’’پروردگار! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پا س لابسایا ہے۔ پروردگار! یہ میں نے اس لیے یہ کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں۔‘‘ (ابراہیم: ۳۷)
بے آب وگیاہ وادی میں اپنے اہل و عیال کے ایک حصے کو لاکر بسادینے والے مرِ خدا تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور جن کو اس وادی میں لابسایا تھا، وہ تھے ان کی اہلیہ حضرت ہاجرہ اور ان دونوں کا لختِ جگر حضرت اسماعیل جس کی ننھی منی ایڑیوں کی رگڑ سے اس خشک اور بنجر وادی کو ایک ایسا چشمہ حیات نصیب ہوا جو چار ہزار سال سے اب تک تشنگانِ حق و معرفت کی پیاس بجھانے اور وابستگانِ محبت و الفت کو روحانی تازگی بہم پہنچانے کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔
حضرت ابراہیم خلیل اللہ کا اپنے رب کے ساتھ وابستگی اور محبت کا جذبہ صادق ، اپنے خون کے عزیز ترین رشتے کے ساتھ دلبستگی پر غالب آگیا تھا۔ اسی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر انھوں نے اپنے بڑھاپے کے اکلوتے سہارے اور اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کو بے بہا خطرات کی نذر کردیا، تو مولائے حقیقی کی بارگاہ میں یہ ادا ایسی پسند ہوئی کہ فرشتے نے دودھ پیتے بچے کی ماں کو مخاطب کرتے ہوئے بشارت سنائی: ’’خوف کرو نہ غم کھاؤ۔ اللہ تعالیٰ تمہیں ضائع کرے گا نہ بچے کو۔ یہ بیت اللہ کا مقام ہے جس کی تعمیر اس بچے اور اس کے باپ کے لیے مقدر ہوچکی ہے۔‘‘ (بخاری)
٭
اور پھر یہاں سے شروع ہوتا ہے عالمِ انسانی کا اپنے مرکز کی طرف سفر۔ اس وقت سے جب وہ اپنے رب کے حکم سے خانۂ کعبہ تعمیر کرتے ہیں اور ان کا رب حکم دیتا ہے ’’واذِّن فی الناس بالحج…‘‘ (اور لوگوں میں اعلان کردو حج کا وہ پیدل ، سواریوں پر اور دبلی پتلی اونٹنیوں پر سوار دنیا کے کونے کونے سے کھنچے چلے آئیں گے۔)
حج اسلام کا پانچواں رکن ہے۔ اور جو شخص حج کی استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہ کرے اس کی اور یہودی و نصرانی کی موت میں کوئی فرق نہیں۔ یہ بات ہمارے رسول ﷺ نے واضح طور پر امت کو بتادی تھی۔ اسلام کے نظامِ زندگی میں حج بیت اللہ کی اس قدر اہمیت کیوں ہے، اس پر اہلِ اسلام کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔
٭ حج بیت اللہ دراصل تین عظیم شخصیات کی بے مثال قربانیوں کی یادگار ہے۔ ان شخصیات میں ایک مثالی باپ ہے، جس کی زندگی کا کامل و واحد محور اللہ کی رضا اور اس کے حکم کی تعمیل ہے اور اس تعمیل کی راہ میں وہ کسی بھی محبت کو قابلِ اعتنا نہیں تصور کرتا حتیٰ کہ دنیا کی سب سے بڑی محبت بیوی اور اولاد کو بھی نہیں۔ بلکہ اللہ کے حکم پر اس پر بھروسے کے سہارے وہ رب کے حکم کی تعمیل کو اعلیٰ و ارفع تصور کرتا ہے۔
٭ دوسرا کردار حضرت ہاجرہ امِ اسماعیلؑ کا ہے جو اپنے رب کے حکم کو پورا کرنے کے لیے سب کچھ محض رب کی رضا کے لیے اس پر توکل کے ذریعے، برداشت کرلیتی ہیں اور زندگی کے مشکل اور نازک ترین لمحات میں بھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں لاتیں۔
٭ تیسرا کردار نوجوان بلکہ نوعمر بیٹے اسماعیل کا ہے کہ نوعمری کی ناپختہ عمر میں بھی اپنے رب کے حکم کی تعمیل اور اس کی رضا کو زیادہ اہم جانتا ہے اور خود کو اللہ کے لیے قربانی پر تیار پاتا ہے۔
ان تین عظیم شخصیات کی عظیم قربانیوں پر اگر ہم غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ یہ انسانی تاریخ کا سنگِ میل ہیں۔ بندے کا رب کے راستے میں سفر جب شروع ہوگا تو یہ سنگِ میل منزل کانشان بنے گا۔ ایسا اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان سے حق اور دین کی راہ میں جو صبر و ثبات، ایثار و قربانی، توکل علی اللہ اور رضائے الٰہی کے حصول کا جذبہ طلب کرتا ہے اس کی اعلیٰ ترین مثال اگر کہیں نظر آسکتی ہے تو صرف اور صرف یہ تین عظیم شخصیات ہیں۔
یہ تینوں شخصیات حق و باطل کی کشمکش اور شیطان و رحمن کے ماننے والوں کے درمیان علامتی نشان ہیں، جہاں حق اور رضائے الٰہی واضح نظر آتی ہے اور شیطان اور اس کے مطالبات دوسری طرف۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں بزرگ شخصیات کی زندگیوں کو رہتی دنیا تک کے لیے اسوہ بناکر یہ بھی واضح فرمادیا کہ حق کی خاطر جدوجہدکرنے والا خاندان کیسا ہوتا ہے ، اس کی ترجیحات کیاہوتی ہیں اور ان کاباہمی تعلق کس طرح کا ہوتا ہے۔
اب اگر کوئی انسان واقعی یہ چاہتا ہے کہ حق کاراستہ اختیار کرلے، رب کی رضا کو حاصل کرلے اور اس کی راہ کے نشان کو اپنے لیے نشانِ منزل بنائے تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ ان کی یاد کو اپنے ذہن و دماغ پر ہر وقت اور ہر آن تازہ رکھے۔
اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں ان عظیم شخصیات کے نشانات کو فراموش کردے تو وہ رضائے الٰہی کی راہ کا راہی کیسے ہوسکتا ہے، وہ رب کے لیے قربانی کیسے پیش کرسکتا ہے اور مصائب و آلام میں صبر و ثبات کا کوہسار کیسے بنا رہ سکتا ہے۔
ان مثالی شخصیات کی زندگیوں سے جذبہ عمل کا حصول اور اپنے دل و دماغ کو اللہ کے لیے خالص و مخلص کرلینا انسان کی معراج ہے۔ جس پر پہنچنے کے لیے ان کے تعمیر کردہ گھر کی زیارت ان راستوں پر پیادہ سفر جن پر ان کے پائے مبارک پڑے ہیں ہماری فلاح و کامیابی کا بھی ذریعہ ہے اور ہمارے دل کو غیر خدائی محبتوں اور آلائشوں سے پاک کرنے کا ذریعہ بھی۔
یہی وجہ ہے کہ زندگی میں ایک بار اس مقام کی زیارت کو اللہ نے ہر مومن کے لیے فرض قرار دیا ہے اور جو اس سے اعراض کرے اس کا مومن ہونا کفر سے زیادہ قریب ہے۔
٭
’’اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی قدرت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے اور جس نے کفر کیا تو اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔‘‘
(آل عمران:۹۷)
اس آیت میں قدرت رکھنے کے باوجود قصداً حج نہ کرنے کو کفر کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کی شرح نبی ﷺ کی ان دو حدیثوں سے ہوتی ہے:
من ملک زاداً و رحلۃ تبلغہ الی بیت اللّٰہ ولم یحج فلا علیہ ان یموت یہودیا اور نصرانیاً۔
’’جو شخص زادِ راہ اور سواری رکھتا ہو جس سے بیت اللہ تک پہنچ سکتا ہو اور پھر حج نہ کرے تو اس کا اس حالت پر مرنا اور یہودی یا نصرانی ہوکر مرنا یکساں ہے۔‘‘
من لم یمنعہ من الحج حاجۃ ظاہرۃ او سلطان جائر او مرض حابس فمات ولم یحج فلیمت ان شاء یہودیا او ان شاء نصرانیا۔
’’جس کو نہ کسی صریح حاجت نے حج سے روکا ہو، نہ کسی ظالم سلطان نے، نہ کسی روکنے والے مرض نے اور پھر اس نے حج نہ کیا ہو اور اسی حالت میں اسے موت آجائے تو اسے اختیار ہے خواہ یہودی بن کر مرے یا نصرانی بن کر۔‘‘
اور اسی کی تفسیر حضرت عمرؓ نے کی جب کہا کہ جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتے، میرا جی چاہتا ہے کہ اُن پر جزیہ لگادوں۔ وہ مسلمان نہیں ہیں، وہ مسلمان نہیں ہیں۔