عَنِ ابْنِ عُمَرَؓ اَنَّ رَجُلاً قَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ مَنِ الْحَاجُّ قَالَ الشَّعَثُ التَّفِلُ قَالَ فَاَیُّ الْحَجِّ اَفْضَلُ؟ قَالَ الْعَجُّ وَالشَّجُّ، قَالَ مَا السَّبِیْلُ؟ قَالَ اَلزَّادُ وَالرَّاحِلَۃُ۔ (ابن ماجہ)
’’حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں : ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا حاجی کون ہے (حج کرنے والے کے اندر کون سی خوبی ہونی چاہیے)۔ آپؐ نے بتایا وہ جو پراگندہ بال ہو، جس کے کپڑے میلے ہوں، اس نے پوچھا افعالِ حج میں کون سا فعل اجرو ثواب کے لحاظ سے بڑھا ہوا ہے؟ آپؐ نے بتایا بلند آواز سے لبیک کہنا اور جانور کا خون بہانا (قربانی کرنا)۔ اس نے پوچھا آل عمران آیتِ حج میں آئے ہوئے لفظ سبیلاً سے کیا مراد ہے آپ نے فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے گھر تک پہنچنے کے لیے سواری اور سفر خرچ ہو۔
تشریح: یہ حدیث بتاتی ہے کہ حج ایک عاشقانہ قسم کی عبادت ہے، جو شخص اپنے محبوب کے گھر کی زیارت کو جاتا ہے اسے ہر وقت غسل کرنے اور کھانے پینے سے دلچسپی نہیں ہوتی، اسے تو جو دقت ملتا ہے اپنے محبوب سے مناجات میں، ذکر و دعا میں توبہ و استغفار اور گریہ و زاری میں صرف کرتا ہے ایسے ہی لوگوں کا حج، حج ہے! ایک حدیث کا ترجمہ سنیے فرمایا:
’’جب حج کرنے والے عرفات کے میدان میں ٹھہر کر ذکر و دعا اور گریہ و زاری میں مشغول ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا تک آتا ہے اور فرشتوں سے کہتا ہے میرے اِن بندوں کو دیکھو، یہ میرے پاس اس حالت میں آئے ہیں بال بکھرے ہوئے، غبار سے اَٹے ہوئے!‘‘lll