خربوزہ

محمد خلیل چودھری

خربوزہ جسم کی پرورش کرنے والا گرم تر اور فرحت بخش پھل ہے۔ دل و دماغ کو اس سے تراوٹ اور تازگی ملتی ہے۔ خربوزہ درحقیقت فارسی زبان کا لفظ ہے۔ انگلش میں میلن (Melon)، گجراتی میں تلیا اور سندھی میں گد رو کہلاتا ہے۔ اردو میں ’’خربوزہ‘‘ ہی مستعمل ہے۔ یہ ایک مشہور عام اور سستا پھل ہے۔ اس کی کاشت بالعموم ریتیلے علاقوں بالخصوص ندیوں اور دریاؤں کے کنارے ہوتی ہے۔

اس میں لحمیات، کاربوہائیڈریٹس، فولاد، تانبا، وٹامن اے، وٹامن بی اور وٹامن ڈی پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ خربوزے میں فاسفورس، پوٹاشیم، کیلشیم، کیرے ٹین، گلوکوز، روغن اور نشاستہ دار اجزا بھی پائے جاتے ہیں۔

یہ بالعموم برصغیر پاک و ہند کے ریتیلے علاقوں میں پیدا ہونے والا پھل ہے۔ اس کی بیل زمین پر پھیل جاتی ہے اور کاشت کرنے کے تین چار ماہ کے اندر خربوزے کی پیداوار شروع ہو جاتی ہے۔

عمدہ ترین غذائی استعمال

سستا پھل ہونے کے باوجود خربوزے میں بے پناہ غذائیت ہوتی ہے اور یہ بہت جلد ہضم ہو جاتا ہے۔اگر مزہ لیتے لیتے انسان ضرورت سے زیادہ بھی خربوزے کھالے تو یہ آپ کی صحت کو کوئی ضرر نہیں پہنچاتا۔ اس پھل کی خوبی یہ ہے کہ اس کا مغز اور گودے کے علاوہ چھلکا بھی غذائی اور دوائی ضروریات میں استعمال ہوتا ہے۔ گرمیوں کی چلچلاتی دوپہر اور جھلسا دینے والی دھوپ میں کام کاج کی محنت و مشقت کے بعد جب آپ خربوزہ کھاتے ہیں تو سکون میسر آتا ہے۔ خربوزے کا گودا انسانی جسم کو غذائیت اور تراوٹ دیتا ہے۔ اس کی مہک دل اور دماغ کو تقویت دیتی ہے۔ آنتوں پر مثبت اثرات ڈالتا ہے۔ دائمی قبض کے مریضوں کے لیے قبض کشا معجون کا کام دیتا ہے اور پیشاب آور ہے۔ جلدکی رنگت نکھارتا ہے۔ خربوزہ ایسی دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے بہترین ٹانک ہے، جن کا دودھ کم اترتا ہے۔ یہ دودھ کی مقدار بڑھاتا اور اسے صاف کرنے میں معاون ہے۔ خربوزے کے فوائد و تاثیر کے بارے میں ایک صاحب علم و دانش طبیب رقم طراز ہیں:

’’خربوزہ جسم کو مضبوط بنانے اور فرحت سے ہم کنار کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ یہ یرقان، پتھری اور قبض کے امراض کو بھگاتا ہے، مسام کھولتا ہے اورپیشاب آور ہے۔ اس کا زیادہ استعمال جسم میں حدت پیدا کرتا ہے۔ اس کے بیج اپنی تاثیر کے اعتبار سے ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ ان سے تیل بھی نکالا جاتا ہے جسے دودھ میں حل کرکے نوش کیا جاتا ہے۔‘‘

خربوزہ کھانے کا بہترین وقت

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پھل عموماً کھانا کھانے کے بعد استعمال کرنا چاہیے۔ خربوزہ خوش ذائقہ ہونے کے ساتھ ساتھ چوں کہ نہایت فرحت بخش اور موجب تسکین ہے اور انسانی جسم کی بڑھوتری اور نشو ونما میں خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خربوزہ دیگر پھلوں کی طرح ہمیشہ کھانے کے بعد استعمال کریں۔ یہ میٹھا ہو یا پھیکا اس کی غذائیت برقرار رہتی ہے۔ اس لیے پھیکا خربوزہ ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ گرمیوں کی شدید دھوپ اور تمازت میں جب جسم جھلس جاتے ہیں، ایسے موسم میں خربوزے کا استعمال شام کے وقت زیادہ مناسب ہے۔

ایک اہم نکتہ

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ پھل اپنے مزاج کے اعتبار سے گرم تر ہے اور غذائی خصوصیات کے ساتھ ساتھ اسے کئی ادویاتی امتیازات بھی حاصل ہیں۔ شدید گرمی سے انسان کے جسم میں تیزابیت کا زور ہو جاتا ہے اور پیشاب جل کر آنے لگتا ہے۔ اس دوران اگر ذرا سی بھی مرغن چیز کھالی جائے تو پیشاب کی سوزش اور جلن آگ کی طرح انسان کے متعلقہ اعضا کو جھلسانے لگتی ہے۔ چناں چہ اللہ کی قدرت کاملہ نے خربوزے میں دیگر ثمرات کی طرح موسمی تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ایسے کیمیائی نمکیات رکھے ہیں، جن سے گردے، مثانے اور آنتوں کے فاسدمادے پیشاب اور پاخانے کے ذریعے خارج ہوجاتے ہیں۔ قدرت نے یہ پھل انسانی جسم کو مضبوط اور موسمی تپش برداشت کرنے کے لیے بنایا ہے۔ علاوہ ازیں اس پھل میں گوشت پیدا کرنے والے روغنی اجزا بھی پائے جاتے ہیں۔

اطبائے یونان کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ خربوزہ ایک ایسا مفید پھل ہے کہ جو انسانی جسم اور اس کے اعضا کی اہم غذائی ضروریات پوری کرتا ہے۔ اس کے چند روزہ باقاعدہ استعمال سے انسانی جسم فرحت و انبساط سے شادکام ہو جاتا ہے۔ بدن میں پھرتی اور چستی پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر کسی وجہ سے معدے میں ورم ہوجائے جو انسان کے مزاج کو چڑچڑا بنا دیتا ہے تو بھی خربوزے کے استعمال سے معدے کے اورام اور زخم مندمل ہوجاتے ہیں۔

خربوزہ اور کھجور

خربوزہ اور کھجور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ غذاؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ کھجور تو ملک عرب کا خاص پھل ہے اور وہاں کے باشندے اسے بڑے شوق اور رغبت سے کھاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خربوزے کو نوش فرما کر اس پھل کو بھی عزت اور سرفرازی سے نوازا ہے۔ چناں چہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو کھجور اور خربوزہ اکٹھے تناول فرماتے دیکھا۔ خربوزہ کو کھجور کے ساتھ کھانے کی بظاہر وجہ اس کا پھیکا ہونا ہے۔ گویا اس کے پھیکے پن کی تلافی کھجوروں کی شیرینی سے ہوجائے گی۔ نیز دونوں کو ملا کر کھانے سے معتدل صورت پیدا ہوگی اور اعتدال دنیاوی اور دنیوی امور میں شریعت اسلامیہ کا سنہرا اصول ہے۔

دوائی اثرات

اطبائے قدیم و جدید کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ خربوزہ انسانی بدن کی خشکی کا دشمن ہے۔ بھوک لگانے میں اس پھل کا کوئی ثانی نہیںـ۔ یہ چہرے کی رنگت نکھارتا اور ریشوں اور پٹھوں کی فطری لچک قائم و دائم رکھتا ہے۔ شدید بھوک کے عالم میں اگر آپ کو صرف ایک خربوزہ ہی دستیاب ہوجائے تو یہ جملہ غذائی ضروریات کا سامان بہم پہنچاتا ہے۔ خربوزے کا اہم ترین کام معدے، آنتوں اور غذا کی نالی کی خشکی دور کرنا ہے۔ آنتوں میں جمے ہوئے زہریلے مادوں کو خارج کرنا، قبض کشائی اور بدن کی رنگت شاداب بنانا ہے۔ خربوزہ کھانے والے افراد بالعموم ہشاش بشاش اور چاق چوبند رہتے ہیں اور پوری دلجمعی سے کار زارِ حیات میں حصہ لیتے ہیں۔

٭ پتھری کا علاج

طبی نقطہ نظر سے خربوزہ ایک پیشاب آور پھل ہے، جس سے خون کے کئی زہریلے مادے خارج ہوجاتے ہیں۔ خربوزہ کھانے سے گردے صاف ستھرے اور صحت مند رہتے ہیں۔ اگر مثانے یا گردے میں پتھری پیدا ہوجائے تو وہ خربوزے کے متواتر استعمال سے خارج ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی شخص دردِ گردہ کی وجہ سے تڑپ رہا ہو تو خربوزے کے ایک تولہ خشک چھلکے ایک پاؤ عرق گلاب میں جوش دے کر اسے چھان لیجیے پھر اس میں تین ماشے نمک سیاہ ملا کر مریض کو پلایا جائے تو ان شاء اللہ فوری افاقہ ہوگا۔

٭ گوشت گلانے میں کردار

بعض اوقات گائے یا بکری کا گوشت کئی گھنٹوں تک متواتر ہانڈی آگ پر رکھنے کے باوجود گلنے میں نہیں آتا۔ ایسی صورت میں ایک کلو گوشت میں دو تولے خربوزے کے چھلکے ملا کر پکائیں۔ گوشت جلد گل جائے گا اور ہانڈی تیار ہونے میں زیادہ وقت صرف نہیں ہوگا۔

٭ بدن کو فربہ کرتا ہے

انسان کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر طرح کی نعمتیں پیدا فرمائی ہیں۔ اس کی غذا کے لیے مختلف طرح کی سبزیاں اور پھل پیدا کیے ہیں۔ گرمیوں کے موسم میں خربوزے اور تربوز اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ ان دونوں پھلوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس کے کھانے سے وزن میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ نحیف و کمزور اور لاغر اندام لوگوں کے لیے بہت زیادہ فائدہ مند ہے۔

٭ بیجوں کے فوائد

خربوزے کا ایک خاص موسم ہے۔ اپنے موسم کے علاوہ اس کی دستیابی مشکل ہے۔ جن دنوں خربوزے نہ ملیں تو اس کے بیجوں کو کام میں لانے سے اتنا ہی فائدہ ہوتا ہے جتنا خربوزے سے۔ اس لیے ان کے بیجوں کو خشک کرکے بوتل میں بھر کر مضبوط کارک لگا دیں کہ اس میں ہوا نہ پہنچ سکے۔ اس طرح بیج کافی عرصے تک خراب ہونے سے محفوظ رہتے ہیں۔ خربوزے کے بیجوں کی تاثیر سرد ہے۔ اس کا روغن بھی نکالا جاتا ہے جو دودھ میں ملا کر پینے سے پیشاب کی جلن ختم ہوتی ہے۔ دماغی تقویت کے لیے تیار کیے جانے والے گھریلو نسخوں میں چاروں مغز استعمال ہوتے ہیں۔ ان مغزوں میں ایک جزو خربوزہ کے بیج ہوتے ہیں۔ غیر مقشر (اَن چھلے) بیجوں کا چہرے پر لیپ رنگت صاف اور چھائیاں دور کرتا ہے۔ پھیکے خربوزے کے بیج گرم اور مرکب بخاروں میں مفید ہیں۔ ان کے بیجوں کو مرچ سیاہ اور مصری کے ساتھ پینے سے پیشاب زیادہ آتا ہے۔ خربوزے کے بیج مقوی باہ ہوتے ہیں اور تولیدی مادہ پیدا کرتے ہیں۔ جگر کے سدے کھولتے ہیں۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں