حضرت اسماء رضی اللہ عنہا

ناز آفرین

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی بیٹی تھیں اور اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی بڑی بہن تھیں ۔یہ ا س وقت مسلمان ہوئیں جب اسلام اپنے ابتدائی مراحل میں تھا ۔حضرت اسماء ؓ کا مقام مشرف بہ اسلام ہونے والوں میں اٹھارہویں نمبر پر تھا۔حضرت اسماء ؓ نوعمری میں محمد ﷺ اور اپنے والد کے ہر راز میں شریک رہتی تھیں۔ لڑکیوں میں یہ شرف حضرت اسماء ؓ کو ہی حاصل تھا ۔جب اللہ کے حکم سے نبی کریم ﷺ ہجرت کو روانہ ہو ئے تو اُن کے ساتھ ابو بکر صدیقؓ بھی تھے ۔حضرت اسماء ؓ ان دونوں کو کھانا پانی پہنچاتی تھیں۔ کفار و مشرکین کو اس بات کا علم نہ ہو اس لیے وہ اور ان کے بھائی عبداللہ ساتھ میں بکریوں کو چرانے لے جاتے تھے۔اس طرح واپسی کے سارے نشانات بکریوں کے پائوں سے مٹ جاتے تھے۔ایک بار غار ثور میں کھانا اور پانی کے مشکیزے کو باندھنے کی ضرورت پڑی۔ حضرت اسماء نے فوراً اپنے نطاق کے دو حصے کیے۔ ایک سے کھانا باندھا اور دوسرے سے پانی کا مشکیزہ بند کیا۔اس سے ان کی حکمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ اسی وجہ سے محمد ﷺنے انھیں ذات ا لنطاقین کا لقب دیا۔

حضرت اسماء ؓکی شادی حضرت زبیربن عوام ؓ سے ہوئی ۔ جو ایک تنگ دست شخص تھے ۔جب کہ وہ خود ایک رئیس باپ کی بیٹی تھیں ۔ ان کو اللہ نے کئی اولادیں دیں۔ ان کے بڑے بیٹے کا نام عبداللہ بن زبیرؓ تھا۔ اس کے بعد عروہ بن زبیر ؓ، منذر بن زبیرؓ، عاصم بن زبیرؓ، مہاجر بن زبیرؓ اور مصعب بن زبیرؓتھے۔

حضرت اسماء ؓ کے شوہرمال دار نہ تھے ۔وہ گھر کے سارے کام خود کیا کرتی تھیں ۔ان کے پاس صرف ایک گھوڑا اور ایک اونٹ تھا ۔جس کی دیکھ بھال وہ خود کیا کرتی تھیں ۔ گھریلو کام سے فارغ ہو کر روزانہ تقریباً ساڑھے چودہ کیلو میٹر کی مسافت طے کر کے کھجور کی گٹھلیاں سر پراٹھا کر لاتیں ۔اپنے ہاتھوں سے لیتیں اور گھوڑے کو کھلاتی تھیں۔ تکالیف اور مصائب کے سامنے چٹان کی طرح جمی رہتی تھیں۔ کبھی نا شکری کے الفاظ اُن کی زبان پر نہیں آئے۔ خدا نے ان کو دولت عطا کی تو اس کا استعمال راہ خدا میںکیا۔

حضرت اسماء ؓ نے اپنے بیٹوں کی پرورش میں اسلامی طریقے کو ملحوظ رکھا۔

حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ زرہ پہن کر اور ہتھیار لگا کر ماں سے آخری ملاقات کرنے کے لیے ماں کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ حضرت اسماءؓ کی عمر تقریباً سو سال کے پاس تھی ۔بینائی بھی چلی گئی تھی۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتی ہیں :

’’ اے فرزند! تم اپنی مصلحت کو خود ہی بہتر سمجھتے ہو ۔اگر تم کو اپنے حق پر ہونے کا یقین ہے تو تم کو ثابت قدم رہنا چاہئے ۔تم مردوں کی طرح لڑو اور جان کے ڈر سے کسی ذلت کو برداشت نہ کرو ،عزت کے ساتھ تلوار کھانا ذلت کے سکھ اٹھانے سے لاکھ درجہ بہتر ہے۔اگر تم شہید ہو گے تومجھے خوشی ہوگی اور اگر تم اس مٹ جانی والی دنیا کے پجاری نکلے تو تم سے زیادہ بُرا اور کون ہو سکتا ہے ؟ کہ وہ خود ہلاکت میں پڑا اور اللہ کے بندوں کو بھی ہلاکت میں ڈالا۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تنہا رہ گئے اور اب اطاعت کے بغیر چارہ نہیں تو اس طرح سوچنا شریفوں کا طریقہ نہیں ۔تم کب تک جیوگے ؟بہرحال ایک نہ ایک دن مرنا ہی ہے ۔اس لیے اچھا یہی ہے کہ نیک نام ہو کر مرو کہ میں فخر کر سکوں ۔‘‘

عبد اللہ بن زبیر ؓ نے ماں کے مردانہ بول سنے تو عرض کیا ۔

’’ اندیشہ ہے کہ اہل شام مجھے قتل کرکے طرح طرح کا عذاب دیں گے ۔ ‘‘ ماں نے فرمایا : بیٹا! تمہارا خیال درست ہے لیکن بکری کو ذبح کرنے کے بعد اس کی کھال نکالنے اور اس کی بوٹیاں قیمہ کرنے سے تکلیف نہیں ہوتی ۔‘‘

دراصل عبد اللہ بن زبیرؓ یہ سوچ کر فکر مند تھے کہ ان کی موت سے ان کی ماں کو تکلیف ہوگی مگر ماں کے الفاظ نے بیٹے کی پریشانی کا خاتمہ کر دیا اور انھیں ہمت بھی دی۔ فرمایا :

اے فرزند ! میرا خیال ہے کہ (انشاء اللہ ) میرا صبر لوگوں کے لئے نمونہ بنے گا ۔اگر تونے میرے سامنے حق پر جان دی تو تیری شہادت میرے لیے ثواب کا باعث ہوگی اور اگر تو کامیاب ہوا تو مجھے خوشی ہوگی ۔ یہ سن کر عبد اللہ بن زبیررضی اللہ عنہ ماں سے لپٹ گئے ۔ماں نے بیٹے کو گلے لگایا تو ہاتھوں نے محسوس کیا کہ وہ زِرہ پہنے ہوئے ہیں ۔ بولیں:

’’بیٹا : جن لوگوں کو شہادت کی تمنا ہوتی ہے وہ زرہ نہیں پہنتے ،اسے اتار دو ۔دامن کو کمر میں لپیٹو اور حملہ کرو۔‘‘

حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کو ماں کی دعا لگی اور شہادت نصیب ہوئی ۔ ان کی لاش حجاج نے درخت سے لٹکوا دی۔ دفن کرنے نہ دیا۔جب حضرت اسماء ؓ کو اس کی خبر ہوئی تواپنی لونڈی کے ساتھ آئیں ۔شہید بیٹے کی لاش لٹکتے پایا تو فرمایا :

’’ اسلام کا شہسوار اور فداکار ابھی گھوڑے سے نہیں اترا ۔‘‘

حضرت اسماءؓ کے الفاظ سن کر حجاج اپنے ہونٹ چبانے لگا اوربولا:

’’ تمہارے بیٹے نے کعبے میں بیٹھ کر خدا کے حکموں کے خلاف اقدام کیا ۔اس لیے اس پر اللہ کا عذاب نازل ہوا ۔ حضرت اسماء ؓ نے جوا ب دیا : تو جھوٹا ہے ،میرا لڑکا خدا کا نا فرمان نہ تھا ۔ وہ روزہ دار، تہجد گزار ، پرہیز گار، دین دار اور والدین کا فرماں بردار تھا ۔میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ قبیلہ ثقیف میں سے دو نالائق آدمی پیدا ہوں گے ۔ ان میں سے پہلا کذاب اور دوسرا ظالم ہو گا ۔ تو کذاب (مختار ثقفی) کو تو میں دیکھ چکی اور دوسرا اِس وقت میرے سامنے ہے ۔‘‘

حجاج طیش اور غصہ میں وہ حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ اور صحابہ ؓ کے ساتھ کئے گئے ظالمانہ حرکت کوحضرت اسماء ؓ کے سامنے پیش کرنے لگتا ہے تاکہ وہ عزیمت سے پھر جائیں ۔ حضرت اسماء ؓ جواب دیتی ہیں :

’’ تو نے میرے بیٹے کی دنیا خراب کی اور میرے بیٹے نے تیری آخرت تباہ کی ۔‘‘

یہ جواب سن کر حجاج تلملاتا ہوا اپنا منھ لے کر چلا گیا۔ عبد الملک کے کہنے پر حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کی لاش حضرت اسماءؓ کو دے دی گئی ۔لاش کی حالت خراب ہو چکی تھی۔ بڑی احتیاط سے غسل دے کر شہید کو دفنا دیا گیا ۔حضرت اسماءؓ نے خدا تعالیٰ سے دعا مانگی تھی کہ جب تک بیٹے کی لاش نہ دیکھوں مجھے موت نہ آئے ۔ اللہ نے ان کی دعا قبول کی۔ حضرت اسماء بیٹے کی شہادت کے ایک ہفتہ بعد ہی مالک حقیقی سے جا ملیں ۔

حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ مختصر سا قصہ مسلم خواتین کے لیے ایک نصیحت ہے کہ وہ اپنے بچوںکی پرورش کس طرح کر رہی ہیں ۔ ان کے دلوں میں خدا کا خوف و محبت پیدا کر رہی ہیں یا دنیا کی محبت پیدا کر رہی ہیں۔ اسلام کے لیے مر مٹنے کے جذبے کو پروان چڑھا رہی ہیں یا انھیں بزدل بنا رہی ہیں ۔ دنیا تو کسی نہ کسی طرح جس قدر قسمت میں لکھا ہے مل ہی جا ئے گی۔ آخرت کی تیاری میں ان کا کتنا ساتھ نبھا رہی ہیں۔ ان کی مامتا میں اسلامی تعلیمات شامل ہیںیا نہیں؟lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں