حمل کا مرحلہ اور اس کے نفسیاتی تقاضے

ڈاکٹر نازنین سعادت

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں، ان میں بچے سب سے بڑی نعمت ہیں۔ بچے پوری انسانیت کا سرمایہ ہوتے ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی بہترین تربیت کی ذمہ داری والدین پر عائد کی ہے۔ایسے والدین جو خود دین کی سمجھ بوجھ رکھتے ہوں ،وہ اپنے بچوں کے ذریعہ ایک بہترین قوم کی اور انسانیت کے تابناک مستقبل کی تشکیل بھی کرسکتے ہیں۔

اللہ نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ماں کے احسان کا خصوصی ذکر کیا ہے اور اُس کا حوالہ دے کر ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی ہے۔ وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسَانًا ط حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرْھًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْھًا ط وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَھْرًا(ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرے ۔اْس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر ہی اس کو جنا، اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے) حمل اور رحم مادر کا مرحلہ ایک بچہ کی زندگی کا بڑا اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ اس مرحلہ میں اس کی شخصیت کی بنیاد پڑ جاتی ہے۔ اس کی جسمانی شخصیت کی بھی اور روحانی، اخلاقی اور ذہنی شخصیت کی بھی۔ بچہ کی زندگی بھر صحت کیسی رہے گی؟ اس کی صلاحیتیں کیا ہوں گی؟ اس کی شخصیت کا امتیاز اور انفرادیت کیا ہوگی؟اس کے اخلاق کیا ہوں گے؟ ان سب باتوں کے لئے پائیدار بنیادیں ، ماں کے پیٹ میں ہی پڑجاتی ہیں اور ان بنیادوں کی تشکیل میں ماں کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔

اس کردار کو درست طور پر ادا کرنے کے لئے ماں کو بڑی مشقتوں سے گذرنا پڑتا ہے اور بڑے سخت جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی مرحلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان مرحلوں میں ماں کا درست رویہ اس کی صحت کے لئے بھی ضروری ہے اور اس کے بچہ کی صحت کے لئے بھی۔ ایسا درست رویہ اختیار کرنے میں، ماں کو بھی اپنا رول ادا کرنا پڑتا ہے اور ان لوگوں کو بھی جو اس کے ساتھ رہ رہے ہیں ، خاص طور پر شوہر یعنی ہونے والے بچہ کے باپ کو اور اس کے ساتھ ساتھ، گھر کے دیگر افراد یعنی ہونے والے بچہ کے دادا دادی، نانا، نانی اور دیگر متعلقین کو بھی مثبت رویہ اختیار کرنا ضروری ہوتا ہے۔

حمل کے دوران نفسیاتی تبدیلی

حمل کے دوران عورت بہت ساری جسمانی تبدیلیوں سے گزرتی ہے۔جیسے ہی اس کے جسم میں ایک نئے انسانی وجود کی پرورش شروع ہوتی ہے، اس کی جسمانی توانائیوں کا بڑا حصہ، اس ننھے وجود کی پرورش کے لئے مختص ہوجاتا ہے۔ ہارمون میں تبدیلیاں آنے لگتی ہیں۔ جسم کی قوت مدافعت کم ہوجاتی ہے۔انفیکشن آسان ہوجاتے ہیں۔ بعض عورتوں کے مسوڑھوں میں درد شروع ہوجاتا ہے۔ کسی کے جسم پر طرح طرح کے نشان اور اینٹھنیں شروع ہوجاتی ہیں۔جسم کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ پسینہ زیادہ آنے لگتا ہے۔ جوڑوں میں اور پیٹھ میں درد شروع ہوجاتا ہے۔ قئے اورمتلی کی شکایت تو بہت عام ہے۔اٹھنے ، بیٹھنے اور سونے ولیٹنے میں دشوریاں پیش آنے لگتی ہیں۔جسم کی بدلی ہوئی ساخت ہر حرکت میں رکاوٹ پیدا کرنا شروع کرتی ہے۔ اس طرح کے دسیوں مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔ بعض تبدیلیاں بہت تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ ان میں سے کچھ ہی تبدیلیاں وہ ہوتی ہیں جن کو دیگر لوگ محسوس کرتے ہیں۔کسی بھی مشقت میں آدمی کے جسم کے کچھ اعضا کا بوجھ بڑھ جاتا ہے، لیکن حمل ایک ایسا مرحلہ ہے جس میں عورت کے تمام ظاہری اور اندرونی اعضا کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔اس کے دل، گردوں، جگر وغیرہ کو بھی بہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔

جسمانی تبدیلیاں تو پھر بھی دیگر لوگ نوٹ کرتے ہیں۔ اصل مسئلہ نفسیاتی اور جذباتی تبدیلیوں کا ہوتا ہے۔ خاص طور پر وہ لڑکیاں جو پہلی بار حمل کے مرحلہ سے گزر رہی ہوں ، ان کے لئے یہ مرحلہ بڑا چیلنجنگ ہوتا ہے۔حمل کے ابتدائی وقت میں عورت کے چہرے پر نکھار آجاتا ہے۔ سب لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ بے حد بہت خوش ہے ۔ بے شک ہر عورت کے لئے یہ خوشی کا موقع ہوتا ہے لیکن خوشی کے ساتھ ساتھ بہت سے نفسیاتی چیلنجوں سے بھی اسے گذرنا پڑتا ہے، جس کا دیگر لوگوں کو اندازہ نہیں ہوتا۔ہر حمل اپنے آپ میں نیا اور منفرد ہوتا ہے اور ہر حمل کے تجربات بھی مختلف ہوتے ہیںاس لئے جو عورتیں ، اس سے پہلے حاملہ رہ چکی ہیں وہ بھی کئی دفعہ نئے چیلنجوں کا سامنا کرتی ہیں۔

حمل ٹھہرتے ہی عورت کے جسم میں بہت سی ہارمونل تبدیلیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ اس کے جسم کا کیمیائی توازن بدل جاتا ہے۔ اس کا راست اثر اس کے مزاج اور نفسیات پر بھی پڑتا ہے۔ موڈ تیزی سے بدلنے لگتا ہے۔ خوشی ومسرت سے شدید تشویش اور گھبراہٹ کے مرحلہ تک پہنچنے میں چند سیکنڈ سے زیادہ نہیں لگتے۔ہر آدمی زندگی میں جذباتی اونچ نیچ سے گذرتا ہے، لیکن حاملہ عورت بہت زیادہ اور بڑی تیزی سے ،ان مرحلوں سے گذرنے لگتی ہے۔اس کی طبعیت بہت حساس ہوجاتی ہے۔انتہائی معمولی باتوں پر آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ کبھی مزاج میں چڑچڑا پن آجاتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ آنے لگتا ہے۔

یہ تبدیلیاں تمام عورتوں میں یکساں نہیں ہوتیں۔ خاتون کی شخصیت، اس کے لاشعور کی پروگرامنگ، اور اس کے ساتھ رہنے والوں کا رویہ اور ماحول، ان سب کا عورت کو نارمل رکھنے میں اہم رول ہوتا ہے۔مثال کے طور پر اگر ابتدائی دور میں عورت بہت زیادہ تنائو کا شکار ہو تو اسے متلی اور قئے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نتیجہ میں وہ متلی ہی پر توجہ دینے لگتی ہے۔ کھانے پینے سے گریز کرنے لگتی ہے، اس سے عدم تغذیہ کی وجہ سے اور بیمار ہوجاتی ہے۔ اگر ابتدا میں وہ اعتماد کے ساتھ حمل کو قبول کرے تو اس تکلیف سے بچ سکتی ہے۔

پہلے تین مہینے

یہ حمل کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔ پہلی بار حاملہ ہونے والی عورتوں کے لئے یہ بالکل نیا تجربہ ہوتا ہے۔ موڈ میں اچانک تبدیلیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ اس مرحلہ میں اسقاط کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ بعض عورتیں اس خطرہ کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہوجاتی ہیں۔ خاص طور پر جن عورتوں کو سابق میں ایسے حادثہ سے گذرنا پڑا ، ان کی تشویش سیریس نفسیاتی مسائل بھی پیدا کرسکتی ہے۔ایسی عورتیں اس مرحلہ میں اپنے حمل کو چھپانے کی بھی کوشش کرتی ہیں ۔

چوتھے سے چھٹا مہینہ

عام طور پر یہ حمل کے دورانیہ کا نسبتاً آرام دہ مرحلہ ہوتا ہے۔ابتدائی تین مہینوں میں عورت جس ذہنی دبائو سے گزرتی ہے، وہ یہاں کسی حد تک کم ہوجاتا ہے۔ اسقاط کا خطرہ بھی ٹل جاتا ہے۔ اس مرحلہ میں جنین کی حرکت fetal movements شروع ہوجاتی ہیں۔ بچہ ہاتھ پیر ہلانے لگتا ہے اور ماں اس کا بہت لطف لیتی ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ شوہر یعنی بچہ کا باپ بھی ، اس حرکت کو محسوس کرے۔اس دور میں ایک اور دلچسپ تبدیلی وقوع پذیر ہوتی ہے۔عورت بہت زیادہ اپنے شوہر پر منحصر ہوجاتی ہے۔ جسمانی تبدیلی کی وجہ سے ,وہ چاہتی ہے کہ شوہر ہمیشہ اس کے آس پاس رہے۔

ساتویں سے نواں مہینہ

اس مرحلہ میں عورت وضع حمل کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتی ہے۔ جہاں آنے والے بچے کو لے کر بہت سے خواب ہوتے ہیں وہیں بہت سے خدشے بھی جنم لیتے ہیں۔ پہلی دفعہ ماں بننے والی عورتوں میں درد زہ labour painsکے خدشات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ان گنت سوالات ہوتے ہیں جن کا جواب اسے نہیں ملتا۔ آنے والے بچے کی صحت اور جسمانی ساخت وغیرہ کے تعلق سے بھی وہ بہت زیادہ فکر مند ہوتی ہے۔ قبل از وقت ولادت وغیرہ کا خوف بھی ستاتا ہے۔

ماں کی نفسیاتی صحت کا بچہ پر اثر

جدید تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ماں کے پیٹ ہی میں بچہ کا نفسیاتی ڈیولپمنٹ بھی شروع ہوجاتا ہے۔ جنین کی نفسیات Fetal Psychology نفسیات کا ایک اہم موضوع ہے۔ نویں ہفتہ یعنی تیسرے مہینہ ہی میں جنین آوازیں سننے اور ان کو ریسپانڈ کرنے کے لائق ہوجاتاہے۔ ماں کی آواز پہچاننے لگتا ہے۔ کچھ اور وقت گذرتا ہے تو آواز سے ماں کا موڈ بھی سمجھنے لگتا ہے۔ ماں جب ہنستی ہے تو الٹرا ساونڈ میں اس کا اثر جینین پر صاف محسوس ہوتا ہے۔ وہ بھی خوشی کا اظہار کرتا ہے اور اچھلنے کودنے لگتا ہے اور اگر ماں غمگین ہو، یا تناؤ کا شکار ہو تو بچہ اس کا اثر بھی قبول کرتا ہے۔ تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ حمل کے دوران تناؤ، منفی خیالات، حادثات، تنازعات وغیرہ کا اثر بچہ کی جسمانی صحت پر بھی پڑتا ہے اور نفسیاتی صحت پر بھی۔ تناؤ اور نفسیاتی الجھنوں کی شکار ماؤں کے بچے پیدائشی عوارض کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ان کا وزن کم رہ جاتا ہے ۔ اعضا ڈیولپ نہیں ہوپاتے۔ذہنی صلاحیت پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ وہ اے ڈی ایچ ڈی ADHDجیسی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوسکتے ہیں جو انہیں اچھا طالب علم بننے نہیں دیتیں۔ چنانچہ حمل کے دوران جہا ں حاملہ خاتون کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو مثبت سوچ، اچھے خیالات اور پاکیزہ سرگرمیوں میں مصروف رکھے، وہیں گھر کے تمام افراد کی ذمہ داری ہے کہ اس معاملہ میں اس کی ہر ممکن مدد کریں۔

حمل کے تعلق سے مثبت رویہ

خوش گوار حمل کے لئے پہلی ضرورت یہ ہے کہ حمل کے تعلق سے ماں کا بھی اور دیگر رشتہ داروں کا بھی رویہ مثبت ہو۔ یہ ایک مقدس انسانی فریضہ ہے۔ حاملہ ہونے پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور بچے کی صحت اور اچھے اخلاق کے لئے اللہ کے حضور دعاگو ہوجانا چاہیے۔ فَلَمَّا تَغَشّٰھَا حَمَلَتْ حَمْلاً خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِہٖ ج فَلَمَّآ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰہَ رَبَّھُمَا لَئِنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحًا لَّنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ (اور جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا جسے لیے وہ چلتی پھرتی رہی پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تو دونوں نے مل کر اللہ، اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تو نے ہم کو اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے) یہ عورت کے لئے بہت بڑا شرف ہے کہ خالق کائنات نے اشرف المخلوقات کی تخلیق کے لئے اس کے رحم کو منتخب کیا ہے۔وہ نہیں جانتی کہ اس کی کوکھ میں پل رہی یہ ننھی سی جان، کن عظیم خوبیوں اور صفات سے آراستہ ہوگی اور انسانیت کے لئے کیا کچھ لے کر آئے گی۔ ایک مومنہ خاتون حمل کو مصیبت نہیں سمجھتی، بلکہ پورے جوش و خروش اور خوش اسلوبی ،خدا کے تئیں جذبہ شکر اور ہونے والے بچہ کے سلسلہ میں اچھی امیدوں اور خوابوں کے ساتھ ، اس مقدس فریضہ کو انجام دینے کے لئے کمربستہ ہوجاتی ہے۔ اس زمانے میں اللہ تعالی کی خصوصی رحمت بھی اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ کئی حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حمل ماں کی فضیلت کا ایک اہم سبب اور عورت کے لئے اجر کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے حمل اور ولادت کے دوران موت کو شہادت کی موت قرار دیا ہے۔ (ابوداود) رسول اللہؐ نے ماں کے حق کو باپ سے زیادہ قرار دیا ہے۔ علما ء نے اس کی وجہ یہی بتائی ہے کہ ماں حمل، ولادت اور رضاعت کے سخت مرحلوں سے گذرکر اس کی پرورش کرتی ہے۔

بعض لوگ جب حمل نہیں چاہتے یا اس کی توقع نہیں رکھتے لیکن اس کے باوجود حمل ٹہر جاتا ہے تو ایسی صورت میںخاتون اور متعلقین تناؤ کے شکار ہوجاتے ہیں۔ غیر مطلوب ہونے کی وجہ سے حمل کے تئیں ان کا رویہ منفی ہوجاتاہے۔ اسلام نے وضاحت کی ہے کہ حمل کا ٹہرنا یا نہ ٹہرنا یہ خدا کی مشیت کا حصہ ہے۔ آں حضرت ﷺ نے صحیح حدیث میں واضح فرمایا ہے کہ حمل کا ہونا نہ ہونا تقدیر سے ہے۔(فانما ھو القدر۔صحیح مسلم) اس لئے بندہ مومن کو اللہ کی عطا پر ہمیشہ خوش رہنا چاہیے ۔

بعض خواتین لڑکا چاہتی ہیں اور انہیں یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ کہیں لڑکی پیدا نہ ہوجائے۔ یہ تشویش بھی منفی رویہ کا سبب بنتی ہے۔اسلام اس سوچ کی بھی شدت سے مذمت کرتا ہے۔ لڑکیوں کی پیدائش اور ان کی پرورش جنت کے حصول کا ذریعہ ہے۔

بعض خواتین کو ڈلیوری کے مراحل کا ڈر، ولادت کے بعد بیمار ہونے، موٹے ہوجانے، حسن میں کمی واقع ہونے کا ڈر بھی ستاتا ہے۔ایک مومن خاتون اللہ پر توکل کرتی ہے۔ وہ یہ یقین رکھتی ہے کہ وہ نسل انسانی کی افزائش کا مقدس فریضہ انجام دے رہی ہے۔االلہ تعالی اس کے ساتھ اچھا معاملہ کرے گا اور جو معاملہ بھی اللہ تعالی کرے گا، اس میں بالآخر اس کے لئے خیر ہی ہوگا۔ اس لئے اسے تناؤ میں پڑنے کی کوئی وجہ نہیں۔ایک مومن خاتون اللہ سے اس حالت میں اپنے لئے اور اپنے ہونے والے بچہ کے لئے مستقل خیر طلب کرتی ہے۔ قرآن مجید نے اللہ کی ایک نیک بندی یعنی مریم ؑ کی والدہ کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَافِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّی (وہ اس وقت سن رہا تھا) جب عمران کی عورت کہہ رہی تھی کہ، میرے پروردگار! میں اس بچے کو جو میرے پیٹ میں ہے تیری نذر کرتی ہوں، وہ تیرے ہی کام کے لیے وقف ہوگا۔‘‘ (آل عمران ۳۵)

حاملہ کے ساتھ اچھا رویہ

ایک صحت مند اور تندرست ماںہی صحت مند بچے کو جنم دے سکتی ہے۔ حمل کے دوران ماں کی غذا پر خاص توجہ دینی چاہئے۔ گھر کے دیگر افراد کو چاہئے کہ ہونے والی ماں کی غذا کا خاص خیال رکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ صحت بخش غذا وقت کی پابندی کے ساتھ لے۔ بعض وقت حاملہ خاتون ، اس دوران جس نفسیاتی کیفیت سے گذررہی ہوتی ہے، اس کی وجہ سے اپنے آپ پر اور اپنی غذا پر توجہ نہیں دے پاتی۔ یہ شوہر اور گھر کے دیگرلوگوں کی ذمہ داری ہے کہ اس کا خیال رکھیں۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اس کو نفسیاتی سپورٹ فراہم کریں۔ اُسے اور اس کے پیٹ میں پل رہے معصوم بچہ کو خوشگواراور صحت مند ماحول فراہم کریں۔ اس مرحلہ میں اگر شوہر اور دیگر قریبی اعزہ، خاتون کو جذباتی سہارا فراہم کریں، اس کی ہمت افزائی اور دلجوئی کریں، اُسے اپنے چاروں طرف خوشیوں ، مسرتوں اور بے پناہ محبتوں سے پر پاکیزہ اور صحت بخش ماحول میسر آئے، اسے یہ محسوس ہو کہ گھر کا ذرّہ، ذرّہ،نئے مہمان کی اطلاع پرانتہائی خوش و خرم ہے اور اس پر جان نچھاور کئے ہوئے ہے، تو ایسے ماحول میں حاملہ خاتون آسانی سے مذکورہ نفسیاتی چیلنجوں کا مقابلہ کرسکتی ہے اور خوش و خرم رہ سکتی ہے۔ وہ خوش اور مطمئن رہے گی تو اس کا بچہ بھی صحت مندرہے گا۔

ہمارے روایتی سماج میں عام طور پر ان باتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ خصوصاً پہلے حمل میں، جبکہ لڑکی ابھی ناتجربہ کار نئی نویلی دلہن ہی ہوتی ہے، حمل کے بعد اس کی مشکلات میں اوراضافہ ہوجاتا ہے۔روایتی سماج نے ساس اور بہو کا ایک خاص رشتہ بنادیا ہے۔ شادی کے بعد کچھ دن تو سب کچھ صحیح چلتا ہے لیکن حمل کا مرحلہ آتے آتے ،بہت سے گھروں میں رنجشیں شروع ہوجاتی ہیں اور ان کا اثر بہو کی غذا پر پڑتا ہے۔ اس کی خصوصی غذائی ضرورت کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ حمل کی وجہ سے وہ جلد تھک جاتی ہے۔پہلے حمل میں تو بہت زیادہ آرام کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایسے میں فطری طور پر خاتون کا گھریلو کام کاج بھی متاثر ہوسکتا ہے۔ اس سے بھی تنازعات پیدا ہونے لگتے ہیں۔

جہیز کے لالچی خاندانوں میں جہیز اور دیگر مطالبات کو لے کر تنازعات بھی اس دوران بڑھ جاتے ہیں۔ یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ کئی گھرانوں میں ہاسپٹل، علاج اور اس میں درپیش اخراجات کو لے کر خاتون کے میکے اور سسرالی خاندان میں تنازعات شروع ہوجاتے ہیں۔ اسلام نے بہت واضح طور پر بیوی کے اخراجات شوہر کے ذمّے رکھے ہیں۔ شوہر کے لئے ہرگز جائز نہیں کہ وہ ولادت وغیرہ کا بوجھ اپنی سسرال پر ڈالے اور نہ یہ جائز ہے کہ استطاعت کے باوجود وہ اپنی بیوی کو بہتر سے بہتر ممکنہ طبی سہولیات فراہم کرنے میں کسی تساہل سے کام لے۔ ایک حاملہ خاتون جو شدید جذباتی اور جسمانی دباؤ کے دور سے گذررہی ہے، اسے یہ معلوم ہو کہ اس کی ذات کو لے کر اس کی سسرال اور میکے والے لڑرہے ہیں، تو اس کے دل پر کیا گذرے گی؟فطری طور پر حمل کے اس سخت مرحلہ میں ، ایسے تنازعات کا جذباتی کرب کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ یہ بہت بڑا ظلم ہے جو ہمارے معاشرہ میں بہت سی معصوم لڑکیوں کی صحت ہی تباہ نہیں کرتا بلکہ ان کی کوکھ میں پل رہی اگلی نسلوں پر بھی نہایت خراب اثرات مرتب کرتا ہے۔

پاکیزہ دینی ماحول

سائنس اور روایات دونوں سے یہ ثابت ہے کہ ہونے والے بچے پر ماں کی غذا، ماحول، گھریلو رشتے، اس کے اخلاق اور کردار کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ کوکھ میں پل رہے بچہ کو اپنی ماں سے غذا ملتی ہے۔ اس لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ یہ غذا بھرپور اور صحت بخش ہو وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ یہ حلال اور پاکیزہ ہو۔ اسلامی تاریخ میں ہم کوبعض ماؤں کے حیرت انگیز تذکرے ملتے ہیں، جنہوں نے اپنی اولاد کو حرام لقمہ سے بچانے کے لئے غیر معمولی احتیاطوں سے کام لیا۔

جس طرح حمل کے دوران جسمانی غذا پر توجہ ضروری ہے اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ روحانی غذ اپر بھی توجہ مطلوب ہے۔ یہ وہ دور ہے جس میں معصوم بچہ کے لاشعور کی بنیادیں پڑرہی ہیں۔ اس دنیا سے اس کا ساراتعلق اس کی ماں کے واسطہ سے ہے۔ چنانچہ ماں جو کچھ کر تی ہے اور سوچتی ہے یا اُس کے آس پاس کے ماحول میں جو کچھ ہوتا ہے، اس کا اثر اس نئے مہمان کی شخصیت کی بنیادوں پر پڑتا ہے۔ ایک سچی مسلمان عورت، زمانہ حمل میں اپنی مصروفیات اور اعمال کے سلسلہ میں زیادہ حساس ہوجاتی ہے۔ قرآن کا کثرت سے مطالعہ اور اس پر تدبر،اللہ کا ذکر، نماز کی پابندی، حسب استطاعت نوافل کا اہتمام،پاکیزہ گفتگو، اچھے لوگوں کے تذکرے، وغیرہ سے حاملہ عورت کو بھی سکون ملے گا اور اس کا بچہ بھی صحت مند اور جسم و سیرت کے حسن سے مالا مال ہوگا۔حاملہ عورت کے ساتھ گھر کے دیگر لوگوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچہ کو اپنی پرورش کے لئے پاکیزہ ماحول ملے۔ گھر میں اچھے تذکرے ہوتے رہیں۔جو آوازیں بھی رحم مادر میں پل رہے اس ننھے وجود کے لاشعور سے ٹکرائیں وہ پاکیزہ اور کردار ساز آوازیں ہی ہوں۔ نماز و تلاوت ہوتی رہے۔ دعائیں پڑھی جاتی رہیں۔ گھر کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ اچھے لہجہ میں اور محبت کے ساتھ بات کریں۔

شور اور بلند آوازیں بچہ کے ڈیولپمنٹ کے لئے بہت نقصاندہ ہوتی ہیں۔ ایسی آوازوں پر بچہ پیٹ میں بے چین ہوجاتا ہے۔ اگر گھر میں لڑائی جھگڑے کا ماحول ہو، یا رات دن ٹی وی چل رہا ہو اور اس پر شور شرابہ اور بے ہودہ باتوں کا ہنگامہ بپا ہو یا آس پاس گالی گلوچ اور فحش گوئی کی فضا ہو، تو ان سب کا خراب اثر بچہ کے لاشعور پر پڑتا ہے۔ اسی طرح ماں کے اندر بغض، کینہ، حسد، تکبر، جھوٹ، نفرت، نفاق وغیرہ جیسی اخلاقی برائیاں ہوں تو وہ اپنے خون کے ساتھ ان کے اثرات کو بھی اپنے حمل تک پہنچاتی ہے۔

یہ بات اب متعدد تحقیقات سے ثابت ہوچکی ہے کہ ماں اپنے بچہ کے بارے میں جو کچھ سوچتی ہے، اس کا اثر بھی بچہ کی شخصیت پر پڑتا ہے۔ ایسی تحقیقات بھی موجود ہیں کہ جن ماؤں نے ڈراؤنی فلمیں دیکھنے میں وقت گذارا اور ان کے ڈراؤنی کردار حمل کے دوران ان کی نگاہوں میں گھومتے رہے، ان کے بچے ڈراونی شکل و صورت کے ساتھ پیدا ہوئے۔ اس لئے اس دوران کثرت سے انبیاء علیہم السلام، صحابہ اکرامؒ اور دیگر نیک اور عظیم لوگوں کی سیرتوں کا مطالعہ کرتے رہنا چاہیے۔ اپنے بچہ کو ان کے جیسا بنانے کا خواب دیکھنا چاہیے۔ غالبا اسی وجہ سے بعض حلقوں میں حمل کے دوران خاص طورپر سورہ مریم اور سور ہ یوسف پڑھنے کا رواج ہے۔

اپنے بچہ کے مستقبل کے بارے میں اچھا سوچنے کے لئے باقاعدہ مشقیں بھی تجویز کی جاسکتی ہیں، جنہیں ویزولائزیشن یا امیجری imageryکہا جاتا ہے۔ اس میں خاتون ، ماہر کونسلر کی نگرانی میں اپنے ہونے والے بچہ کے بارے میں سوچتی ہے ۔ اس کے شانداراور پاکیزہ مستقبل کا تصور کرتی ہے۔جاگتی آنکھوں سے اس کے بارے میں بلند خواب دیکھتی ہے۔ ایسے تصورات کا گہرا اثر اب سائنسی لحاظ سے ثابت شدہ ہے۔ قرآن مجید نے نیک اولاد کے لئے بہت خوب صورت دعائیں سکھائی ہیں۔ ان دعا وںکو اس عرصہ میں صبح و شام کثرت سے دہراتے رہیے۔اس سے اللہ کی مدد و نصرت بھی ملے گی اور آپ کے تصورات بھی پاکیزہ ہوجائیں گے۔

رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ج اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآئِ (پروردگار! اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر تو ہی دعا سننے والا ہے۔سورۃ آل عمران ۳۸) اسی طرح قرآن مجید نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا نقل کی ہے۔ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْن(اے پروردگار، مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو الصافات ۹۹) رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا۔ الفرقان ۷۴)lll

email:coachnazneen@innerpeacelife.com

website:www.innerpeacelife.com

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں