الرجی جسم کے مختلف حصوں میں الگ الگ انداز میں اثر دکھاتی ہے۔ ان میں جلد کی الرجی سب سے عام الرجی ہے جو اس وقت لوگوں کو اپنا شکار بنا رہی ہے۔ جلد پر سرخ رنگ کے چکتے، ریش آنا، کالے دھبے، سرخ رنگ کے باریک دانے اور جلد پر خارش اور داغ اکثر جلدی الرجی ظاہر کرتے ہیں۔ اگر اس کے علاج پر صحیح وقت میں صحیح قدم نہ اٹھایا جائے تو یہ خطرناک صورت بھی اختیار کرسکتی ہے اور مستقل بیماری بھی بن سکتی ہے۔
جلد کی الرجی کے اسباب اور وجوہات بھی مختلف ہوتی ہیں۔ غیر مناسب غذا سے لے کر ماحول میں پائی جانے والی آلودگی تک اس کے اسباب ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ کی جلد پر سرخ رنگ کے داغ یا دھبے پڑ گئے ہیں جلد پر خراش جیسی نمودار ہوگئی ہیں یا دانے اور خارش جیسا محسوس ہو رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ جلد کسی طرح کی الرجی کا شکار ہوگئی ہے۔ شروع میں تو یہ کبھی کبھی ظاہر ہوتی ہے لیکن اگر اختیاط نہ کی جائے اور مناسب علاج نہ کیا جائے تو پھر بار بار جلد اس کیفیت کا شکار ہونے لگتی ہے اور زندگی مشکل ہوجاتی ہے۔
کئی لوگوں کو گائے کے دودھ، مچھلی یا انڈے سے الرجی ہوسکتی ہے۔ کبھی ایسا بھی ممکن ہے کہ کوئی ایسی چیز کھانے سے بھی الرجی ہوجاتی ہے جس میں یہ چیزیں ملی ہوں۔ اسی طرح الرجی کا اثر بھی مختلف افراد کو مختلف طرح سے ظاہر ہوتا ہے۔ کسی کو انڈا کھاکر پیٹ میں درد ہوسکتا ہے تو کسی کو مچھلی کی بوسے الٹیاں شروع ہوسکتی ہیں۔ مگر جلد کی الرجی کا مطلب ہے براہِ راست جلد پر اس کا اثر ظاہر ہونا۔ گھر میں کسی بچے کو اونی کپڑے سے الرجی ہوسکتی ہے۔
٭ کسی پالتو جانور مثلاً بلی، بکری، خرگوش یا کتے سے الرجی ہوسکتی ہے اور اس کا اثر کسی بھی صورت میں جلد پر ظاہر ہوسکتا ہے۔
٭ اسی طرح کبھی کبھی کسی پانی میں نہانے سے بھی الرجی ہوسکتی ہے کیوں کہ ممکن ہے اس پانی میں ایسی کیمیائی تاثیر ہو جس کو جلد قبول نہ کرسکے۔
٭ گھر میں اگر تعمیر کا کام چل رہا ہے تو گھر کے کسی فرد کو گرد و غبار یا سیمنٹ سے بھی الرجی ہوسکتی ہے۔ ماحولیاتی آلوگی جلد کی الرجی کا عام سبب ہے جس سے شہری زندگی آج کل بہت زیادہ متاثر ہے۔ گاڑیوں کا دھواں اور اس سے نکلنے والی گیس، فیکٹریوں میں استعمال ہونے والے کیمیائی مادوں کی مہک اور ان کے فضا میں زہریلے اثرات آج کل شہری آبادی کے جلد کے بڑے دشمن بن کر ابھر رہے ہیں۔
٭ کبھی کبھی پلاسٹک یا دھات کی بنی ہوئی چیزیں بھی کچھ لوگوں کے لیے الرجی کا سبب بن سکتی ہیں۔ مثلاً نقلی زیورات، پلاسٹک سے بنی غیر معیاری چیزیں، استعمال کی چیزوں سے چھٹنے والارنگ بھی الرجی کا سبب بن سکتا ہے۔
٭ ہیر ڈائی، کسی بھی کاسمیٹک پرفیوم، پیشانی پر لگائی جانے والی بندی یا صابن اور شیمپو بھی الرجی کا سبب ہوسکتے ہیں۔
بچوں میں الرجی
ایسا نہیں ہے کہ جلد کی الرجی صرف بڑوں کو ہی ہوتی ہے۔ یہ بچوں کو بھی اپنا شکار بنا سکتی ہے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ نوزائدہ بچوں کے جسم پر سرخ رنگ کے دانے یا نیلے رنگ کے داغ نظر آتے ہیں یہ الرجی ہی کی شکل ہیں۔ جو خود بخود کچھ دن بعد ختم ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح ڈائپر پہنانے کے سبب بچوں کے جسم پر جو ریشیز آتے ہیں وہ بھی الرجی ہی کی شکل ہے۔
کارگر تدابیر
٭ متاثر مقام کو پھٹکری کے پانی سے صاف کریں اور اس پر کافور اور سرسوں کا تیل لگائیں۔
٭ آملہ کی گٹھلی کو جلا کر راکھ بنالیں۔ اس میں ایک چٹکی پھٹکری اور ناریل کا تیل ملا کرپیسٹ بنالیں اور اسے متاثر جگہ پر لگاتے رہیں۔
٭ کھٹی چیزوں اور تیر مرچ مسالوں سے پرہیز کریں۔ روز صبح لیموں کا پانی پئیں۔
٭ چندن اور لیموں کا رس برابر مقدار میں ملا کر لگائیں۔ متاثر جلد کو مسلسل ٹھنڈے پانی کی دھار سے دھوتے رہیں۔
٭ دہی میں چٹکی بھر ہلدی ملا کر لگائیں۔ خشک ہوجائے تو دھو دیں۔
٭ الرجی کی جگہ والی جلد پر روغن زیتون کی مالش کریں۔
ڈاکٹروں کی رائے
٭ تازہ پھلوں اور تازہ سبزیوں کے زیادہ استعمال سے اس بیماری سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔
٭ جن چیزوں سے الرجی ہو یا ہوسکتی ہو ان سے بچا جائے۔ مثلاً اگر گرد و غبار سے الرجی ہو تو گرد و غبار سے بچیں۔ گھر کی صفائی وغیرہ کرتے وقت منہ پر ڈھاٹا یا ماسک لگا کر کام کریں۔
٭ الرجی کی جگہ جلد پر صابن یا دیگر کسی کیمیکل کا استعمال نہ کریں بلکہ صرف ٹھنڈے پانی سے دھوئیں۔
٭ وٹامن بی اور سی سے بھرپور غذا کھائیں اور جسم کی قوت مدافعت کو بڑھانے پر توجہ دیں۔٭ ڈاکٹر کے مشورے سے اینٹی الرجک دوا استعمال کریں۔
اہم بات
الرجی سے محفوظ رہنے کے لیے سب سے اہم چیز ہے احتیاط اور بچاؤ۔ جو خواتین اس کا خیال نہیں رکھتیں وہ اکثر کسی نہ کسی صورت میں جلدی الرجی کا شکار ہوتی رہتی ہیں۔ اپنی جلد کے حفاظت کے لیے اور صحت مند زندگی کے لیے ’’احتیاط کو علاج سے بہتر‘‘ قرار دیاگیا ہے۔ تاہم اگر کبھی ایسی کیفیت ہو تو اپنی جلد کی حالت اور کیفیت کو پہچان کر فوراً ضروری علاج کیا جانا چاہیے۔ کیوں کہ اس میں غفلت آپ کو کئی صورتوں میں شدید دشواریوں سے دوچار کرسکتی ہے۔
(ڈاکٹر آرتی مشرا سے گفتگو پر مبنی۔ادارہ)