امریکی ریاست لویزیانہ (Louisiana) کی افریقی نژاد خاتون پام ٹالبرٹ (Pam Talbert)نے جو اسکول میں صفائی کا کام کیا کرتی تھیں، اسکول کی اسسٹنٹ پرنسپل بن کر جدوجہد کی ایک نئی مثال قائم کردی… کچھ عرصے قبل وہ گھروں اور اسکول وغیرہ میں صفائی ستھرائی کا کام کیا کرتی تھیں۔ لیکن ان کے دل میں علم حاصل کرنے کا شوق شمع کی طرح روشن تھا۔ اپنی اسی امنگ کو جلا بخشنے کے لیے انھوں نے اپنے ہی بچوں کی کتابوں سے پڑھنا شروع کر دیا… بچوں نے بھی اپنی والدہ کی مدد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اسکول سے واپسی پر باقاعدگی سے انھیں پڑھنے میں مدد دینے لگے اور ان کا علم حاصل کرنے کا شوق دن بہ بدن ترقی پاتا گیا۔ پام ٹالبرٹ دراصل سیکھنے کے عمل میں معذوری کے سبب بچپن میں پڑھائی میں پیچھے رہ گئی تھیں، لیکن بعد میں ان کے دل میں تعلیم کی طرف رغبت ہوئی تو انھوں نے اپنے عزم و حوصلے کے ذریعے اس مشکل کو حل کر دکھایا۔ بنیادی تعلیم کے بعد پام ٹالبرٹ نے بیچلر اور اس کے بعد ماسٹرز کی ڈگریاں بھی حاصل کی ہیں۔ اب وہ اپنے بیٹے کے ساتھ ’پی ایچ ڈی‘ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
پام ٹالبرٹ کہتی ہیں کہ ’’آج کی دنیا میں بھی معجزے رونما ہوتے ہیں اور میرا اپنی اس منزل تک پہنچنا بھی ایک معجزہ ہی ہے۔ کم سنی میں، میں صرف تیسری کلاس تک ہی پڑھ سکی تھی۔‘‘ پام ٹالبرٹ اپنی کام یابی کا سہرا بچوں کے سر باندھتے ہوئے کہتی ہیں کہ بچوں نے حصول تعلیم کے میدان میں ہر قدم پر ان کا حوصلہ بڑھایا اور انھیں ہر قسم کی جھجک اور خوف سے باہر نکالا۔ آخر کار وہ اسکول واپس جانے میں کام یاب ہوگئیں اور پھر آگے بڑھتے بڑھتے گریجویشن اور پھر ماسٹرز کے مرحلے تک پہنچ گئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’یہ بہت مشکل مرحلہ تھا، لیکن میں ثابت قدم رہی۔ میں نے یہ جانا کہ منزل کے لیے ضروری کام اور اس کے لیے عملی جدوجہد کرنا ہوتا ہے اور میں نے اسی راہ کو اپناتے ہوئے کام یابی حاصل کی۔
ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کی والدہ تالبرٹ نے معاشی جدوجہدکے دوران نہ صرف لوگوں کے گھروں میں کام کیے بلکہ اسکول بس بھی چلائی۔ تعلیم حاصل کرنے اور باقاعدہ ضروری ڈگریاں حاصل کرلینے کے بعد ۲۰۰۲ میں بطور استاد اپنے سفر کا باقاعدہ آغاز کر دیا۔
پام ٹالبرٹ کا تعلیمی سفر اپنے اندر انفرادیت رکھتا تھا، اور اب تو وہ ’مدرس‘ ہوگئی تھیں، لیکن اس سے بھی زیادہ دل چسپ اور حیران کن صورت حال اس وقت پیدا ہوئی کہ جب لویزیانہ کے ’آسٹرو مڈل ہائی اسکول‘ میں معاون پرنسپل کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا۔ یہ وہی اسکول تھا، جہاں انھوں نے صفائی ستھرائی کے کارکن کی حیثیت سے کام کیا تھا۔ آج اسی اسکول میں وہ اسسٹنٹ پرنسپل ہیں۔ یہ خبر ان کے ہاں بہت مسرت اور حیرانی سے سنی جا رہی ہے اور سننے والے ان کے بلند عزم کو داد دیے بغیر نہیں رہ رہے۔
اسکول کی اسسٹنٹ پرنسپل ہونے کے باوجود پام ٹالبرٹ اساتذہ کی غیر حاضری کی صورت میں ان کی جگہ کلاس لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں، وہ اپنی کام یابی کی جدوجہد کے ذریعے ناممکنات کی سمت پیش قدمی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کرنا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں آپ یا آپ کا پس منظر، آپ کی تاریخ یا آپ کہاں رہتے ہیں یا آپ کہاں سے آرہے ہیںـ؟ وغیرہ کو قطعی نظر انداز کر کے اپنی درست سمت میں جاری کوششوں پر اعتماد کریں اور صرف اس بات پر صبر کریں کہ جو ہوگا بالکل ٹھیک ہوگا۔ وہ کہتی ہیں کہ کچھ حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھنے کا عزم اور محنت کرنا اولین شرط ہے۔ اسٹروما مڈل اسکول کے بانی ایبونی نواح پام ٹالبرٹ کو غیر معمولی خاتون قرار دیتے ہیں اور ان کی مثالی جدوجہد کو ان لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں جو وقتی مسائل اور حالات سے جنگ میں ہار جاتے ہیں اور پھر معمولی زندگی پر ہی قناعت کرلیتے ہیں۔
پام ٹالبرٹ کا دیرینہ مقصد ہے کہ وہ بچوں اور والدین کے لیے لکھنے پڑھنے اور سیکھنے کا ایک اسکول کھولیں اور انہیں امید ہے کہ وہ جلد ہی اپنے اس مقصد میں بھی کامیاب ہوجائیں گی۔
پام ٹالبرٹ کی زندگی ہندوستانی سماج کی بہت سی خواتین کے لیے عزم و حوصلے کا درس ہے۔ حالاں کہ ہمارے اپنے ملک میں بھی اس طرح کی خواتین کی کمی نہیں ہے تاہم یہ بات ضرور ہے کہ ہمارے یہاں اس طرح کی خواتین کی حوصلہ افزائی کا ماحول ابھی تک پوری طرح تیار نہیں ہو پایا ہے۔ لیکن … یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طرح کی غیر معمولی جدوجہد کے ہتھیار سے لیس افراد کو کسی حوصلہ افزائی کی ضرورت نہیں ہوتی وہ تو اپنے مقصد کے لیے صرف جدوجہد ہی کو واحد راستہ مان کر چلتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ:
اسی کی راہ میں آنکھیں بچھائے گی کی منزل
وہ عزم جو نہیں محتاج ہمت افزائی