خدا کا وجود جدید سائنس کی تحقیقات اب اس کو ثابت کررہی ہیں (۱)

اے کریزی ماریسن/ ریاض الدین احمد

ہم لوگ آج ایسے سائنسی دور سے گزر رہے ہیں جس کی صبح ہنوز ختم نہیں ہوئی مگر جوں جوں روشنی کی شعائیں تیز ہوتی جاتی ہیں، یہ حقیقت واضح تر ہوتی جاتی ہے کہ دنیا کی تخلیق میں کسی خالق کا ہاتھ ہے۔ اگرچہ ڈارون کے بعد نوے برس میں نئی معلومات کا کثیر ذخیرہ ہمارے قبضے میں آچکا ہے مگر آج بھی سائنس کی بے چارگی ہمیں خدا شناسی کے قریب کر رہی ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، سات ایسے اسباب ہیں جن کے پیش نظر میں اللہ تعالیٰ کے وجود پر ایمان لانے کے لیے مجبور ہوں:
پہلا سبب
فرض کریں کہ ہم دس سکے نمبر لگا کر بالترتیب اپنی جیب میں رکھیں ، پھر ان سب کو خوب ہلا دیں۔ اس کے بعد ان کو اس ترتیب سے نکالنے کی کوشش کریںکہ پہلے نمبرا اور آخر میں دس نمبر والا سکہ بر آمد ہو اوراس عمل کو مسلسل جاری رکھیں تو علم الحساب کی روسے ہم جان سکتے ہیں کہ دس بار کے بعد ایک مرتبہ امید کی جاسکتی ہے کہ پہلے نمبر والا سکہ بر آمد ہو۔ لیکن اگر ہم چاہیں کہ نمبرا اور نمبر ۲ یکے بعد دیگرے نکل آئیں تو اس عمل کا سوبار اعادہ کرنا پڑے گا۔ اسی طرح نمبرا، نمبر ۲ اور نمبر۳ کو بالترتیب نکالنے کے لیے ایک ہزار مرتبہ اور دسوں کو بالترتیب نکالنے کے لیے دس ارب بار اس عمل کی ضرورت پڑے گی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کا ایک حقیر ترین حادثہ بھی اتفاق پر مبنی نہیں بلکہ کسی مکمل نظام یا اعلیٰ اصول کے تابع ہے۔ اسی استدلال کی روشنی میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ نظام حیات ایسے محکم قوانین سے جکڑا ہوا ہے کہ جن کو صحیح توازن کے ساتھ قائم رکھنا کسی اتفاق یا حادثے کا فعل نہیں ہو سکتا۔
دنیا اپنے محور پر ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے۔ اگر اس کے بجائے یہ 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھومنے لگے تو اس نظام زندگی کا درہم برہم ہونا یقینی ہے کیونکہ ایسی صورت میں ہمارے دن اور رات دس گنا بڑھ جائیں گے اور نتیجہ یہ ہو گا کہ طویل دنوں میں سورج کی شعاعیں ہمارے کھیتوں کو جھلس ڈالیں گی اور طویل راتوں میں زمین میں اگنے والی ہر شے ٹھٹھر کر رہ جائے گی۔ ہمارا سورج جس کا سطحی درجہ حرارت ۱۲ ہزار ڈگری فارن ہائیٹ ہے، زمین سے ٹھیک اسی قدر فاصلے پر رکھا گیا کہ اس کی طاقتور شعائیں ہمیں اتنی ہی روشنی پہنچا سکیں جو ہمارے لیے از بس ضروری ہیں نہ کم نہ زیادہ۔ اگر اپنی اس گرمی کو جو اس وقت ہمیں عطا کر رہا ہے پچاس فیصد گھٹا دے تو ہم منجمد ہو کر رہ جائیں گے اور اگر پچاس فیصد بڑھا دے تو جل کر بھسم ہو جائیں گے۔ زمین کے گولے کا ساڑھے ۲۳ ڈگری پر جھکاؤ موسموں کی رنگار نگی کا ذمہ دار ہے۔ اگر اس جھکاؤ کا وجود نہ ہوتاتو سمندروں کے پانی کا جھاگ شمال اور جنوب کیطرف اٹھتا اور برف کا لامتناہی سلسلہ ہمارے اوپرمسلط ہو جاتا۔ اگر ہمارا چاند اپنے موجودہ فاصلے کے مقابلے میں زمین سے صرف پچاس ہزار میل پر ہوتا تو جوار بھاٹا کی شدت سے دن میں دو مرتبہ زمین کو پانی میں غرقاب ہونا پڑتا اور اس کے تھپیڑے ایسے زبر دست ہوتے کہ ہمارے دیو پیکر پہاڑ فاصلے پر بھی ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتے۔
اگر سمندر کی سطح اپنی موجودہ گہرائی کے مقابلے میں چند فٹ اور زیادہ ہوتی تو کاربن ڈائی آکسائڈ اور آکسیجن محلول ہو جاتیں، اس طرح پودوں میں نمو کی طاقت بالکل ختم ہو جاتی۔ اگر زمین کی پرت جتنی موٹی اس وقت ہے اس سے دس فٹ موٹی ہو جاتی تو دنیا سے آکسیجن کا خاتمہ ہو جانا لازمی ٹھہرتا اور ظاہر ہے بغیر آکسیجن کے زندگی کا وجود ممکن ہی نہیں۔ اسی طرح اگر فضا کی سطح اپنی موجودہ حالت کے مقابلے میں اور پکی ہو جائے تو شہاب ثاقب جو لاکھوں کی تعداد میں ہر وقت خلا کے اندر جلتے رہتے ہیں، زمین کے ہر حصے میں گر کر آگ کے شعلے بلند کردیں گے۔ اس قسم کے کتنے ہی حقائق جو آج ہمارے علم میں آچکے ہیں، شاہد ہیں کہ دس لاکھ میں ایک حصہ بھی اس شبہ کو تقویت نہیں پہنچا تا کہ زمین اور اس میں زندگی کی تخلیق کسی اتفاقی حادثے پر مبنی ہے۔
دوسرا سبب
ہر جاندار اپنی احتیاج کے لیے ذرائع تلاش کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس قدرت کا وجود اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ زندگی کے پیچھے کوئی زبر دست طاقت اور اعلیٰ دماغ کار فرما ہے۔ مگر زندگی کیا ہے؟ ابھی تک کوئی انسان اس کی گہرائیوں کی تہہ نہیں پاسکا ہے۔ یہ ایک عجیب چیز ہے جس میں وزن ہے نہ حدود اربعہ، پھر اس میں نمو کی حیرت انگیز طاقت موجود ہے۔ کیا عجیب بات نہیں کہ ایک نشو نما پانے والی جڑ میں اتنی طاقت ہے کہ وہ چٹان میں شگاف پیدا کر سکتی ہے۔ یہ زندگی ہے جس نے پانی زمین اور ہوا پر اپنا تسلط جما رکھا ہے۔
اس کی مثال ایک سنگتراش کی ہے جو ہر ذی روح میں مورت تراشی کے فرائض انجام دیتا ہے، ایک صناع کی ہے جو درخت کی ایک پتی کا ڈیزائن اعلیٰ کاریگری کے معیار پر مرتب کرتا ہے، یا ایک رنگ ساز کی ہے جو کمال قدرت و ندرت کے ساتھ ایک ایک پھول میں رنگ بھرتا ہے، ایک ماہر مغنیات کی ہے جو چڑیوں کو چہچہانا اور کیڑوں کو گنگنانا سکھاتا ہے، ایک ماہر کیمیا ہے جو پھلوں کی لذات اور چاشنی کا پتہ چلاتا ہے، پھولوں کو خوشبو اور شکر کو مٹھاس عطا کرتا ہے اور اس کی بدولت آکسیجن ہر ذی روح کے لیے سانس کا ذریعہ بن سکی ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے که ماده حیات یعنی پروٹو پلازم کا ایک باریک ترین قطرہ ، جسے بغیر آلات کے دیکھا نہیں جاسکتا، حرکت پر قادر ہے اور سورج سے روشنی اخذ کرتا ہے۔ اس اکیلے خلیہ کے اندر زندگی کا جرثومہ موجود ہے اور اس زندگی کو ہر ذی روح میں تقسیم کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت پائی جاتی ہے۔ اس چھوٹے سے قطرے کی طاقتیں درختوں، جانوروں اور انسانوں سے عظیم تر ہیں کیونکہ ان سب کا وجود اسی سے ہے۔ سوال یہ ہے کہ زندگی کا یہ کرشمہ کس کی تخلیق ہے؟
تیسرا سبب
جانوروں میں عقل حیوانی (Instinct) کا وجود ایک لاجواب خالق کا خود بخود اعلان کر رہا ہے، کیونکہ اگر ان میں یہ تحریک طبعی عطا نہ کی گئی ہوتی تو ان کی بے چارگی اور بے بسی کا ٹھکانہ نہ رہتا۔’’سالمن‘‘ مچھلی عین نو عمری میں ترک وطن کرتی ہے۔ سالہا سال سمندر میں زندگی گزارنے کے بعد بلا کسی ظاہری راہنمائی کے اس کا پھر مادر وطن کی طرف رجوع کرنا ایک حیرت انگیز واقعہ ہے۔ کس عزم کے ساتھ یہ بہاؤ پر تیرتی ہوئی سمندر کی ٹھیک اسی شاخ کے ساتھ مڑ جاتی ہے جو اس کی جائے پیدائش کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ اگر آپ اس کو پکڑ کر کسی غلط شاخ میں ڈال دیں تو آپ دیکھیں گے کہ واپسی کی زبردست جنگ میں مبتلا ہو جائے گی اور اس وقت تک مبتلا رہے گی جب تک وہ منزل مقصود حاصل نہ کرلے۔ اس سے بھی زیادہ محیر العقول’’عیل‘‘ (eel) مچھلی کے حالات ہیں جو سن بلوغ کو پہنچنے کے بعد فوراً تالابوں اور دریاؤں سے نکل کر ہزاروں میل دور بر موڈا کے قریب گہری اور تاریک سمندری سطح پر قیام کرتی ہے۔ وہیں انڈے دے کر بچے نکالتی ہے اور وہیں اسے موت آتی ہے۔ مگر اس کے بچے جن کے پاس ظاہراً کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے وہ اپنے والدین کے متروکہ وطن کا پتہ چلا سکیں، وسیع سمندروں سے گزر کر ٹھیک انہی دریاؤں، جھیلوں اور تالابوں میں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے ان کے والدین نے ہجرت کی تھی۔ اور یہ سفر اس صحت سے عمل میں آتا ہے کہ آج کسی نے امریکہ کی عیل مچھلی کو یورپ میں نہیں دیکھا اور یورپ کی عمیل کو امریکہ میں نہیں دیکھا۔ اس معاملے میں قدرت نے یہاں تک احتیاط سے کام لیا ہے کہ یورپ کی عیل میں بلوغ ایک سال کے بعد نمایاں ہوتا ہے تاکہ امریکہ کے مقابلے میں یورپ کے سفر کی لمبائی کا تدارک ہو سکے اور یورپ و امریکہ دونوں مقاموں کی عیل مچھلیاں ٹھیک بلوغ کے وقت اپنے اپنے وطن میں داخل ہو سکیں۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اس حیرت انگیز رہبری اور راہنمائی کا سامان کس نے فراہم کیا؟
و اسب (Wasib) جو ایک ڈنک مارنے والا کیڑا ہے، ٹڈی کو پکڑ کر کمال مہارت سے جراحی کے ساتھ اس میں اپنے ڈنک سے اسی قدر زہر پیوست کرتا ہے کہ ٹڈی بے ہوش ہو جائے مگر مرنے نہ پائے۔ پھر زمین کھود کر اسے اس طرح محفوظ کر دیتا ہے کہ اس کو زندہ گوشت کی غذا میسر آسکے کیونکہ مردہ گوشت ان کے لئے مہلک ثابت ہوتا ہے۔ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ بچوں کے جنم لینے سے ان کی ماں اڑ جاتی ہے اور اس کو یہ موقع نصیب نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی تربیت کر سکے۔ مگر یہ بچے جملہ و ظائف زندگی بلا کسی تربیت کے خود ہی انجام دیتے ہیں ۔ ہم پوچھ سکتے ہیں کہ وہ کون سا تکنیکی ماحول ہے جس نے یہ علم ان کو سکھایا اور ان کو تربیت دی۔ جواب سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ یہ عادات حاصل کردہ نہیں بلکہ ذات باری تعالیٰ کا عطیہ ہیں۔ (بقیہ آئندہ)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں