‘‘ (مسند احمد) قرآن کریم میں مومنوں کی دعا یہ ہے: ’’اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ نہ ڈال۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا: جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے، جب وہ توبہ و استغفار کرتا ہے تو یہ مٹ جاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کرے تو یہ مزید بڑھ جاتا ہے اور دل بھر جاتا ہے۔ (ترمذی) یہ وہی زنگ ہے، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کیا ہے: ’’یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے۔‘‘
ہر شخص کو چاہیے کہ وہ شب و روز دل کی طہارت کا سامان کرے۔ دل کو صاف کرنے والی چیز پانچ وقت کی نمازیں ہیں۔ نبی کریمؐ کا فرمان ہے: ’’اگر تمہارے گھر کے سامنے سے نہر رواں ہو اور تم روزانہ اس میں پانچ بار نہاؤ تو کیا تمہارے جسم پر میل کچیل رہے گا؟ پانچ نمازوں کا بھی یہی معاملہ ہے، ان کے ذریعے اللہ گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔‘‘ (متفق علیہ) طہارت کے ساتھ نماز ادا کرنا جنت میں داخلے کاسبب ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’جو مسلمان اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر مکمل یک سوئی کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔‘‘ (متفق علیہ)
وضو دل او ردیگر اعضا کی طہارت کا باعث ہے۔ نبی کریمؐ کے ایک فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ جب کوئی بندہ وضو کرتے ہوئے منہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے کی ساری خطائیں، جھڑ جاتی ہیں۔ جب ہاتھ دھوتا ہے تو ہاتھوں سے کیے جانے والے گناہ جھڑ جاتے ہیں اور جب پاؤں دھوتا ہے تو پاؤں کے ذریعے کیے جانے والے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک صاف ہو جاتا ہے۔ (متفق علیہ) جو شخص وضو کے بعد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرتا ہے، اس کے لیے روز قیامت جنت کے آٹھوں دروازے کھولے جائیں گے۔ جس میں سے چاہے داخل ہوجائے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی بھی دل کی طہارت و پاکیزگی کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجیے، جس کے ذریعے آپ انہیں پاک صاف کردیں۔‘‘ قرآن مبین بھی جسموں اور دلوں کی شفا کا باعث ہے۔ فرمایا گیا: ’’یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لیے تو سراسر شفاء اور رحمت ہے۔ ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی۔‘‘
نیک لوگوں کی صحبت، زبان کی حفاظت اور فتنوں سے دامن بچانا دل کی پاکیزگی و طہارت کا باعث ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’دلوں پر فتنے پیش کیے جائیں گے، جیسے چٹائی (کثیر) تنکوں کے ساتھ تیار ہوتی ہے۔ جو دل ان (فتنوں کو) قبول کرلے گا، اس کے دل پر سیاہ نقطہ لگ جائے گا اور جو انکار کردے گا، اس کے دل پر سفید نقطہ لگا دیا جائے گا۔‘‘
انسان کی ظاہری پاکیزگی باطنی پاکیزگی کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اسلام نے پیدائش سے وفات تک ایک مسلمان کی بدنی طہارت کا بہ خوبی اہتمام کیا ہے۔
حضورﷺ خوشبو پسند فرماتے۔ آپﷺ کے سر کی مانگ میں مشک کی چمک نظر آتی۔ آپﷺ کا معمول تھا کہ ہر وضو اور نماز کے ساتھ، گھر میں جاتے اور نیند سے بیدار ہوتے وقت مسواک کرتے۔
نبی پاکﷺ نے جہاں جسمانی طہارت و روحانی پاکیزگی کی تاکید فرمائی اور خود بھی اہتمام کیا وہیں آپ نے ماحول، آس پاس، گھر، برتن اور راستوں تک کو صاف رکھنے کی تاکید فرمائی۔ راستوں اور گزر گاہوں اور پانی کے تالابوں اور دریاؤں میں بول و براز اور گندگی ڈالنے سے منع فرمایا۔ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کو صدقہ قرار دیا۔ آپﷺ نے پیتے ہوئے برتن میں سانس لینے اور کھانے پر پھونکنے سے منع فرمایا، مشکیزے کو منہ لگا کر پینے سے منع فرمایا۔ آپﷺ نے حکم دیا کہ نیند سے بیدار ہوکر ہاتھ تین بار دھونے سے قبل برتن میں نہ ڈالا جائے اور جب کتا برتن میں منہ مار لے تو برتن کو سات بار دھویا جائے اور دھوتے ہوئے پہلی دفعہ مٹی استعمال کی جائے۔ (متفق علیہ)
نبی کریمﷺ نے تکلیف دہ بو سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا، فرمایا: ’’کوئی شخص لہسن اور پیاز کھا کر ہم سے یا ہماری مساجد سے دور رہے اور اپنے گھر میں آرام کرے۔‘‘
دل اور کپڑوں کی باہمی ظاہری اور باطنی مناسبت ہوتی ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ لہٰذا ریشم، سونے اور درندے کی کھال پہننے اور کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔lll