حضور اکرمؐ اور مزدور [دنیا کے محنت کشوں پر تعلیمات کا احسان]

سید امین الدین حسینی

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم انسانیت کے لیے سراپا رحمت بن کر تشریف لائے، آپؐ خدا کے پیغمبر اور رسول ہیں، خدا کی ہدایت حاصل کرنا ہو تو آپؐ کی ذات بابرکات کافی ہے، جسے راہِ راست پر چلنا ہو، آپ کے طریقے کو اپنا لے، جسے خدا کی خوش نودی درکار ہو اسے آپ کی اطاعت کرنی چاہیے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم حکمراں کے لیے بھی نمونہ ہیں۔ آپؐ مفلس اور غریب کے لیے سرچشمہ ہدایت ہیں۔ آپؐ نے تجارت کے لیے بھی ہدایات دیں، معاشرت اور سیاست کے لیے بھی احکام دیے۔ تمدن اور تہذیب کے طور طریق سکھائے۔ تقسیم دولت کے سخت اصول بھی بتائے۔ اجرت اور معاوضے کے احکام بھی دیے۔ ظالم کی گرفت اور مظلوم کی داد رسی کو زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے سب سے بڑا خیر فرمایا۔

آپؐ نے مزدور کے مقام کو معاشرے میں معزز اور شرف کا حامل قرار دیا۔ چناں چہ آپؐ نے فرمایا کہ ’’اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کوئی اور کھانا نہیں ہے اور حضرت داؤد نبی اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے یعنی آپ زِرہ بناتے تھے۔‘‘

مزدوری اور محنت کی بابت ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا کہ ’’حلال معیشت کا طلب کرنا اللہ کے فریضہ، عبادت کے بعد سب سے بڑا فریضہ ہے۔‘‘

حلال معیشت کے لیے سعی و جہد کرنے والا ور اصل عبادت کی طرح بہت بڑا فریضہ پورا کرتا ہے۔ اللہ اکبر، عظمت مزدور کی اس سے بڑھ کر کیا کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔

بیسویں صدی میں مزدوروں کا اہم ترین مطالبہ یہ ہے کہ ان کو معاشرے میں بہتر مقام دیا جائے۔ آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے جو مقام تقدس مزدور کو عطا کیا وہ اسلام کی معیشت ہی کا حصہ ہے۔ روزگار کے لیے سعی کو ااپؐ نے ایک اہم فریضہ قرار دیا۔ ایک حدیث میں آپؐ فرماتے ہیں: ’’بعض گناہوں میں ایسے گناہ ہیں جن کا کفارہ صرف طلب معیشت کی فکر اور جدوجہد اور کاوش ہی ہوسکتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ رزق زمین کی وسعتوں میں تلاش کرو۔‘‘

کسب معاش کی اہمیت، روزی کی تقدیس اور حلال روزی کی فکر کو عبادت ہی نہیں گناہوں کا کفارہ بھی قرار دیا۔

 دوسرا اہم مسئلہ آجر اور اجیر کے درمیان تعلقات کا ہے۔ مغربی سرمایہ داری، مالک اور نوکر کے اصول پر آجر اور اجیر کے پورے تعلقات کے اصول و قواعد بناتی ہے! چناں چہ آقا اور ملازم میں مساوات اور اخوت دونوں باتیں مفقود ہوتی ہیں۔

سوشلزم اور کمیونزم طبقاتی کشمکش کو خونخوار جنگ و جدل میں تبدیل کیے بغیر اپنا راستہ ہموار نہیں پاتا، چناں چہ بعض مسلم ممالک میں سوشلزم آجر اور اجیر دونوں طبقوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا رہا ہے اور مسلمان آجر اور مسلمان اجیر آپس میں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے ہیں، لیکن اسلام نے ان دونوں طاقتوں کو ظلم اور استعماریت قرار دیا، چناں چہ حضور اکرمؐ نے جو معاشرہ تشکیل دیا اور اس کو جو ہدایات دیں اس میں کمال درجہ کی الفت، مودت، اخوت اور مساوات کی تلقین فرمائی۔

تیسرا اہم مسئلہ آجر اور اجیر کے مرتبے کا مسئلہ ہے۔ تمام مسلمانوں کو اسلام نے ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا ہے۔ رتبہ اسلام کے نزدیک خدا خوفی اور پرہیزگاری کا ہے۔ مال و دولت ہی نہیں، رنگ و نسل، نسب اور قبیلے کو بھی اسلام نے کوئی اہمیت نہیںدی۔

حضور اکرمؐ فرماتے ہیں کہ تم سب انسان اولادِ آدم ہو اور آدم کو خدا نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ پس اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو اللہ کے کنبے کے حق میں مفید ہو۔ ایک اور حدیث میں آپؐ فرماتے ہیں: ’’غلام بھی تمہارے بھائی ہیں، جن کو خدا نے تمہارے تحت کر دیا۔ جس کو خدا نے تمہارے تحت کردیا ہے تو اس کو وہ کھلاؤ جو تم کھاتے ہو اور وہی پہناؤ جو خود تم پہنتے ہو۔ اس کو اتنا کام نہ دے دو جو اس پر بھاری ہوجائے اور جو بھاری کام بھی دے تو اس کے کام میں خود شریک ہوکر اس کی مدد کرے۔

چوتھا اہم مسئلہ آجر اور اجیر کے حقوق کا مسئلہ ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ نہ تو آقا اور ملازم کا رشتہ اسلامی معاشرہ قبول کرسکتا ہے اورنہ طبقہ وارانہ خونخوار درندگی جس کی تسکین آجر کی جان، مال اور آبرو کے خاتمے کے بغیر ممکن نہیں۔ سرمایہ دارانہ ذہنیت بھیڑئیے کی طرح خطرناک ہے۔ سوشلزم شیر ببر کی طرح خونخوار اور ہولناک ہے۔ یہ دونوں مزدور کا استحصال کرتے ہیں لیکن اسلام تعلقات کی بنیاد، اخوت اور مساوات کو قرار دیتا ہے۔ خاص کر صاحب زر اور آجر کو پابند کرتا ہے کہ وہ اجیر کے حقوق ادا کرے۔ مندرجہ ذیل احادیث قابل توجہ ہیں:

۱- ہر مسلمان پر لازم ہے کہ دوسرے مسلمان کی ضرورت و حاجت کی تکمیل کرے اگر مقدرت رکھتا ہو۔

۲- جس مسلمان کو اللہ نے مال و دولت اور ذرائع عطا کیے ہیں، اس پر لازم ہے کہ دوسرے مسلمان بھائیوں کو بطور حق کے ان میں شریک کرے۔ اس میں ہر قسم کے اموالِ کسب و معاش کے ذرائع شامل ہیں۔

۳- بھوکے، ننگے اور معاشی مصائب میں مبتلا مسلمانوں کے سلسلے میں اہل ثروت اہل سرمایہ، اہل صنعت مسلمان سے قیامت کے دن باز پرس کی جائے گی، اور ان کو ان کی کوتاہی پر عذاب دیا جائے گا۔

۴- اہل سرمایہ اور اہل صنعت اپنے اہل و عیال کی طرح اگر اپنے مزدوروں کی حفاظت اور اُن کے معاملات کی نگہ داشت نہ کریں گے تو جنت کی خوشبو سے محروم ہوں گے۔

۵- مسلمان صنعت کار، مسلمان کارخانہ دار اور مسلمان کمپنی کا والی ازروئے شریعت، مسلمان مزدور کی حاجت اور ضرورت کی پوری تکمیل کا ذمے دار ہے۔

۶- اسی طرح اپنے ذرائع معاش میں بطور حق مسلمان مزدور بھائیوں کو شریک کرنے کا پابند ہے۔

۷- اتنے معاوضے اور اجرت انہیں دینے اور مقرر کرنے پر پابند ہے کہ مسلمان مزدور بھائی کپڑے کھانے کے علاوہ معاشی مصائب کا شکار نہ ہو ورنہ قیامت کے دن باز پرس ہوگی اور عذاب دیا جائے گا۔

۸- کام لینے والے کا حکم اس وقت قابل اطاعت ہے جب کہ وہ خود اللہ اور رسول اکرمؐ کے احکام پر چلتا ہو۔

۹- کام اور مشقت اس طرح نہ لی جائے کہ وہ ناکارہ بن جائے۔ دنیا میں جو لوگوں کو عذاب دیتے ہیں، خدا قیامت میں ان کو عذاب دے گا۔

۱۰- کام میں اجیر کا ہاتھ بٹاؤ، اس سے نرمی کا سلوک کرو اور اس پر اس کی قوت سے زیادہ کام کا بوجھ نہ ڈالو۔

۱۱- اجیر کو اپنی طرح کا آدمی سمجھو، اس کے اعزاز اور اس کی عافیت کا خیال رکھو۔

۱۲- یہ یاد رکھو کہ اجیر اجیر ہے اور تم آخر۔ یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل امر نہیں کہ تم اجیر ہو جاؤ اور وہ آجر۔ غریبوں کے حق کو پہچانو یہ تمہارا ہی کام کر رہے ہیں۔

 پانچواں اہم مسئلہ اجرت اور معاوضے کا ہے۔

اس سلسلے میں اسلام نے اہم ترین حکم یہ دیا ہے کہ اجرت، ضروریات، حاجات اور اس کی فراغت کے لیے کفایت کرنے والی مقرر کی جائے۔ بنیادی ضروریات کا بوجھ آجر کے ذمے ہے۔

 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض واضح احکام دیے ہیں:

۱- مزدور کی اجرت اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔

۲- آپؐ نے ممانعت فرمائی ہے کہ مزدور اور اجیر کو اس کی اجرت مقرر کیے بغیر کام پر لگالیا جائے۔

۳- آپؐ نے فرمایا کہ خدا کی لعنت ہے اس آجر پر جو اجیر کا کوئی حق مارے۔

۴- آپؐ نے فرمایا کہ خدا اس بندے کا حق کبھی نہیں بخشے گا، جس نے کسی اجیر کا حق مار لیا ہو۔

متذکرہ احادیث کی روشنی میں اسلامی معیشت میں اجرت اور معاوضے کے خدوخال واضح ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اجرت پر بغیر معاہدہ کیے کسی کو نہیں رکھنا چاہیے۔ اجرت آزادانہ طور پر طے ہونی چاہیے۔ اجرت بر وقت ادا کرنی چاہیے۔

ایک اور اہم مسئلہ ہے کہ مزدوروں کے اوقات کیا ہونے چاہئیں۔ اس سلسلے میں حضورؐ نے بعض اہم باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ احادیث مبارکہ سے مندرجہ ذیل احکام نکلتے ہیں۔

 اوقاتِ کار ایسے ہونے چاہئیں کہ آدمی دوبارہ تازہ دم ہوکر کام پر آسکے۔

 آدمی کے بالکل تھک کر چو رہونے سے قبل کام ختم ہو۔

 جانور کو آرام دینے اور اس سے بوجھ اور سواری میں نرمی اور اس کی تکان کا خیال رکھنے کی تاکید فرمائی۔

 ہمیں کسی مزدور کے اوقات کا تعین کرتے ہوئے آرام اور بوجھ، دونوں کا اس طرح لحاظ رکھنا ہے کہ مزدور نہ تو جانور ہے جو بار برداری اور سواری کے لیے پیدا ہوا ہے اور نہ غلام ہے کہ اس کی اپنی آزاد مرضی کا تصور ہی نہ ہو۔

ذہن اور جسم یہ دونوں بوجھ اور تھکان سے بالکل آزاد ہوں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ آرام و سکون کے علاوہ مزدور کے اوقات کار وہ ہونے چاہئیں جس میں وہ اپنے اہل و عیال، اہل محلہ، اہل ملک کے حقوق ادا کرسکے۔

لیکن حضورﷺ کے واضح احکام کی تعمیل کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔ مزدوروں کے حقوق ادا نہیں کر رہے ہیں۔ ان کی اجرتیں شریعت کے احکام کے مطابق نہیں دیتے۔

حضور اکرمؐ کی پیروی ہی سرمایہ داری، جاگیر داری، سوشلزم اور کمیونزم کا سد باب کرسکتی ہے، حضور اکرمﷺ کی اطاعت دنیا میں مساوات اور اخوت کی ضامن اور معاشی ناہمواری کا حقیقی حل ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں