خواتین کمیشن کی رپورٹ
گزشتہ مہینے کے پہلے ہفتہ میں ’’نیشنل کمیشن فار ومن‘‘ کی رپورٹ پیش کی گئی، جس میں آنکھ کھول دینے والے اور شرم سے سر جھکا دینے والے حقائق قوم کے سامنے پیش کیے گئے تھے۔ آپ کے ماہنامے میں اس رپورٹ پر تنقید و تبصرہ بھی شائع ہوا۔
ومن کمیشن کی یہ رپورٹ اس حیثیت سے بہت اہمیت کی حامل تھی کہ اقتصادی ترقی، مساوات اور عورتوں کی تحریکات کے اس دور میں بھی ہندوستان میں عورتوں کی اس بدحالی کا تصور شاید عام آدمی نہیں کرسکتا تھا۔ مگر اس رپورٹ کے پیش ہوتے ہی بس ایک دن اخبارات میں اس پر ہلکی پھلکی رپورٹیں شائع ہوئیں اور بس۔ نہ میڈیا میں بحث ہوئی اور نہ ہی وہ دھماکہ ہوا جو حقیقت میں اس بم کے پھٹنے سے ہونا چاہیے تھا۔ اس کی وجہ؟؟
ومن کمیشن کی اس شرمناک رپورٹ پر تو پورے ملک اور پورے سماج میں بھونچال آجانا چاہیے تھا۔ ہفتوں اس پر بحث ہونی چاہیے تھی، خواتین تنظیموں کو سڑکوں پر آجانا چاہیے تھا اور خواتین کی ایک تحریک اٹھ کھڑی ہونی چاہیے تھی، جو اس وقت تک نہ رکتی جب تک ہماری حکومت خواتین کی اس حالت زار کو سدھارنے کے مضبوط اور مثبت اور عملی اقدامات کایقین نہ دلادیتی۔ لیکن یہ ہماری قومی’ بے ضمیری‘ ہے یا اس رویے کا فطری نتیجہ جو سماج عورت کے لیے عملی زندگی میں روا رکھے ہوئے ہے۔ اگر ہمارا سماج واقعی عورتوں کو عزت و احترام دلانے اور برابری کی سطح پر لانے کے لیے سنجیدہ ہوتا تو اس سستی اور بے حسی کا مظاہرہ نہ ہوتا جو ہم نے ومن کمیشن کی رپورٹ دیکھ کر کیا۔ اس سے یہ بات صاف ہوگئی کہ عورتوں کی حالت کو بہتر بنانے کے تمام دعوے اور وعدے جھوٹے اور کوششیں بے بنیاد ہیں، تنظیمیں اور ادارے فریب اور ان کے حق میں بولنے والے محض اسٹیج کے خواہش مند۔
عام ہندوستانی سماج کی طرف سے اس پر جس بے حسی کا مظاہرہ ہوا اس پر تو کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی لیکن اس بات پر حیرت ہے کہ ’اسلام پسند‘ خواتین اور دینی جماعتوں کی طرف سے بھی مکمل سرد مہری ظاہر کی گئی اور کسی نے بھی اس پر تشویش اور فکر کا اظہار کرتے ہوئے حالات کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی حکومت سے اپیل نہیں کی۔
ڈاکٹر نکہت فاطمہ، لکھنؤ یونیورسٹی، لکھنؤ
اچھاگھر کیسے بنتا ہے
ماہ نومبر کا حجاب سامنے ہے۔ ٹائٹل خوبصورت اور توجہ کھینچنے والا ہے۔ نظر پڑتے ہی بے اختیار اٹھا کر پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ میرے خیال میں پرنٹنگ پہلے سے زیادہ بہتر ہوئی ہے۔ مزید بہتر بنانے کی کوشش کی جائے تو اچھا ہے۔ اس ماہ کے خاص مضامین میں خواتین کمیشن کے پیش کردہ حقائق پر تحریریں پسند آئیں۔ بزمِ حجاب کے مضامین بھی اہمیت کے اعتبار سے بہت اچھے تھے۔ کتاب اور مطالعہ پسند آیا۔ اس لیے بھی کہ اب ہماری خواتین ہی کیا مردوں میں بھی پڑھنے کا شوق کم ہوتا جارہا ہے۔ دن بھر کی مصروفیات سے جب آتے ہیں تو کچھ ٹی وی میں لگایا اور سورہے۔ ویسے بھی آج کل ہر آدمی اپنی معاشی زندگی میں اتنا مصروف ہے کہ اسے اپنے شخصی ارتقا کی نہ تو فکر نہ اور نہ وہ ضرورت محسوس کرتا ہے۔ کچھ لوگ ضرورت تو محسوس کرتے ہیں مگر وقت دینانہیں چاہتے۔ ایسے مرد وخواتین کو واقعی اس طرف متوجہ کرنا ضروری ہے کہ لاکھ مصروفیات کے باوجود کچھ نہ کچھ وقت اچھی کتابیں پڑھنے اور اچھا سوچنے کے لیے ضرور فارغ کیا جائے۔
’کیسے بنیں ہر دل عزیز‘ اس حیثیت سے پسند آیا کہ یہ پڑھنے والی خواتین کو اپنے اندر خوبیاں پیدا کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ ورنہ آج کل سماج میں لوگ دوسروں کے رویوں پر خوب تنقیدیں کرتے ہیں، شکوے شکایت کرتے ہیں، مگر اپنی ذات اور اپنے رویوں پر نظر نہیں ڈالتے، جبکہ ہمارا اپنا رویہ ہی لوگوں میں ہماری قدرومنزلت اور مرتبہ متعین کرتا ہے۔ ہمارے حضورﷺ کے بارے میں ان کے ساتھیوں کا احساس یہ تھا کہ رسولﷺ سب سے زیادہ اس سے محبت کرتے ہیں۔ تصور کیجیے کہ ہر آدمی یہی سمجھتا ہو تو آپؐ کا لوگوں کے ساتھ کیسا پیارا اورموہ لینے والا سلوک ہوتا ہوگا۔ جبکہ آج لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کی غیبت کرتے رہیں، عیب نکالتے رہیں، منھ چڑھا کر بات کریں مگر اس کے باوجود لوگوں سے یہ توقع کرتے ہیں کہ لوگ ان کا احترام کریں گے۔
نومبر کے شمارے میں ایک مضمون سسرالی رشتے کیسے نبھائیں شائع ہوا۔ پسند آگیا مگر سوچتی ہوں کہ ایک لڑکی سسرال میں جس قدر سخت حالات سے دوچار ہوتی ہے اس میں رشتوں کو نبھانے کی یکطرفہ کوشش کس طرح کامیاب ہوسکتی ہے۔ ہر جگہ بہوؤں کو خدمت، محبت اور نبھاؤ کا درس دیا جاتا ہے۔ مگر گھر کے افراد شوہر، ساس،سسر، دیور اور نندیں نئی آنے والی بہو کے ساتھ کیسا برتاؤ کریں اس پر توجہ نہیں دی جاتی۔ جبکہ ایک اچھا گھر اور میل محبت کا ماحول اسی صورت میں بن سکتا ہے، جب گھر کے تمام افراد ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوں ایک دوسرے کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوں، ایک دوسرے کے لیے ایثار کرتے ہوں اور اپنی اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح سمجھتے اور ادا کرتے ہوں۔ جہاں نئی آنے والی دلہن کو گھر کا ہر فرد خدمت گار تصور کرے وہاں پر نبھاؤ کا کونسا فارمولا کامیاب ہوگا آپ بتائیں۔
عملی تجربہ یہ بتاتا ہے کہ مشترکہ خاندان اور وہ بھی ایسا جہاں لوگ صرف اپنے حقوق جانتے ہوں فرض اور ذمہ داری سے غافل ہوں ، نہ تو سکون رہ سکتا ہے اور نہ عزت و وقارسے۔
اچھا گھر اور اچھا خاندان بنانے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے اور ایک دوسرے کے کاموں میں مدد ینے والے ہوں۔ جس گھر میں مل جل کر کام کرنے کا ماحول ہوتا ہے وہاں تعلقات بھی اچھے ہوتے ہیں۔ اور جہاں ایسا نہیں ہوتا وہاں تعلقات بھی خراب ہوتے ہیں اور لوگ مجبوراً مل کر رہتے ہیں اگر کسی کو بھی موقع مل جائے تو وہ نکل بھاگے۔ یہ باتیں قارئین تک اس لیے پہچانی چاہتی ہوں تاکہ ہمارے گھروں میں آپسی میل جول اور تعاون کی فضا پیدا ہو اور ہم اچھی زندگی گزار سکیں۔
عظمیٰ جویریہ، بائیکلہ، ممبئی
ایک تجویز
آپ کا ماہنامہ حجاب اسلامی پہلی بار دیکھنے کا موقع ملا۔ دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی اور بے حد پسند آیا۔ میں بدقسمتی سے اردو صرف پڑھ سکتا ہوں مگر اچھی طرح لکھ نہیں سکتا اس لیے اپنے تاثرات کے اظہار کے لیے ہندی میں یہ خط لکھ رہا ہوں۔ یہ اس لیے ضروری سمجھتا ہوں تاکہ آپ کو معلوم ہوسکے کہ ایک نیا ریڈر آپ کے رسالے کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے۔
آپ کا رسالہ دیکھتے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ مسلم خواتین کے لیے ہی ہے اور مضامین بھی انہیں سے متعلق ہوتے ہیں۔ آپ نے خواتین سے متعلق اچھے مضامین شائع کیے ہیں۔ خواتین کمیشن کی رپورٹ پر تحریر پسند آئی۔ گھریلو زندگی کو سنوارنے کے لیے جو مضـمون ہے وہ ہمارے گھروں کو جنت بناسکتا ہے۔
خواتین کا، خاص طور پر غریب اور بیوہ خواتین کا ایک بڑا مسئلہ عزت کی روزی روٹی کمانا ہے جس سے وہ اپنی اور اپنے بچوں کی گزر بسر کرسکیں۔ آپ اپنے رسالے میں ایسے مضامین ضرور شائع کریں جو غریب اور ضرورت مند خواتین کو گھریلو روزگار مہیا کرسکیں۔ پرانے زمانے میں عورتیں گھروں میں ربر کی مہریں، صابن، روشنائی وغیرہ بنالیتی تھیں او رکچھ خواتین کپڑے وغیرہ سل کر گزارہ کرلیتی تھیں۔ مگر اب یہ چیزیں تقریباً ختم ہوگئی ہیں۔ اگر آپ موجودہ زمانے کے حساب سے ان کی کچھ رہنمائی کریں تو ان کو سہارا ملے گا اور سماج کی خدمت بھی ہوگی۔
نصرت ظہیر، میرٹھ (یوپی)
——