حجاب اورمقصد حجاب

ثہمینہ خان

پردہ جس کے لیے حجاب کا اصطلاحی لفظ استعمال کیا جا تاہے اسکے معنی اوٹ اور رکاوٹ کے ہیں ۔ حجاب کا حکم قرآن مجید کی اس آیت میں آیاھے جسمیں اللہ تعالی نے لوگوں کو نبی کریم ﷺ کے گھر میں بے تکلف آنے جانے سے منع فرمایا تھا کہ اگر گھر کی خواتین سے کوئی چیز مانگنی ہوتو پردے کی اوٹ سے مانگا کرو۔

دور جدید ہو یا دور قدیم ، عورت کو ہر دور میں شرم وحیا کا پیکر بناکر بھیجا گیا ہے اور ہمیشہ بے حیائی و بے پردگی سے اجتناب کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن مجید بیان کرتا ہیکہ جب شیطان نے حضرت آدمؑ اور حضرت حوا ؑ کو بہکایا ، جسکے نتیجے میں انکا ستر کھل گیا ،تو انھوں نے پتوں سے اپنا جسم ڈھانک لیا۔ یہ فطری شر م و حیا کا عنصر ہی تھا۔ آخر کار جب انھوں نے اس درخت کا مزا چکھا تو انکے ستر ایکدوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے (سورۃ الاعراف)

انسان اپنی تخلیق کے وقت سے عریانی اور بر ہنگی کو ناپسند کرتا ہے اسلام نے عورت کی عزت و تکریم کیلئے مردوں میں غیرت کا جذبہ بیدارکیا اور نبیﷺ نے اس شخص کو دیوث قرار دیا جسے اپنے اہل خانہ کی بے حرمتی پر غیرت نہیں آتی ۔

پردہ دراصل جس چیز کا نام ہے اس پر غور کرنے سے اسکے تین بڑے مقاصد سامنے آتے ہیں۔

اول یہ کہ عورتوں اور مردوں کے اخلاق کی حفاظت کی جائے اور ان کی خرابیوں کا دروازہ بند کیا جائے جو مردوں اور عورتوں کے آزادانہ میل جول سے پیدا ہوتی ہے۔

دوسرے یہ کہ عورتوں اور مردوں کا دائرہ عمل الگ کیا جائے تاکہ فطرت نے جو فرائض عورت کے سپرد کئے ہیں اسکو وہ اطمینان کے ساتھ انجام دے سکے اور جو خدمات مرد کے سپرد ہیں اسکو وہ اطمینان کے ساتھ بجا لاسکے ۔

تیسرے یہ کہ گھر اور خاندان کے نظام کو محفوظ اورمضبوط کیا جاسکے جسکی اہمیت مسلم ہے بلکہ زندگی کے دوسرے نظاموں میں سب سے بڑھکر ہے۔

اسلام عورت کو پورے حقوق دیتا ہے اوراسکے ساتھ گھر اور خاندان کے نظام کو بھی محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔جن لوگوں نے اس نظام کی حفاظت نہیں کی اور حقوق نسواں کا نعرہ لگایاانکا گھر بکھرتا چلا گیا اور جرائم بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ بیجا خواہشات کے تقاضوں نے عریانی کو جگہ دی اور پھر عریانی نے جنسی آوارگی کو جنم دیا اور نوبت یہ آگئی ہیکہ لوگوں کے اس سے بھی دل نہیں بھرتے اور واقعہ یہ ہے کہ آئے دن کثرت سے جنسی جرائم رونماہورہے ہیںجسکا اصل سبب بے حجابی ہے۔

حجاب کا حکم معاشرہ کو متوازن کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔یہ اسلامی شریعت کا طرئہ امتیاز اور قابل فخر دینی جذبہ اور اسلام کا شعار شرم وحیا کی علامت ،حسن وجمال کا سب سے خوبصورت تاج ،ادب وکمال کی سب سے بڑی دلیل اجلال و احترام کی چادرہے حجاب عورت کواسلامی وقار اور نسوانی شخصیت کا تحفظ فراہم کرتاہے

قرآن کریم نے تبرج کا لفظ استعمال کیاہے جسکے معنی یہ ہیکہ عورت اپنے حسن و جمال اور چہرے وجسم کے محاسن کا اظہار کرے ۔ اللہ تعالی نے اس تبرج سے اور بدکاری کی طرف جانے والی راہوں اور اظہار حسن وجمال کے نقصانات سے معاشرے کو محفوظ رکھنے کیلئے،فتنہ وفساد سے بچانے کیلئے پردہ کو قلعہ کے طور پر اپنانے کا حکم دیا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جن اعلی اخلاق کے ساتھ مبعوث کیا گیا انمیں سے ایک گراں قدر خلق حیا ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کا جز اوراسکی شاخوں میں سے ایک شاخ قرار دیا۔ حیا عورت کا وہ بنیادی جوہر ہے جو اسکی فطرت کے تقاضوں کی تکمیل کرتاہے ۔جن تہذیبوں میں عورت کی حیااور مرد کی غیرت کو ختم کردیاگیاتاریخ گواہ ہیکہ وہ معاشرتی زوال سے بچ نہیں سکیں ۔اسلام نے عورت کے حجاب اور دونوں کے عدم اختلاط پر جس معاشرت کی بنیاد رکھی ہے اسکی پرسکون فضا میں دونوں اصنافی جذبات و ہیجانات سے محفوظ رہکر اپنی ذ مہ داریاں بطریق احسن اداکر سکتے ہیں۔

اسلامی اخلاقیات میں حیا کا دائرہ اسقدر وسیع ہیکہ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ اس سے چھپاہوا نہیں ہے چنانچہ تمدن و معاشرت کا جو شعبہ انسان کی صنفی زندگی سے تعلق رکھتا ہے اسمیں بھی اسلام نے اصلاح اخلاق کیلئے اسی خلق حیا اور اقدار کی پاسداری کو نمایاں مقام دیا ہے۔

جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو ایک اندھے صحابی (حضرت عبداللہ ابن مکتومؓ) سے بھی پردہ کرنے کی ہدایت فرمائی تو حضرت ام سلمہؓ اور حضرت میمونہؓ نے کہا یا رسول اللہﷺ وہ تو اندھے ہیں ان سے بھی پردہ ضروری ہے ؟؟ تو اس پر آپ ﷺ نے کہا کیا تم بھی اندھی ہو کیا تم اسے نہیں دیکھ سکتیں؟؟

غرض جب ہم بے لباسی یا عورت کی بے حجابی کے فتنوں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں تو نتائج کے طور پر جو نکات سامنے آتے ہیں انمیں اخلاقی حس کا تعطل ، فواحش کی کثرت، شہوانیت اور بے حیائی کی وباء ، جسمانی قوتوں کا انحطاط، خاندانی نظام کی بربادی، نسل کشی اور تفریق اور مختلف برائیاں سامنے آتی ہیں۔ بہر کیف اس سلسلے میں دختران اسلام کو معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے کے بجائے فخریہ اللہ تعالی کے اس حکم کو عام کر نا چا ئیے تاکہ پوری دنیا کی خواتین اس سے مستفید ہوسکیںاور حجاب کو اپنے تحفظ کے لئے بہ حیثیت حکم اپنائیں۔

تحفظ حجاب کیلئے مندرجہ ذیل کام کرنے ہونگے۔

٭ سادہ لباس اور سادگی کو اپنا شعار بنانے کی تلقین کی جائے۔

٭ لوگوںکے اندر باطن کی اصلاح کے جذبہ کو فروغ دیا جائے

٭ فتنہ نظر، فتنہ زبان، فتنہ آواز، فتنہ عریانی، جذبہء نمائش حسن ، ان تمام ہی عناصر کو پھیلانے والے ذرائع کا خاتمہ کیا جائے۔

٭ عورت اور مرد کو اخلاقی حدود کا پابند بنایا جائے۔

٭ عریانی اور ہیجان انگیز مناظر کی تشہیر سے روکا جائے یا ایسے ذرائع کو مسدود کیا جائے جو عریانیت کی طرف لے جاتے ہوں۔

٭ تعلیم وتربیت کے ذریعہ سے افراد کی ذہنیت درست کی جائے اور انکی اس حد تک اصلاح کردی جائے کہ وہ عریانی سے نفرت کرنے لگیں۔ اور ایسی فضاء تیار کی جائے جسمیں بے لباسی،عریانی، بے حجابی و برہنگی کوقابل ملامت اور لائق شرم محسوس کریں۔

٭ ان تحفظات کو اپناکر ہی ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کی جاسکتی ہے جسمیں اخلاق کا وصف سب سے نمایاں ہو اور عورتوں سے بھی آخر میں یہ کہنا ہیکہ وہ اپنی صنفی اہمیت کو پہچانیں کیونکہ وہ معاشرے کی معمار ہے اور اسکا وجود قابل احترام و معاشرے کی ترقی و بقاء کا ضامن ہے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں