خالق کائنات نے اپنی حسین تخلیق ’’انسان‘‘ کی فطری ضروریات پوری کرنے کاجو انتظام فرما دیا ہے اس میںہمیں غذائی اجناس ہی نہیںپھل اور سبزیاں بھی عطا کی گئی ہیں۔ اورہر سبزی پھل اس وقت ہمیں کھانے کوملتاہے جب اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ گرمی کی شدت جب بڑھتی ہے تو ہمیں پیاس بڑھنے اور بدن میںپانی کی کمی کاسامنا کرناپڑتاہے۔ اس ضرورت کوپورا کرنے کے لیے عین موزوں وقت پر پھلوں میں ہمیں خربوزہ ملاہے جو ایک غذائی پھل ہی نہیں بلکہ دوا بھی ہے۔ اس کی غذائی اہمیت یہ ہے کہ اس کے کھانے سے پیٹ بھرتا ہے اور ایک وقت اناج کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔ پھل کی حیثیت سے خربوزے کی اہمیت یہ ہے کہ اسکی مٹھاس، ذائقے اور خوشبو سے ہمیں راحت عطاہوتی ہے۔ اور دوا کی حیثیت سے اس کی اہمیت کو شیخ الرئیس بو علی سینا سمیت قدیم اورجدید دورکے حکماء نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔
خربوزہ یاخرپزہ عام طورپر دریاؤں اور ندیوں کے کنارے ریتیلی مٹی میں پیدا ہونے والا پھل ہے لیکن اب اس سے ملتی جلتی زمینوں اور علاقوں میں بھی تجارتی بنیادوں پر کاشت ہونے لگاہے۔ اس کی پیدائش زمین پر لیٹی ہوئی بیل پر ہوتی ہے اور دھوپ اس کی پرورش اورتکمیل میں اہم کردار اداکرتی ہے۔ اس کا جسم چھلکے، گودے دار مغز (بیج) پر مشتمل ہوتا ھے اوریہ تینوں حصے انسان کے لیے قدرت کے گراں قدر اوربہ آسانی دستیاب ہونے والے سستے عطیات ہیں۔ اس کے گودے اور اوپر والے چھلکے میں دودھ سے نصف اورمغز (بیج) میں دودھ کے برابرغذائیت ہوتی ہے۔ گودے میں پروٹین یعنی لحمیات، فاسفورس، چونا اور نشاستہ دار اجزا ہوتے ہیں اوراس میں شامل ریشہ آنتوں کی حرکت دودیہ تیز کرکے دائمی قبض کو دورکرتا ہے۔ خربوزے میںحیاتین الف، ب اورج بھی کچھ مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ ایک سیر خربوزہ تین سو حرارے فراہم کرتاہے۔ اطباء دردگردہ اورپیشاب کی کمی والے مریضوں کو خربوزہ چھلکے سمیت کھانے کی ہدایت کرتے ہیں۔ چھلکا دودہ بڑھاتا ہے۔ خربوزے کے چھلکے کھانے والے مویشی زیادہ دودھ دیتے ہیں۔ بچوں کو دودھ پلانے والی مائیں خربوزہ کثرت سے استعمال کریں تو دودھ میں اضافہ ھوسکتا ہے۔
خربوزہ جس قدر زیادہ شیریں اور لطیف ہو بہتر ہوتا ہے۔ روایت مشہور ہے کہ گنے کے کھیت کا خربوزہ زیادہ میٹھا ہوتا ہے۔ یہ بات غلط ہے۔ در حقیقت خربوزے کے میٹھے ہونے کا تعلق اس کے بیج کی قسم سے ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خربوزہ چوں کہ پانی والا پھل ہے، اس لیے اس کا مزاج پانی کے قریب ترین سرد تر ہونا قانون فطرت کے مطابق ہے۔ بعض اطباء کہتے ہیں کہ خربوزہ زیادہ شیریں ہو تواس میں گرمی ہوتی ہے اور جو کم شیریں ہو وہ سردہوتا ہے۔اگر ترش ہو توبہت سرد، پھیکا ہو توکم سرد اور کچاہو تو کھیرے کے مزاج کا ہے۔ شیخ الرئیس اسے دوسرے درجے کے اول میں سرد اور دوسرے درجے کے آخر میں تر قرار دیتے ہیں۔
خواص
خزائن ادویہ اور دوسری قدیم کتب میں خربوزے کے جو خواص اورفوائد بیان کیے گئے ہیں ان کے مطابق خربوزہ لطافت اور گرمی پیدا کرتاہے۔ رگوں میں جلد نفوذ کرتاہے۔ بدن کو فربہی بخشتا ہے۔ سدہ کھولتا ہے، گردے کی اصلاح کرتاہے، پیشاب خوب لاتا ہے، دودھ بڑھاتا ہے، پسینہ لاتا ہے۔ استسقاء اوریرقان میں بے حد مفید ہیـ۔ پتھری خارج کرتا ہے، گرم مزاج میں اس کے کھانے کی کثرت ان اخلاط کو دستوں کی راہ نکال دیتی ہے جو معدے میںہوں۔ نہار منہ کھانے سے صفراوی بخار اورایسا بلغم پیدا کرتا ہے جو صفراویت کی طرف مائل ہو۔
خربوزہ میٹھا ہو تو جلد صفرا کی طرف متحمل ہوتا ہے اور غیر شیریں ہو تو بلغم بن جاتا ہے۔ چوں کہ خربوزے میںرطوبت زیادہ ہے، اس لیے اس سے پیٹ میں ثقل کم پیدا ہوتا ہے۔ خربوزہ سونگھنے سے سانس میںقوت آتی ہے اور دماغ میں سردی پہنچتی ہے۔ خربوزے کا چھلکا قے لاتا ہے۔ چھلکے کالیپ جھائیوں کا مٹاتاہے۔ خربوزہ دماغی ورم اور نزلات کو رفع کرتا ہے۔ اس کا چھلکا گوشت کے ساتھ ہنڈیا میں ڈالنے سے گوشت جلدی گل جاتا ہے۔
سرید یا برف سے آنکھ میں ورم پیدا ہو جائے تو خربوزے کے چھلکے اور بیجوں کی دھونی سے آرام ہو جاتا ہے۔ پکا ہوا میٹھا خربوزہ مدر بول، مادہ حیات بڑھانے اورقوت پہنچانے والا اورپیٹ صاف کرنے والاہے۔ خربوزہ کھانے سے مقعدمیں کھجلی اور خون نکلنے کی شکایت رفع ہوتی ہے۔ اس کے چھلکے کو سونف کے عرق میں پیس کر کھلانے سے بچہ جننے کے بعد ہونے والارحم کا دردکافور ہوجاتا ہے۔ خربوزہ پیشاب کے فساد سے جنم لینے ولے امراض کو رفع کرتا ہے۔ حیض کے خون کو بند کرتا اورپیاس کو روکتا ہے۔
مغز خربوزہ کے بے پایاں فوائد
شیخ الرئیس کے بقول خربوزے کے سوکھے بیج پہلے درجے میں خشک ہوتے ہیں کیوں کہ ان میںتری نہیںہوتی۔ یہ جگر کاسدہ کھولتے ہیں۔ پیشاب زیادہ لاتے ہیں۔ گردے، آنتوں اورمثانے کو صاف کرتے ہیں۔ پاخانہ صاف لاتے ہیں۔ پیشاب کی سوزش مٹاتے ہیں۔ درد سینہ، ورم جگر اورحلق کی خشونت میںمفید ہیں۔ دودھ بڑھاتے ہی۔ پھیکے خربوزے کے بیج گرم مرکب بخاروں کونافع ہیں اورگرم کھانسی میں مفید ہیں۔ غیر مقشر یعنی چھلکے سمیت بیجوں کالیپ کرنے سے چہرے کا رنگ صاف ہوتا ہے۔ جو کے آنے کے ساتھ پیس کر ملنے سے جھائیاں دور ہو جاتی ہیں۔
اطبا کاکہنا ہے کہ خربوزے کے بیج معتدل ہیں۔ مادہ حیات بڑھاتے ہیں۔ صفرا کو دورکرتے ہیں۔ گرانی مٹاتے ہیں۔ خربوزے کے بیج (مغز) کالی مرچ اور مصری کے ساتھ ملا کر کھانے سے پیشاب زیادہ آتا ہے۔ ان کو کچے دودھ کے ساتھ پینے سے پیشاب کی نالی کی سوزش دور ہوتی ہے۔ پانی میں پیس کر اس میں جو اکھار اور قلمی شورہ ملا کر پینے سے گردے میں پیشاب پیدا ہونے لگتا ہے۔ بیج کالی مرچوں کے ساتھ کوٹ چھان کرمصری ملا کر پلانے سے بدن اور دل میں خنکی پیدا ہوتی اور حدت ختم ہوتی ہے۔ بیجوں کو پیس کرگرم لیپ بچوں کے پیٹ پر رگڑنے سے نفخ تحلیل ہو جاتا ہے۔
خربوزے کا مصلح شکنجبین ہے۔ خربوزے کے بیج کھانے سے شکمی اعضاء میں خرابی پیدا ہو تو اس کی اصلاح زرشک سے ہوتی ہے۔
احتیاط
٭ خربوزہ نہار منہ نہیں کھانا چاہئے۔ نہار منہ کھانے سے یہ معدے کے منہ کو کم زورکرتا ہے۔
٭ بھوک کی حالت میں بھی نہیں کھانا چاہیے کیوں کہ معدے کی قوت اور خربوزے کی گرمی کی وجہ سے معدے میں فساد آجاتاہے۔
٭ کھانا کھانے کے فورا بعد خربوزہ کھانے سے بدہضمی پیدا ہوتی ہے۔ اس کے کھانے کا بہتر وقت دو کھانوں کے درمیان ہے۔
٭ خربوزہ کھانے کے فوراً بعداگرکھانا کھایا جائے تویہ کھانے کوجلد فم معدہ سے نیچے اتار دے گا اور فم معدہ کوکمزور کرے گا۔ کھاناکھانے سے پہلے کھایا جائے تو کھانے کو فم معدہ سے نیچے اترنے سے روکتا ہے۔
٭ زیادہ مقدارمیں کھانے سے جو کچھ معدے میں ہو، اسے دستوں کی راہ نکال دیتا ہے اور معدے اورآنتوں کو کمزورکرتا ہے۔
٭ کثیف غذا مثلاً پنیر، دودھ، خمیری روٹی وغیرہ کے ساتھ کھانے سے سدہ پیدا کرتا ہے اور گردے کو ایذا دیتا ہے۔
خربوزہ جب تک ہضم نہ ہوجائے اس وقت تک سونانہیں چاہیے۔
٭ خربوزہ کھانے کے بعد دیر تک پانی نہیں پینا چاہیے کیوں کہ اس سے بدہضمی حتی کہ ہیضہ کی شکایت بھی ھوسکتی ہے۔