اللہ اور اس کے رسولؐ نے مسلمانوں پر واضح کر دیا کہ حرام مال کھانا مہلک ترین گناہ اور آخرت میں تباہی کا سبب ہے۔ حرام کھانے کا مطلب یہ ہے کہ ناجائز اور غیر اخلاقی طریقہ پر کسی کا مال ہڑپ کیا جائے، خواہ اس کے استعمال کی شکل کوئی بھی ہو، حرام کھایا جائے، پہنا جائے، یا کسی کو دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اور آپس میں ایک دوسرے کے مال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ۔‘‘ (البقرۃ:۱۸۸)
باطل اور حرام کھانے کی مختلف صورتیں اور طریقے ہوسکتے ہیں۔ ان میں کچھ صورتیں سماجی اور معاشرتی نوعیت کی ہیں اور کچھ ایسی ہیں جن کا تعلق موجودہ نظام تجارت و معیشت سے ہے۔ جو چیزیں سماجی اور معاشرتی ہیں ان کا حرام ہونا قرآن اور حدیث میں واضح کر دیا گیا ہے۔ البتہ موجودہ نظام تجارت و معیشت میں جو سودی نظام پر چل رہا ہے اس میں بعض اوقات کچھ چیزیں مشتبہ ہوجاتی ہیں جن سے پرہیز لازم ہے اور یہ بات حدیث سے واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام میں مشتبہ چیزوں سے بچنے کی کیا اہمیت ہے۔
پہلی صورت یہ ہے کہ ظلم و تشدد کر کے کھایا جائے، جیسے غصب کرے، امانت کے مال میں خیانت کرے، ساجھے دار کو دھوکہ دے، خرید و فروخت میں فریب کاری، دغا بازی اور مانگی ہوئی چیز کا دینے سے انکار کردے، رشوت سود، حرام چیزوں کی تجارت، چوری، سحر، جیوتش یا کسی آزا دکو بیچ کر اس کی قیمت کھا جائے۔ جھوٹی گواہی دے اور اس کا عوض لیکر اسے چٹ کر جائے۔ یا یتیم کا مال وغیرہ کھالے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ کھیل کھیل یا مذاق میں کسی کا مال ہتھیا لے، چناں چہ جوئے بازی یا لہو و لعب میں رقمیں ہتھیانا بھی اسی قبیل سے ہے۔
رہا سنت سے اس کا ثبوت تو اس میںشک نہیں کہ غصب، ظلم، خیانت، رشوت اور سود وغیرہ کے بارے میں جس قدر آیتیں اور روایتیں ان کی حرمت کے سلسلے میں ہیں ان سے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ غیروں کا مال کھانا یا اسے ہتھیا لینا حرام ہے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہؐ نے کسی شخص کے بارے میں فرمایا:
’’ایک شخص طویل سفر کر کے اللہ کے گھر آتا ہے، پراگندہ بال اور غبار آلود ہوکر ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر کہتا ہے، اے پروردگار، اے پروردگار ! حالاں کہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام اس کی ساری غذا حرام، پھر بھلا اس کی دعا کیسے قبول ہوگی؟
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہتے ہیں۔ میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا:
’’اللہ سے دعا کیجیے کہ میں مستجاب الدعوات بن جاؤں، آپ نے فرمایا: انس اپنی کمائی حلال رکھو، تمہاری دعائیں قبول ہوں گی کیوں کہ جب کوئی آدمی حرام کا لقمہ اپنے منہ میں اٹھاتا ہے تو اس کی چالیس دن کی دعائیں قبول نہیں کی جاتی ہیں۔
رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا:
’’وہ گوشت اور خون دونوں جنت میں نہیں جائیں گے، جو حرام طور پر پروان پائے، ان کا قرار واقعی ٹھکانہ دوزخ ہے۔‘‘
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے منقول ہے فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک غلام تھا، جو اپنا زر کتابت ادا کرتا تھا۔ کیوں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس سے عقد کتابت کی تھی، غرض یہ غلام اپنے خراج کی رقم روزانہ ادا کرنے کے لیے آتا تھا اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ روزانہ ہی اس سے پوچھتے کہ یہ رقم اس نے کہاں سے حاصل کی۔ اگر مناسب طریقہ سے حاصل کی ہوتی، تو آپ اسے کھالیتے ورنہ نہیں کھاتے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ ایک رات وہی غلام کچھ کھانا لے کر آیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس دن روزہ تھے۔ آپ اس سے پوچھنا بھول گئے اور ایک لقمہ لے کر کھا لیا، جب یاد آیا تو ا س سے پوچھا کہ یہ کھانا کہاں سے لایا؟ اس نے کہا زمانہ جاہلیت میں کچھ لوگوں کو میں نے یوں ہی غیب کی اوٹ پٹانگ باتیں بتا دی تھیں۔ دراصل میں نے انھیں دھوکہ دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سنا تو فرمایا، افوہ! تونے مجھے مار ڈالا! یہ کہہ کر آپ نے اپنا ہاتھ منہ میں ڈالا اور قے کرنے کی پوری کوشش کی، لیکن کچھ نہیں نکلا، کسی نے کہا، پانی پی لیں تو شاید نکل جائے۔ آپ نے پانی طلب کیا اور پانی پی پی کر قے کرنے لگے، یہاں تک کہ جتنا پیٹ میں تھا سارا قے کر دیا۔ ایک شخص نے عرض کیا، اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے، ایک لقمہ کی خاطر آپ نے اتنی تکلیف اٹھائی، آپ نے ارشاد فرمایا: اگر یہ لقمہ میری آخری سانس کے ساتھ باہر نکلتا، تب بھی میں اس کو نکال کر ہی دم لیتا۔ کیوں کہ میں نے اللہ کے رسولﷺسے سنا ہے، آپ فرماتے تھے:
’’جو بدن (کا حصہ) حرام سے پرورش پایا ہوگا، دوزخ کی آگ اس کے لیے کہیں زیادہ لائق ہوگی۔‘‘
میں ڈرا کہ کہیں اس ایک لقمہ سے میرے جسم کا کوئی حصہ پروان پائے (اور اس کی وجہ سے مجھے دوزخ میں جانا پڑے)۔
اس میں شک نہیں کہ تقویٰ، دین داری اور خدا کا خوف ایسا ہی ہوتا ہے۔
انسان کے تقویٰ کی معراج یہی ہے کہ شبہ کی وجہ سے ایسے مال سے بھی پرہیز کرے، جس میں شبہ نہ ہو، اور اگر ہم اصحاب رسول (ﷺ) تابعین کرام اور ائمہ عظام (رحمہم اللہ) کی سیرت کے واقعات پڑھیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ یہ نفوس قدسیہ کتاب و سنت کے احکام کو اپنے اوپر، اور اپنے گھر والوں پر کتنی سختی سے نافذ کرتے تھے اور دور کیوں جائیے! خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا واقعہ مشہور ہے۔ عام الرمادہ کے دنوں میں (جب شدت کا قحط تھا) آپ گوشت اور چربی کو ہاتھ تک نہیں لگاتے تھے، اور رعایا اور اپنے درمیان کوئی فرق نہیں رکھتے، اور کہتے تھے کہ جو حال عام رعایا کا ہوگا، وہی عمر (رضی اللہ عنہ) کا ہوگا، چناں چہ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ کی جلد اور چہرہ سانولا ہوگیا تھا۔
پرہیز گاری اور تقویٰ اور خشیت اسی کا نام ہے، اور یہی وجہ تھی کہ یہ اسلاف صالحین سرآمد روزگار ہوئے، انھیں عظمت و رفعت، عزت اور سعادت نصیب ہوئی، اور ایک آج کا زمانہ دیکھئے کہ اب حلال اور حرام کی تمیز اٹھ چکی ہے۔ عام ذہنیت یہ بن چکی ہے کہ کسی طرح مال ان کی مٹھی میں آجائے، خواہ حلال طریقے سے آئے یا حرام مال دستیاب ہو۔
اہم بات
ظاہر ہے کہ مرد کماتے ہیں اور کمانے سے ان کا نظریہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو عیش و آرام، بہتر زندگی اور معیاری زندگی، گزارنے کا سامان مہیا کرسکیں۔ موجودہ زمانے میں اکثر مردوں پر ان کی خواتین کا دباؤ ہوتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کمائیں اور وہ عیش کریں۔ بے نیازی، قناعت اور صبر وسکون اب سماج سے اٹھ گیا ہے۔ یہ عام بات ہے۔
لیکن اگر مسلم سماج کی عورت چاہے تو اپنے گھر میں حرام کمائی پر پابندی لگا سکتی ہے اور اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو حرام کمائی سے بچا سکتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ حرام کی برائی سے واقف ہوجائے اور یہ اعلان کردے کہ غربت، تنگ دستی اور بھوک قابل قبول ہے مگر حرام کھانا اور کھلانا منظور نہیں۔ ہماری اسلاف خواتین کا یہی طرزِ عمل تھا۔ کاش کہ ہم بھی اس پر عمل کریں۔ lll