خزاں کو بھی رشک بہاراں بنادو
بیاباں کو صحن گلستاں بنادو
بکھرو حیا اور غیرت کی کرنیں
رخ صبح عالم درخشاں بنادو
جو تھک ہار بیٹھا رہِ زندگی میں
تم اس قافلے کو خراماں بنادو
جو ہاتھ آئیں قسمت سے ذرے ہی تمکو
تو ذروں کو بھی مہرتاباں بنادو
غلط ہے کہ نسوانیت فتنہ جو ہے
اسے دردِ انساں کا درماں بنادو
نظر اپنی عفت بداماں بناکر
یہ ساری فضا پاک داماں بنا دو
ہوئی آج ہے پیرہن آدمیت
تم اس کے لیے جیب و داماں بنادو
تبسم اطاعت محبت مروت
حسین ان سے شام غریباں بنادو
جو بستی اجاڑی ہے دست ہوس نے
اسے آج پھر شہر خوباں بنادو
اٹھو اور کرو شمع اخلاص روشن
منور فضائے شبستاں بنادو
شکستہ دلوں کی کرو چارہ سازی
یہ جنس گراں آج ارزاں بنادو
جو بدمست و بے فکر ہے اس بشر کو
غم زندگی کا نگہباں بنادو
زمانے کا درد و الم بانٹ لو تم
زمانے کو شاداں و فرحاں بنادو
بڑا عصر حاضر پہ احسان ہوگا
اگر آج انساں کو انساں بنادو