کمرے کے ایک جانب کھڑکی کے ساتھ میز جڑی تھی جس پر کتابوں اور اوراق کا ڈھیر لگا تھا۔ہوا تیز چلتی تو کچھ کاغذ پھڑپھڑاتے اور پھر ساکت ہوجاتے۔ قلم، سیاہی اور کچی پینسلوں کا بھی ڈھیر لگا تھا۔ کمرے کی حالت اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھی کہ یہ کسی لکھاری کا کمرہ ہے آپ مجھے ایک صحافی بھی کہہ سکتے ہیں۔ میں نقاد بھی تھا، شاعر بھی اور مصنف بھی، لیکن میں اب گم نام تھا یا ہونا چاہتا تھا۔ میری آنکھ رات کے کسی پہر کھلی، کسی نے بہت نوکیلی چیز مجھے چبھوئی تھی میں نے بمشکل آنکھیں کھولیں، ادھر ادھر دیکھا اور جب یہ اطمینان کرلیا کہ وہاں کچھ نہیں تو کروٹ بدل کر پھر سونے کی کوشش کی کیونکہ پچھلی دو راتوں سے نیند مجھ سے دور تھی اور میں جانتا تھا کہ اس کی وجہ کیا ہے۔
دراصل میرے دل و دماغ نے مجھے کچھ لکھنے پر زور ڈالنا شروع کیا تھا کیونکہ حالات اتنی تیزی سے بدل رہے تھے کہ لکھنا ضروری تھا (مگر میں اس بار لکھنا چھوڑنے کا ارادہ کر چکا تھا)۔ ویسے بھی اب مجھے پڑھنے والے کون تھے؟ کتابیں بے مول ہو گئی تھیں، لکھاری بے وقعت تھے اور قلم کی طاقت کمزور ہو گئی تھی۔ کاغذ، قلم اور کتاب سے دوستی کرنے والے لوگ جدت پسندی کی دوڑ میں لگ گئے تھے۔ دنیا انگلیوں کی پوروں میں سمٹ آئی تھی۔ ٹیکنالوجی کے دور میں سب سے زیادہ لات میرے رزق پر پڑی تھی۔ (میں جو ایک نامور قلم کار تھا، اب اس شعبے سے عرصہ ہوا کنارہ کشی اختیار کرچکا تھا۔ کئی مضامین ادھورے تھے، کتنی کہانیاں منظرِ عام پر آنے کے لیے بے چین تھیں۔ کئی تلخ حقائق تھے جو اگر چَھپ جاتے تو بہت سے مکروہ چہرے لوگوں کے سامنے آجاتے مگر رفتہ رفتہ میرے جذبے سرد پڑ چکے تھے۔ اب میں ایک عام انسان بن کر جینا چاہتا تھا، جذبات سے عاری بے حس انسان بننا چاہتا تھا، عام تماشائی بن کر موج مستی کرنا چاہتا تھا۔
یوں میں دوبارہ نیند آنے کی کوشش میں لگا رہا اور کامیاب بھی ہوگیا مگر ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ پھر چبھن کا احساس ہوا۔ اس مرتبہ اور زیادہ نوکیلی چبھن تھی میں تلملا کہ چیخ پڑا ‘‘کون ہے؟’’ میں نے بستر پر لیٹے لیٹے کروٹ بدلی اور ہاتھ بڑھا کر لیمپ روشن کیا۔’’میں ہوں تمارا قلم۔‘‘
لیمپ کے قریب رکھے قلم نے سر اٹھایا۔ ’’اوہ! تو تم ہو۔۔۔ مگر نوک کیوں چبھو رہے تھے؟ صبح بات کر لیتے، ابھی تو سونے دو۔‘‘ میں نے بے زاری سے کہا۔’’ایک مرد مومن ہو کر تم سو کیسے سکتے ہو؟‘‘ قلم حیرت سے بولا:
’’کیا مطلب !!! میں کیوں نہیں سو سکتا؟ میں نے اچنبھے سے پوچھا۔ پوری قوم سو رہی ہے، میرے سونے سے تمہیں کیا تکلیف ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’دکھ تو اسی بات کا ہے کہ ایک حساس دل لے کر بھی تم سو رہے ہو۔ قلم کی طاقت ہوتے ہوئے بھی تم نے اس کا استعمال چھوڑ دیا؟ یہ صلاحیت تو عطیہ خداوندی ہے، تم کو اس کا حق ادا کرنا ہے۔‘‘ قلم نے پھر میرے جذبات کو جھنجھوڑا۔ اب قلم میرے سینے پر چڑھ آیا۔ اپنے قلم کی اس جسارت پر مجھے شدید غصہ آیا۔ مگر چونکہ یہ قلم مجھے میرے استاد نے دیا تھا، اس لیے اسے کچھ نہ کہا۔کچھ دیر سوچا پھر کہا،،، ’’تم کچھ بھی کہو مگر اب میں نے لکھنا چھوڑ دیا ہے میرے لکھنے سے کوئی انقلاب نہیں آسکتا، نہ ہی میرے لفظوں کی کاٹ سوئے ہوؤں کا ضمیر جگا سکتی ہے بہتر ہوگا تم بھی سو جاؤ۔’’
میں نے اسے سینے سے اتار کر واپس سرہانے رکھ دیا مگر اس نے اس مرتبہ میرے سینے کو نشانہ بنایا اور اپنی نوک گھسائی۔ میں نے غصے سے اسے دیکھا کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اس نے میز کی جانب دیکھا اور چھلانگ لگا کر وہاں پہنچ گیا جہاں میرے اثاثے، میری تحریریں، مسودے، کتابیں، سب اداس پڑی تھیں۔ اچانک ان سب پر قلم نے اپنی روشنائی چھڑکنا شروع کردی۔ ’’ارے!! ارے !! یہ تم کیا کر رہے ہو؟؟مت کرو، رکو رک جاؤ ‘‘میں نے دونوں ہاتھوں سے اسے روکا یہ میری عمر بھر کی محنت، ریاضت، میرے خواب ہیں یہ سب، اسے خراب مت کرو میں نے التجا کی۔
کیوں اب کیوں تمیں دکھ ہورہا ہے؟ قلم وہیں سے چلایا! جب تم نے ان تمام کاموں سے ہاتھ اٹھا لیا تو ان ردی کاغذوں کا کیا کرنا ہے؟ ایسے بھی تو پڑے ہیں سالوں سے، دھول میں اٹ گئے ہیں، دوات سوکھ گئی، قلم خشک ہوگئے، الفاظ مٹ گئے جب تک تم تعریف کے گلدستے سمیٹ رہے تھے سب بہت اچھا لگتا تھا جب تک تمہیں تقاریب میں بطور مہمانِ خصوصی مدعو کیا جاتا تھا تم خوش ہوتے اور تم مجھے بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے، میری طاقت کو، قلم کی طاقت کو، جہاد سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔
آج جب زمانہ اپنی چال بدل رہا ہے تو تم نے ہار مان لی۔ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے بجائے پیچھے ہٹ گئے۔ تم تو ہمیشہ حق کی آواز بنتے تھے، اور آج تم نے لکھنا چھوڑ دیا۔ کیا تم اس طرح اپنے فرض سے بری الذمہ ہوجاؤگے؟ تم کوئی فحش گو افسانہ نگار تو نہیں تھے یا پیسوں کی خاطر سب اچھا ہے لکھنے والے بھی نہیں تھے۔ تم تو ایک ایسے مرد مجاہد ہو جو اپنی تحریروں سے ہر محاذ پر جہاد کرتا ہے۔ اپنے لفظوں کی کاٹ سے جوش جگاتا اور لہو گرماتا ہے۔
قلم غصے سے بول رہا تھا۔ لکھنے کا عمل تو ہر وقت جاری ہے۔ لوح محفوظ پر لکھا جارہا ہے۔ کرامًا کاتبین لکھ رہے ہیں، سدرۃ المنتہیٰ پر قلم چلنے کی آواز نبیؐ نے سنی۔ قلم کے ذریعے تو علم بھیجا گیا، لکھا جانا بھی تو ’’آثَارَھم‘‘ ہے۔
قلم بولتے بولتے روہانسا ہوگیا،، اور تم کہتے ہو کہ تم عام انسان بن کر جینا چاہتے ہو، ضمیر کو سلا کر چین سے جینا چاہتے ہو؟ جہاد بالقلم نہیں کرنا چاہتے؟
میرا سر ندامت سے جھک گیا۔ میں ساکت تھا، جامد تھا۔ سارے لفظ مجھ سے ناراض ایک طرف ہاتھ باندھے کھڑے تھے میں کیا کہوں؟ سچ تو یہ تھا کہ قلم نے حرف بہ حرف درست کہا تھا۔ ’’ٹھیک ہے تم خاموش رہو عالم اسلام کی طرح، چاپلوس ایوانوں کی طرح، گونگے بہرے حکمرانوں کی طرح، اندھی رعایا بن کر جیتے رہو مگر یوم حساب اپنی صلاحتیوں کے استعمال کا جواب دینا ہوگا میں وہاں تمہارا گریبان پکڑوں گا۔ قلم بولا۔‘‘
ہم بھی!! ہم بھی!! کاغذوں، کتابوں نے بھی صدا بلند کی۔ اب میں بھی جینا نہیں چاہتا قلم یہ کہہ کر زمین کی طرف لڑھک گیا۔نہیں نہیں، رکو…میں بستر سے بہ مشکل اٹھا اور اپنے مفلوج نچلے دھڑ کو نیچے اتارتے اتارتے گر گیا اور اپنے بے جان وجود کو لے کر گھسٹتے گھسٹتے قلم تک پہنچا اور اسے اٹھا کر چوم لیا۔ میں جسمانی طور پر معذور ضرور تھا مگر ذہنی طور پر بیدار تھا۔ سرحدوں پر نگہبان نہیں بن سکتا تو کیا ہوا؟ قلم کے ذریعے تو لڑ سکتا تھا لہذا میں نے قلم کو پھر مضبوطی سے پکڑ لیا۔ کیونکہ میں مردِ مجاہد ہوں مجھے جہاد بالقلم کرنا ہے۔جہادِ بالقلم۔