خاندان کا اسلامی تصور

ڈاکٹر تمنا مبین اعظمی

اسلام میں فرد کی بہت اہمیت ہے۔ اس فرد واحد کی دیکھ ریکھ ، تعلیم و تربیت اور حقوق و ذمہ داریوں کے تعیین کے لئے اسے محبتوں کے گہوارے میں پروان چڑھاتا ہے ۔ دنیا میں آتے ہی وہ رشتوں کے بندھن میں بندھ جاتا ہے جو اس کی حفاظت، تعلیم و تربیت اور سماج کا بہترین شخص بنانے میں اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ یہاں پر خاندان کی اہمیت اور ضرورت نظر آتی ہے۔ خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے اگر خاندان کی بنیادیں درست ہوں گی تو معاشرہ بھی مستحکم اور بہترین ہو گااور اس خاندان میں پرورش پانے والا فرد بھی ذمہ دار شہری اور بہترین انسان بنے گا۔ اسی لئے اسلام کی معاشرتی تعلیمات میں خاندان کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے۔شادی بیاہ کی تفصیلات ، شوہر و بیوی کے حقوق و ذمہ داریاں، طلاق و خلع اور وراثت کے قوانین کے علاوہ معاشرتی اور خاندانی زندگی کی تفصیلات واضح طور پر قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔ جن کا مقصد یہ ہے کہ خاندان کے افراد کی تربیت ہواور خاندانی نظام محفوظ رہے۔

نکاح کا حکم

خاندان کی بنیاد نکاح کا وجود ہے۔ اسلام نے اس کے تفصیلی احکامات امت کو دیے ہیں۔ قرآن مجید میں اس پر بڑی تفصیل سے احکامات دیے ہیں۔ رشتہ نکاح کے بعد زوجین کے درمیان قائم ہونے والی محبت کو اللہ تعالیٰ براہ راست اپنی نفسیاتی قرار دیتا ہے۔ قرآن میں ہے:

’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ یقینا اس میں بہت سے نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں‘‘۔

محبت اور دلی وابستگی ہی ہر تعلق کی جان ہوتی ہے۔ میاں بیوی کے رشتے میں اس کی اہمیت کچھ اور زیادہ ہوجاتی ہے۔ کیونکہ انھیں نہ صرف ایک دوسرے کے لیے باعث سکون ہونا ہے بلکہ پیار و محبت سے مل کر ایک نئے خاندان کی بنیاد رکھنی ہوتی ہے۔ تجربے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جن گھروں میں زوجین کے درمیان پیار اور اتفاق ہوتا ہے اس میں پرورش پانے والی نسل زیادہ مکمل شخصیت کی حامل ہوتی ہیں۔

’’وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔‘‘

لفظ ’لباس‘کی بہت خوبصورت وضاحت محمد کلیم نے اپنی کتاب عورت اور قرآن میں کی ہے:

’’۱۔ جس طرح بدن کا پوشاک کے بغیر گزارہ نہیں اسی طرح میاں بیوی کا بھی ایک دوسرے کے بغیر گزارہ نہیں۔

۲۔ جس طرح پوشاک موسم کی سختی کو روکتی ہے اسی طرح میاں بیوی مصائب کے مقابلے میں ایک دوسرے کی ڈھال ہیں۔

۳۔ جس طرح بدن اور پوشاک کا بہت قریبی تعلق ہے اسی طرح میاں بیوی کا بھی قریبی تعلق ہے۔

۴۔ پوشاک عزت و آبرو کی محافظ ہے۔ عریانی و بے حیائی سے بچاتی ہے اس طرح میاں بیوی بھی ایک دوسرے کی عزت و آبرو کے محافظ ہیں اور ایک دوسرے کو عریانی و بے حیائی سے بچاتے ہیں اور لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل نہیں ہونے دیتے۔

۵۔ صاف ستھری اور دیدہ زیب پوشاک سے انسان کو فرحت حاصل ہوتی ہے اس طرح نیک اور تہذیب یافتہ میاں بیوی کو ایک دوسرے سے فرحت اور تسکین ملتی ہے‘‘۔

اللہ کے رسولؐ نے نہ صرف نکاح کی تاکید کی بلکہ ایک مرد ایک عورت سے اور ایک عورت ایک مرد سے کن ترجیحی بنیادوں پر نکاح کرے اس کی بھی وضاحت فرمائی۔شادی کے بارے میں آپؐ نے فرمایا:

’’عورت سے لوگ چار غرضوں سے نکاح کرتے ہیں یا مالداری کی وجہ سے یا حسب نسب کی وجہ سے یا خوبصورتی کی وجہ سے یا دینداری کی وجہ سے تو ایسا کر دیندار عورت کو اختیار کر (جس کے اوضاع و اطوار اچھے ہوں) اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (اخیر چل کر ندامت ہوگی)‘‘۔

’’جب کوئی ایسا شخص تمھارے یہاں نکاح کا پیغام دے جس کی دینداری اور اخلاق پسندیدہ ہوں تو اس کا اپنے یہاں رشتہ کردو، اگر ایسا نہ کروگے تو معاشرے میں فتنہ اور سخت بگاڑ برپا ہوجائے گا۔‘‘

ان احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حسب و نسب اور مال و دولت شادی کے لیے معیار ترجیح نہیں ہونے چاہیے بلکہ تقویٰ، پرہیزگاری اور دینداری کی بنیاد پر رشتے کو ترجیح دینا چاہیئے۔

دین داری کو ترجیح دینے کی وجہ یہ ہے کہ اسی رشتے سے ایک خاندان وجود میں آتا ہے،خاندان جہاں ایک نئی نسل پرورش پاتی ہے،جہاں کے سکون پر انسان کی تمام تر دینی اور دنیاوی کار گزاری اورفلاح و کامیابی کا دارومدار ہوتا ہے۔اسلام ایک دیندار اور صالح خاندان کی تشکیل کرنا چاہتا کیونکہ خاندان سماج کی ایک یونٹ ہوتا ہے اسلامی معاشرہ تبھی وجود میں آسکتا ہے جب سب سے پہلے اسلامی خاندان وجود میں لانے کی تگ و دو کی جائے۔

تحفظ کا حصار

۱۔خاندان فرد کے گرد ایک حفاظتی حصار ہوتا ہے ۔انسان جو خاندان کے درمیان رہتا ہے وہ خود کو محفوظ سمجھتا ہے ۔ کسی بھی مشکل میں خود کو اکیلا محسوس نہیں کرتا۔ زیادتی کرنے والا بھی یہ سو چتا کہ اس کے پیچھے پورا خاندان ہے۔ اسی لئے شریعت نے قتل کی دیت قریب ترین رشتے داروں پر عائد کی ہے تاکہ وہ محسوس کریں کہ فرد کو جرم سے روکنے کے لئے سبھی ذمہ دار ہیں۔

۲۔ خاندان سے کمزوروں، غریبوں، یتیموں، بوڑھوں، اپاہجوں ، بیواؤں اور خواتین کی کفالت ہوتی ہے۔ اسلام میں نفقہ، وراثت اور کفالت کے پورے قانون کی اساس یہی ہے کہ انسان پر صرف اس کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ وہ ایک خاندان کا حصہ ہے ۔

۳۔ خاندان کا ایک مقصد یقینا دکھ و تکلیف کو کم کرنا اور خوشی و مسرت کو دوبالا کرنا ہے۔

اسی لئے قرآن مجید نے خاندان کے وجود کو اپنے احسان میں سے شمار کیا ہے ۔

تاریخی اعتبار سے زمانہ قدیم سے آج تک خاندانی نظام میں دو شکلیں رائج رہی ہیں ایک مختصر خاندان جسے Nuclear Family System کہا جاتا ہے ۔ یہ خاندان بیوی، بچوں اور کبھی کبھارماں باپ پر مشتمل ہوتا ہے۔ لیکن اپنی اصل صورت میں اس کی خصوصیت اختصار یا محدودیت ہے جب کہ دوسری شکل مشترکہ خاندان کی ہے جیسےJoint Family System کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہندوستانی سماج میں یہ خاندان کی قدیم شکل ہے۔ اللہ کے رسولؐ کے زمانے میں بھی یہ دونوں شکلیں رائج تھیں اور آپ کی ہدایات میں ان دونوں کا ذکر اور ان سے متعلق ہدایات ملتی ہیں۔ مشترکہ خاندان میں سارے بھائی اپنے بیوی بچوں اور ماں باپ کے ساتھ ایک ہی جگہ مل جل کر رہتے ، اس میں اکثر خاندان کے دوسرے لوگ خاص طور پر وہ بہنیںاور ان کے بچے بھی شامل ہوتے ہیں جو کسی وجہ سے شوہر کے ساتھ نہیں رہتیں، پھر بھایئوں کی بہویں اور پوتے پوتیاں بھی شامل ہوتے۔اس قسم کے خاندانی نظام میں مشترکہ طور پر معاشی ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے، سب کے کھانے، پینے اور رہنے کا انتظام ایک گھر میں ہوتا۔مشترکہ خاندانی نظام کے اگرچہ کچھ فوائد ہیں لیکن نقصانات بھی ہیں۔ ہندو نظام زندگی کا یہ پسندیدہ طرز معاشرت ہے کیوںکہ سمرتیوں میں باپ کی وفات کے بعد بڑے بیٹے کو جائداد کا تنہا وارث قرار دے کر چھوٹے بھائیوں کو اس پر منحصر کر دیا جاتا تھا۔ سب سے پہلے مشترکہ خاندانی نظام کے فوائد کا ایک جائزہ لینا چاہوں گی۔

مشترکہ خاندان کے فوائد

۱ ۔ اتحاد و اجتماعیت۔ اسلام میں اتحاد و اجتماعیت کی جو اہمیت ہے وہ اظہر من الشمش ہے خود ارکان اسلام جن پر اسلام کی عمارت قائم ہے اتحاد کا مظہر ہیں۔ مردوں کو نماز باجماعت کے اہتمام کا حکم دیا گیا، زکوۃ کے ذریعے امراء و فقراء کے درمیان کی تفریق مٹانے کی کوشش کی گئی، ایک ہی مہینے دنیا بھر کے مسلمانوں پر روزہ فرض کرکے اجتماعیت کی تعلیم دی گئی، حج تو ملت اسلامیہ کی عالمی وحدت کا مظہر ہے۔ جس طرح اسلام پوری ملت کے اتحاد پر زور دیتا ہے ، اسی طرح ایک خاندان کے افراد کو بھی مل جل کر رہنے کی تاکید کرتا ہے۔ چنانچہ خاندانی استحکام و اتحاد کے لیے مشترکہ خاندان موزوں تر ہے۔ ایک ہی ساتھ رہنے، سہنے ، کھانے پینے اور دکھ سکھ بانٹنے سے یہ تعلق اور مستحکم ہو جاتا ہے۔خاندان کا یہ اتفاق مخالفین کے لیے رعب و دبدبے کا باعث ہوگا۔

۲ ۔مالی استحکام۔ مشترکہ خاندانی نظام کا ایک فائدہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ایک ساتھ کاروبار کرنے سے آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے اور دولت کا ارتکاز ہوتا ہے، خاص طور پر زراعت پیشہ اور کاروباری خاندان میں زمین و جائداد بٹوارے سے بچ جاتی ہیں۔

۳۔ کمزور افراد کی نگہداشت۔اسلام میں والدین کی خدمت کی جو اہمیت ہے وہ اس بات سے ثابت ہوتی ہے کہ قرآن میں بارہ مقامات پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید وارد ہوئی ہے، حدیث میں بھی والدین کی نگہداشت کرنے کا حکم ملتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں ماں باپ کی دیکھ بھال اور نگہداشت بہت اچھے سے ہو جاتی ہے کیونکہ ساری اولاد ایک ہی چھت کے نیچے ہوتے ہیں اور والدین بھی سارے بچوں کے ساتھ رہنے سے سکون محسوس کرتے ہیں۔

اسلام یتیم، بیوہ اور خاندان و سماج کے کمزور لوگوں کی دیکھ بھال کا حکم دیتا ہے اور اسے اجر و ثواب کا باعث بتاتا ہے۔ مشترکہ خاندان میں یہ دیکھ بھال بہت اچھے سے ہو جاتی ہے اور جو لوگ معاشی اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں ان کی بھی گزر بسرباآسانی ہو جاتی ہے۔

۴۔ بچوں کی تعلیم و تربیت۔ مشترکہ خاندان میں چھوٹے بچوں کی تربیت دادا،دادی اپنی کہانیوں اور دوسرے طریقوں سے کردیتے جس سے بچے اپنے خاندان کی روایت،بڑوںچھوٹوں کا احترام کرنا سیکھ لیتے، ساتھ ہی بچوں کو پالنے میں بھی آسانی رہتی اور ماں باپ بہت سی ذمہ داریوں سے بچے رہتے۔

مشترکہ خاندان کے نقصانات

یہ تو وہ فوائد ہیں جو مشترکہ خاندانی نظام سے منسوب کیے جاتے ہیں لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ مشترکہ خاندان کی ناہمواریاں اور نقصانات بھی ہیں۔ شرعی نقطہ نظر سے اس نظام میں بڑی بے اعتدالیاں پائی جاتی ہیں، ساتھ ہی اس میں بہت سے نفسیاتی، معاشرتی، جنسی اور معاشی مفاسد بھی شامل ہیں۔

۱۔نفسیاتی نقصان۔ مشترکہ خاندانی نظام میں عموما بڑے بھائی کی حکمرانی ہوتی ہے ، بڑے بھائی کی حکمرانی کی وجہ سے دوسرے بھایئوں اور دیورانی جٹھانی کے درمیان نفرت پیدا ہونے لگتی جو بہت سے معاشرتی نقصانات کا سبب بن جاتی ہے۔ اس نظام خاندان کے نقصان کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ نجی زندگی کے تحفظ اور پرائیویسی نہ ہونے کی وجہ سے بعض افراد افراد بے اطمینانی کی کیفیت سے دوچار ہو جاتے ہیں کیوںکہ انسان کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسی جگہ ہو جہاں وہ آزادی سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہ سکے۔اس کے ساتھ ہی مشترکہ خاندانی نظام عدم تسکین کے اعتبار سے بھی نفسیاتی نقصان کا باعث ہو تا ہے۔ بہت سارے لوگوں کے ہر وقت آمد و رفت سے میاں بیوی کو ساتھ رہنے کے مواقع کم ہی مل پاتے جس سے رشتوں میں دوری رہتی اور شرم و حیا کا نام دے کر ان کے گھلنے ملنے پر پابندی عائد کر دی جاتی۔

۲۔معاشرتی نقصان۔معاشرتی اعتبار سے مشترکہ خاندان اپنے اندر بڑی نا ہمواریاں رکھتا ہے۔ کھانے پینے کے معاملات میں اپنی پسند اور ترجیحات سے دستربردار ہونا پڑتا ہے، مائیں اپنے بچوں کی پسندیدہ چیزیں نہیں بنا سکتیں، افراد خانہ کے درمیان تعلقات کے خراب ہونے کے امکان زیادہ بڑھ جاتے۔ ان سب کے ساتھ جھوٹ، فریب، چوری، غیبت، ٹوہ میں لگے رہناوغیرہ وغیرہ کے لیے یہاں فضا زیادہ سازگار ہوتی۔کیونکہ اکیلے سامان منگوا کر کھانا اس نظام میں سخت ناپسندیدہ سمجھا جاتا اس لیے چوری چھپے اس کا انتظام کیا جاتا جس سے افراد کے درمیان عجیب طرح کی خودغرضی کی فضا قائم ہونے لگتی۔ عورتیں ایک دوسرے کی برائیوں اور شکایتوں میں لگی رہتیں۔ کام کاج کو لے کر کوئی ذمہ داری محسوس نہیں کرتا، کوئی دن بھر کام کرتا رہتا اور کوئی فرصت میں رہتا۔

۳۔معاشی نقصان۔اگرچہ مشترک خاندان میں میں کمزور افراد کی بھی پرورش ہوجاتی لیکن اس نظام میں گھر کے بہت سارے لوگ نااہل اور کاہل بن جاتے ہیں کیونکہ ان کی ضروریات زندگی کی تکمیل ہوتی رہتی ہے۔ چنانچہ ایسے گھروں میں کمانے والے کم اور کھانے والے زیادہ ہوتے ہیں۔ کمزوروں اور مجبوروں کے ساتھ تعاون کرنے کو اسلام مستحسن قرار دیتا ہے لیکن اگر یہ صحت مند اور ہٹے کٹے لوگوں کو نااہل بنا دے تو یہ اسلام کے رویے کے منافی ہے۔ اس کے علاوہ مشترک خاندان میں چونکہ مال کو مشترکہ طور پر خرچ کیا جاتا جس کے نتیجے میں ہر شخص اسے غیر کا مال تصور کرکے بے دردی سے استعما ل کرتاچنانچہ سامان کا ضیاع زیادہ ہوتا اور سامان جلدی خراب بھی ہو جاتا۔

۴۔ دینی نقصان۔اس نظام خاندان سے مربوط افراد کے لئے بعض دینی تقاضوں کی تکمیل مشکل ہو جاتی جیسے فرض نمازوں کی قضاء خاص طور پر فجر کی نماز میاں بیوی کے لئے انجام دینا مشکل ہوتا۔ اس کے ساتھ ہی پردہ کے احکام پر عمل آوری ممکن نہیں ہو پاتی کیونکہ بہت سے غیر محرموں کا ہر وقت گھر میں آنا جانا رہتا جو بہت سے مفاسد کی وجہ بن سکتا ہے خاص طور پر نوجوان کزن کی ایک دوسرے سے بے تکلفی برائی کا باعث بن سکتی ہے۔

مشترکہ خاندان کے دینی نقصان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مختلف افراد کی کمائی کا میعار الگ الگ ہوتا ہے لیکن مشترکہ کمائی سے جب کوئی جائداد لی جاتی ہے تو بعد میں تقسیم جائداد کے وقت سب کو برابر ملتی۔ جس میں ممکن ہے کہ زیادہ کمائی والے کو کم ملے اور کم کمائی والے کو زیادہ جو انصاف کے خلاف ہے۔

۵۔ تربیتی نقصان۔اپنے گھر میں والدین اپنے طریقے سے بچے کی تربیت کرنا چاہتے ہیں ان کے کھانے پینے، سونے،پڑھنے ، لکھنے اور کھیلنے کا وقت متعین کرنا چاہتے ہیں جو مشترکہ خاندان میں ممکن نہیں ہو پاتا اور خاص طور پر تعلیم یافتہ والدین کے لیے کوفت کا باعث ہوتا۔

منفرد خاندان کے فوائد

۱۔ شوہر بیوی کو privacy کے مواقع حاصل ہوتے ہیں۔وہ ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ وقت گزار پاتے ہیں جس سے ذہنی سکون کے ساتھ ساتھ ان کی understanding بہتر ہو جاتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کی پریشانیوں اور مسائل کو بہتر طور سے سمجھنے لگتے ہیں۔

۲۔ گھریلو معاملات میں عورت کو آزادی حاصل ہوتی ہے اور ساس سسر نند وغیرہ کی بے جا مداخلت نہیں ہوتی۔وہ بچوں اور شوہر کی پسند نا پسند کا بہتر طور پر خیال رکھ پاتی ہے۔

۳۔ شوہر بیوہی کی پوری توجہ بچوں پر ہوتی جس سے ان کی تعلیم و تربیت پر زیادہ فوکس ہو پاتا ہے۔والدین اپنی سہولت اور آسانی کے مطابق ٹائم ٹیبل اور شیڈول بنا کر رکھتے ہیں، جس سے وہ ذہنی کلفت سے بچے رہتے ہیں۔

۴۔ لڑائی جھگڑے، شکوہ شکایت وغیرہ کم سے کم ہوتا ہے۔بچے ایک پر سکون ماحول میں پر ورش پاتے ہیں اور گھر میں سکون کا ماحول ہوتا ہے۔

۵۔ لکھنے پڑھنے اور اکیڈمک کام کرنے کے زیادہ مواقع میسر ہوتے ہیں۔

۶۔ دوری کی وجہ سے دوسرے رشتے داروں سے اچھے تعلقات بنے رہتے ہیں۔

منفرد خاندان کی مشکلات

۱۔ شوہر بیوی کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔

۲۔بچے خاندانی طور طریقوں کو اپنا نہیں پاتے۔کچھ معاملات میں نہیں اپنانا بہتر بھی ہوتا ہے۔

۳۔ فی کس خرچ زیادہ ہوتا ہے۔

۴۔خاتون اگر ملازمت کرتی ہو تو چھوٹے بچوں کی دیکھ ریکھ متاثر ہوتی ہے۔

۵۔بچے زیادہ self centered ہو جاتے ہیں۔

اسلام کا مطلوبہ خاندانی نظام

انسان کی ایک اہم خصوصیت اجتماعیت ہے۔ وہ خاندان، معاشرہ اور سماج سے کٹ کر تنہا زندگی نہیں گزار سکتا۔ وہ قدم قدم پے اپنے جیسے دوسرے انسانوں کا محتاج ہے۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپسی تعاون انسانی زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت ہے جس کے بغیر زندگی میں آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ پھر خونی اعتبار سے جس سے جتنا گہرا تعلق ہوتا ہے انسان اس کا اتناہی زیادہ محتاج ہوتا ہے۔ اسی سے خاندانی زندگی کی اہمیت واضح ہوتی ہے کیو نکہ خاندان سے وابستگی انسان کی ایک فطری ضرورت ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام خاندانی استحکام ، رشتوں کے لحاظ اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک پر زور دیتا ہے۔ قرآن میں قرابت داری کا پاس و لحاظ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئا و بالوالدین احسانا و بذی القربی والیتامی و المساکین ( نساء: ۳۶)۔ ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس کی خواہش ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اور موت کو موخر کیا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ رشتوں کو جوڑے۔

اسلام میں کچھ امور کو معروف پر چھوڑ دیا گیا ہے، یعنی وہ بات جو معاشرے میں سب کے نزدیک بہتر اور عمدہ سمجھی جاتی ہو اور اسلامی اصول و احکام سے متصادم نہ ہو۔ خاندانی نظام کا مسئلہ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ وقت اور ضرورت کے مطابق دونوں طرح کے خاندانی سسٹم کو اسلامی دائرے کے حدود میں اختیار کیا جا سکتا ہے۔ دور نبوی میں دونوں طر ح کی مثالیں ملتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی تمام بیویوں کے حجرات الگ الگ تھے۔ حضرت علیؓ کی شادی جب فاطمہؓ سے ہوئی تو وہ رخصت ہو کر الگ گھر میں گئیں باوجود اس کے کہ علیؓ آپﷺ کی کفالت میں بچپن سے تھے اور فاطمہؓ آپﷺ کی چہیتی بیٹی تھیں لیکن ان کے رہنے کے لیے الگ رہائش کا انتظام کیا گیا۔ لیکن اسلامی ہدایات بتاتی ہیں کہ اس کے نزدیک اصل بات یہ نہیں کہ خاندان کی شکل مشترکہ ہو یا منفرد بلکہ اصل بات یہ ہے کہ خاندان کے افراد کے باہمی معاملات اچھے اور خوش گوار ہوں اور ہر فرد اپنی دینی، اخلاقی، سماجی اور معاشی و معاشرتی زندگی میں اپنا ذمے دارانہ رول ادا کرے۔ افراد ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کریں اور کوئی فرد محرومی و بے چارگی کی زندگی جینے کے لیے مجبور نہ ہو۔

اسی کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ اسلام میں منفرد خاندان کا وہ تصور نہیں ہے جو مغرب میں Nuclear family کے نام سے موجود ہے۔ جہاں انسان کی توجہ کا پورا مرکز اس کی بیوی ، بچے اور خود اس کی ذات ہوتی ہے ۔ اسلام نے ایک آدمی پر بیوی بچوں کے ساتھ ساتھ والدین، رشتے داروں یتیموں ، مسکینوں اور دوسروں کا بھی حق رکھا ہے ۔اسلام کے خاندانی نظام کی تین بنیادیں ہیں:

۱۔ الفت و محبت: ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ یقینا اس میں بہت سے نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں‘‘۔

۲۔ عدل و احسان: عدل یہ ہے کہ جو آپ کے کام آتا ہے اور جس قدر کام آتا ہے آپ بھی اس کے کام آئیں اور اسی قدر آئیں۔ اسی لئے شریعت نے نفقہ کی ذمہ داری حصہء میراث کے تناسب سے رکھی ہے ۔ اعزہ و اقارب کا نفقہ ان رشتے داروں پر واجب آتا ہے جو امکانی طور پر اس کے وارث ہونے کے اہل ہیںاور اتنی مقدار میں واجب ہو تا ہے جتنا اس کا حق میراث ہوتا ہے۔ احسان یہ ہے کہ جو آپ کے کام نہ آئیں آپ ان کے کام آئیں یعنی ایثار اور بے غرضی پر مبنی تعلق قائم رہے۔

۳۔ اجتماعی تکافل : یعنی ایک دوسرے کی دیکھ بھال ، خبر گیری کرنا، مال دار غریب رشتے داروں کی، طاقتور کمزور کی مدد کرے۔ یہ تینوں بنیادیں جتنی مستحکم ہو گی خاندان اتنا ہی مضبوط ہو گا اور اس خاندان میں پرورش پانے والے افراد اتنی ہی مستحکم شخصیت کے مالک ہوں گے۔ پھر چاہے یہ سارے مقاصد ساتھ میں رہ کر حاصل کیا جائے یا الگ الگ رہ کر۔

اسلام کا قانون نفقہ اور قانون وراثت اس بات کو واضح کرتا ہے کہ خاندانی نظام میں اتنا پھیلاؤ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ انسان کے لئے اس کی ذمہ داریوں سے عہد بر آ ہونا مشکل ہو جائے اور اس کی خلوت پسندی کا جذبہ مجروح ہو جائے۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام میں خاندان کی اہمیت ضرور ہے لیکن اس کے دائرے کو اس حد تک محدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ انسان بے سکونی محسوس نہ کرے۔

جہاں تک والدین کی نگہداشت، کمزوروں کی دیکھ بھال اور چھوٹے بھائی بہنوں کی کفالت کا مسئلہ ہے تو وہ ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے جس سے کسی بھی حال میں منھ نہیں موڑا جا سکتا۔معاشی مشکلات کا جو مسئلہ ہے اس کا بھی حل اسلام کے نظام نفقات اور نظام وراثت میں ہے ضرورت اس کو سمجھنے اور لاگو کر نے کی ہے کیونکہ اسلام کا ہر نظام ایک دوسرے سے مربوط ہے ایک کو نظر انداز کرکے دوسرے کا حل نہیں نکالا جا سکتا۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں