[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

خبیث روحیں

نعمان احمد

بھوت پریت پر میں یقین نہیں کرتا، لیکن ایک مرتبہ جب اپنی ننھیال گیا تو ایک شخص کی کرامات کا قائل ہونا پڑا۔ یہ دوسری بات ہے کہ جلدی ہی وہم رفع ہوگیا۔

بات اس طرح تھی کہ ممانی صاحبہ کے یکے بعد دیگرے کئی بچے مرچکے تھے۔ کئی تو پیدائش سے پہلے ہی مرگئے یعنی مردہ پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر اس کا سبب کچھ بھی بتائیں، لیکن نانی اماں کی دانست میں یہ کوئی خبیث روح تھی جو مریضہ پر اپنا منحوس سایہ کیے رہتی تھی۔ ہمارے ماموں صاحب بھی ان باتوں کے قائل نہیں۔ چنانچہ انھوں نے ڈاکٹروں سے رجوع کیا۔ علاج چلتا رہا، لیکن اس مرتبہ بھی باوجود احتیاط و علاج کے بچہ پیدائش سے چند گھنٹے قبل مرگیا تھا۔ بچہ بہت خوبصورت تھا۔ نانی اماں روتے روتے اس کی تعریف بیان کررہی تھیں۔ بچے کو دفنانے کا انتظام تھا۔ نانی اماں کے گھر عورتوں کا جمگھٹ لگا ہوا تھا۔

بے شک جو قدرت کو منظور ہو وہی ہوتا ہے۔ انسان کی ساری تدبیریں دھری رہ جاتی ہیں۔ ایک بوڑھی پڑوسن نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔

’’ہاں وہ تو ٹھیک ہے بوا، لیکن انسان تدبیر تو کرے۔ ہر چند کہتی رہی کہ بہو کا علاج ڈاکٹروں سے نہ ہوسکے گا، کسی عامل کو بھی تو دکھانا چاہیے تھا آخر۔ لیکن میری بات سنتا کون ہے۔‘‘ نانی اماں نے کہا۔

پھر انھوں نے ذرا جھک کر بچے کو غور سے دیکھا اور عقلمندانہ انداز میں سر ہلا کر کہنے لگیں: ’’یہ ضرور کسی خبیث روح کا کام ہے ارے تم لوگ دیکھو تو منحوس نے پیدائش سے پہلے ہی معصوم کی گردن مروڑ ڈالی ہے۔ دیکھتی نہیں ہو گلے پر نشان۔‘‘ اور پھر وہ تو بچے کی طرف دیکھ کر حسرت سے رونے لگیں۔ محلے کی عورتیں جھک جھک کر بچے کی لاش کا معائنہ کرنے لگیں۔ کئی تو واقعی خوفزدہ سی ہوگئیں۔ کبھی بچے کو دیکھتیں، کبھی عقیدت کے ساتھ نانی اماں کو۔ گویا ان کی بات صحیح ثابت ہوگئی ہو۔ چند نئی روشنی کی لڑکیوں نے ناک بھوں چڑھائی۔ دو چار دور اندیش قسم کی عورتیں آسیب کے خوف سے کھسکنے بھی لگیں۔ البتہ آپا محمدی نانی صاحبہ کی رائے سے سو فیصدی متفق تھیں۔ ان کا بہت دنوں سے خود یہی خیال تھا۔ لیکن بے چاری زبان پر نہیں لاتی تھیں۔

کچھ عرصہ بعد نانی صاحبہ کی فرمائش پر آپا محمدی ایک بزرگ صورت عامل کو بلا لائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف چند روز کے لیے ہی عامل صاحب اس شہر میں قیام پذیر ہیں۔ بھیڑ لگی رہتی ہے، بمشکل گھر آنے پر رضا مند ہوئے ہیں۔ یہ بزرگ صورت شکل سے انتہائی شریف آدمی معلوم ہوتے تھے۔ پردے کے اتنے پابند کہ مریضہ کی نبض بھی دیکھنا گوارا نہ کی۔ نانی اماں نے جب نبض دیکھنے کے لیے اصرار کیا تو بولے:

’’غیر عورت کو ہاتھ لگانا حرام ہے، ایسا کیجیے، مریضہ کے پاس میرا عصاء لے جائیے اور اس کو چھوا کر سرسے سات مرتبہ اتار کر لے آئیے۔‘‘ مریضہ نے ٹیڑھا ٹیڑھا عصاء ڈرتے ہوئے چھوا۔ سر سے اتارا اور عامل صاحب کے پاس باہر مردانے میں بھیج دیا۔ بزرگ صاحب نے عصا کو سونگھا، تھوڑی دیر سوچتے رہے پھر متفکرانہ انداز میں گردن ہلاتے ہوئے فرمایا۔ مریضہ پر ایک نہیں بلکہ تین خبیث روحوں کا سایہ ہے۔ اللہ اس کی حفاظت کرے۔ مجھ کو تو پرسوں اس شہر سے چلے جانا ہے، اس لیے مجبوری ہے کام اتنا آسان نہیں کہ ایک دو روز میں ہوسکے۔‘‘

نانی اماں اور آپا محمدی کے منت سماجت پر انھوں نے اپنے قیام میں توسیع کا فیصلہ کیا اور مریضہ کو ان خبیث روحوں سے نجات دلانے کی حامی بھرلی۔ انھوں نے چند چیزیں مثلاً دال ماش، کچا گوشت اور آٹا ایک سفید کورے کپڑے میں بندھوایا اور حکم دیا کہ اس گٹھڑی کو اندھیری رات میں ٹھیک بارہ بجے کسی پرانی قبر کے اندر دفن کردیا جائے۔ ساتھ میں چند تعویذ بھی دیے، وہ بھی قبرستان میں دفن ہونا تھے۔ ظاہر ہے اتنی خوفناک مہم پر تو نانی اماں نہیں جاسکتی تھیں، چنانچہ بعد منت سماجت یہ سامان بھی انھی کے حوالے کردیا گیا کہ وہ خود ہی اس کام کو انجام دیں۔ ساتھ ہی قبرستان جانے کے لیے کرایے کی رقم بھی ان کو دے دی گئی، ان کو جو کچھ فیس یہاں آنے کی دی گئی تھی وہ الگ تھی۔ یہ سب کچھ وہ لے کر چلے گئے۔

ایک ہفتہ بعد شاہ صاحب پھر تشریف لائے کہنے لگے۔ وہ سامان نذر کردیا گیا ہے۔ اب مریضہ اپنا حال بیان کرے۔

ممانی صاحبہ نے بادلِ ناخواستہ اپنا حال بیان کیا۔ ’’کاندھوں اور سر پر بوجھ رہتا ہے۔ سر چکراتا ہے۔‘‘ڈراؤنے خواب بھی نظر آتے ہوں گے۔ شاہ صاحب نے لقمہ دیا۔ ’’جی نہیں تو۔‘‘ مریضہ نے رک رک کر کہا۔

’’تب تو پھر یہ نہایت ہی پلید و خبیث روحیں ہیں جو خواب میں بھی اپنے وجود سے انکا رکرتی ہیں۔ نذرانہ سے بھی راضی نہیں ہوتیں۔ اب آخری علاج یہی رہ جاتا ہے کہ ان کو بھسم کردیا جائے اور کوئی صورت نہیں۔‘‘

شاہ صاحب نے عالمانہ انداز میں کہا۔ نانی اماں نے اس بات پر زور دیا کہ اسی وقت کیوں نہ ان کو بھسم کردیا جائے۔ تو شاہ صاحب گرج کر بولے۔ آپ کیا جانیں یہ کوئی بچوں کا کھیل تو نہیں۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر یہ کام کرنا پڑتا ہے۔ اماں جی! اگر ذرا غفلت ہوجائے تو الٹا مجھ کو ہی وہ بھسم کرڈالیں گی۔

’’اے ہے اللہ امان میں رکھے۔ اللہ میری بچی کو نجات دیجیو۔‘‘ نانی اماں گھگھیائیں۔ چنانچہ آئندہ کسی تاریخ کا تعین کرکے اور اتنے دنوں کی ریاضت کا معاوضہ لے کر شاہ صاحب چلے گئے۔

مقررہ دن شاہ صاحب تشریف لے آئے۔ پڑوس کی عورتیں اس کرتب کو دیکھنے کے لیے جمع ہوگئیں۔ مریضہ کی طبیعت کئی روز سے پریشان تھی وہ اکثر خاموش رہتیں۔ ان پر اَن دیکھی خبیث روحوں کا خوف غالب جو تھا۔ پرویز میاں نے بھی اسکول سے چھٹی لے لی تھی۔ شاہ صاحب کے لیے کافی اہتمام کیا گیا تھا وہ با ربار دعا کرتی تھیں کہ بخیریت یہ کام انجام پاجائے۔

تخت پر شاہ صاحب رونق افروز تھے۔ سامنے چارپائی پر مریضہ چادر اوڑھے جھکی ہوئی مضمحل سی بیٹھی تھی اور پیچھے پردے میں بہت سی خواتین بیٹھی تھیں۔ پرویز میاں انگریزی اسکول میں پڑھتے تھے۔ ان کو یقین نہ آتا تھا ان باتوں پر۔ لیکن نانی اماں نے سخت تاکید کردی تھی کہ خبردار شاہ صاحب کے سامنے زبان بھی نہ کھولنا۔ چنانچہ زبان تو ان کی بند تھی لیکن قریب میں کرسی ڈالے بڑے غور سے شاہ صاحب کو دیکھ رہے تھے۔

کمرے کا ماحول پراسرار تھا۔ درمیان میں ایک کوری ہانڈی میں آگ سلگ رہی تھی۔ چٹکی بھر بھر شاہ صاحب کوئی سفوف بار بار ہانڈی میں ڈالتے اور عجیب خوشبوئیں پھیل جاتیں۔ دھیرے دھیرے کچھ دعائیں یا منتر پڑھتے جارہے تھے۔ یہ خوشبو اور گنگناہٹ کی آواز ایک عجیب تاثر پیدا کررہی تھی۔ نانی اماں بار بار اٹھ کر جاتیں اور پردے کے پیچھے بیٹھی خواتین کو چپکے چپکے خاموش رہنے کی ہدایت کرآتیں۔ عورتوں کا تجسس بڑھتا جارہا تھا ان میں سے چند ایک تو بار بار پردے سے گردن نکال کر دیکھ لیتیں۔ اچانک شاہ صاحب کی آواز گونجی

’’بہنو! پریشان نہ ہو ان پلید روحوں کو ابھی کھینچ کر آپ کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔‘‘

واقعی عورتوں کو سانپ سونگھ گیا۔ چند تو ان میں سے ضرور ڈرگئی ہوں گی۔

ایک چٹکی بھر سفوف اپنی ڈبیا سے نکال کر انھوں نے ہانڈی میں جھونک دیا۔ عجیب سی بو پیدا ہوئی۔ پھر انھوں نے ایک سفید کاغذ نکال کر سب کو دکھایا۔ جیسے مداری کرتب دکھانے سے پہلے خالی ہاتھ سب کو دکھا دیتا ہے۔ کاغذ مریضہ کے سر پر سات بار اتارا۔ تھوڑا سفوف پھر ہانڈی میں جھونک دیا گیا۔ آگ کے نیلے نیلے شعلے بلند ہونے لگے۔ مریضہ کو شعلوں کی طرف دیکھتے رہنے کی ہدایت کی گئی۔ سب لوگ کمالِ اشتیاق سے شعلوں کو دیکھ رہے تھے۔ وہ تھوڑی دیر اس سفید کاغذ کو ہانڈی کی آنچ پر سینکتے رہے اور سب لوگ منتظر رہے کہ اب ہانڈی سے کوئی چیز برآمد ہوتی ہے۔ ہانڈی سے نیلے نیلے شعلے بلند ہورہے تھے سب لوگ بڑے اشتیاق سے ان شعلوں کو دیکھ رہے تھے۔ مریضہ کو تو سخت تاکید کی گئی تھی کہ وہ مسلسل شعلوں کی جانب دیکھتی رہے۔ اچانک مریضہ یعنی ممانی جان نے ایک بار جھر جھری لی۔ ہم نے آگے جھک کر دیکھا۔ کاغذ پر چند کالی کالی مکروہ شکلیں نمودار ہوئی تھیں۔ تھوڑی دیر تک وہ کاغذ کو آگ پر سینکتے رہے۔ پھر انھوں نے کاغذ سب کو دکھایا۔ درمیان میں عورت کی عجیب ٹیڑھی میڑھی شکل تھی، جس کے دونوں کاندھوں پر دو جن سوار تھے، جن کے منھ گھوڑے جیسے تھے۔ سر پر ایک سانپ بل کھا رہا تھا۔ شکلیں سفید کاغذ پر ایسی معلوم ہورہی تھیں گویا کسی بچے نے روشنائی میں انگلی ڈبو کر جلدی سے یہ تصویریں بنادیں ہوں۔ لیکن شبہ کی تو گنجائش نہ تھی کیونکہ سب کے سامنے ہی بالکل سفید کاغذ پر دیکھتے ہی دیکھتے یہ شکلیں نمودار ہوئی تھیں۔ جس جس جگہ یہ تصویریں تھیں کاغذ جھلس گیا تھا۔ شاہ صاحب نے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ مجھ پر نگاہ ڈالی اور اس کو آگ میں جھونک دیا اور اس کے ساتھ ہی ایک چٹکی بھر سفوف پھر آگ میں ڈالا۔ ہانڈی سے ایسی بدبو نکلی جیسے زندہ گوشت جل رہا ہو۔ وہ زیرِ لب کچھ پڑھتے رہے۔شاہ صاحب کے یقین دلانے پر سب مطمئن ہوگئے کہ واقعی خبیث روحیں اب بھسم ہوچکی ہیں۔ شاہ صاحب اپنا معاوضہ لے کر چلے گئے۔ نانی اماں شاہ صاحب کے کرتبوں سے بڑی متاثر تھیں۔ وہ اکثر ان کا چرچا کرتی رہتی تھیں۔ لیکن دوسروں کو ہدایت تھی کہ خبردار یہ سب کچھ ماموں صاحب کو نہ بتایا جائے کیونکہ وہ ان کی دانست میں بداعتقاد آدمی تھے اور ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

سب لوگ اس واقعہ کو تقریباً بھول گئے ایک روز اچانک یہ خبیث روحیں پھر نمودار ہوگئیں۔ بات یہ تھی کہ پرویز میاں کی ڈرائنگ کی کاپی بھیگ گئی تھی۔ بھیگے ہوئے ورق کو خشک کرنے کے لیے وہ چولہے کے پاس پہنچے۔ ممانی صاحبہ یعنی ان کی والدہ کھانا بنارہی تھیں۔ پرویز میاں نے کاغذ خشک کرنے کے لیے ان کو دیا۔

ممانی جان نے چیخ ماری۔ کیونکہ اس کاغذ پر ٹھیک وہی شکلیں ابھر آئی تھیں۔ پرویز میاں سہم کر وہاں سے بھاگے۔ ہوش آنے پر ممانی صاحبہ نے یہ بات نانی اماں کو بتائی۔ پرویز میاں سے حقیقت معلوم کی گئی تو انھوں نے انکار کردیا۔ کاپی دیکھی گئی تو واقعی کوئی ایسی تصویر نہ تھی البتہ ایک کنارے سے ورق پھٹا ہوا تھا، چنانچہ اس واقعہ کو ممانی صاحبہ کے واہمہ پر محمول کیا تھا، لیکن نانی اماں کا اصرار تھا کہ خبیث روحوں سے ابھی پیچھا نہیں چھوٹا ہے۔ وہ پورے طور پر بھسم نہیں ہوپائی ہیں چنانچہ انھوں نے شاہ صاحب کو تلاش کرایا لیکن وہ نہ ملنا تھے نہ ملے۔

ایک روز اس سے بھی زیادہ سنسنی خیز واقعہ ہوا۔ سردی کافی تھی، کمرے میں نانی اماں اکیلی بیٹھی آگ تاپ رہی تھیں، انگیٹھی سلگ رہی تھی۔ پرویز میاں دادی کے پاس جا بیٹھے۔ باتیں ہورہی تھیں کہ اچانک نانی اماں پچھاڑ کھاکر پیچھے کی طرف گر پڑیں۔ وہ بری طرح چیخ رہی تھیں۔ ’’ہائے اللہ میری حفاظت کیجیو۔ کیا کروں ارے بچاؤ۔‘‘ ارے بچاؤ کی آواز سن کر سب دوڑ پڑے اور سب لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔ نانی اماں کے نزدیک ایک کاغذ پڑا تھا جس پر وہی منحوس شکلیں ابھری ہوئی تھیں، کسی کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ اس کاغذ کو ہاتھ لگائے۔ معلوم کرنے پر نانی اماں نے بتایا۔ ارے پرویز میاں یہاں بیٹھے تھے۔ انھوں نے یہ کاغذ نکالا، آنچ دکھائی اور یہ منحوس آدھمکے۔ ارے اللہ کے واسطے کسی عامل کو بلاؤ۔ میں تو پانچوں وقت نماز پڑھتی ہوں۔ لیکن اتنے میں ماموں صاحب تشریف لے آئے۔ پرویز میاں طلب کیے گئے۔ انھوں نے سب کے سامنے پھٹکری گھول کر اس کے پانی سے سفید کاغذ پر نقش بنائے اور آنچ دکھانے پر وہ ظاہر ہوگئے۔

انھوں نے ایک کتاب سب کو دکھائی جس میں لکھا تھا، پھٹکری کے پانی یا پیاز کے عرق سے جو کچھ لکھا جائے گا۔ نظر نہ آئے گا، لیکن آنچ دکھانے پر ظاہر ہوجائے گا۔

(حجاب ستمبر ۱۹۸۱ سے ماخوذ

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں