خطبۂ نکاح اور اس کی سماجی معنویت

محمد حفظ الرحمن قادری

نکاح میں خطبۂ  مسنونہ کے بعد قرآن کریم کی تین مختلف سورتوں سے کچھ آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں۔ سورہ? آل عمران کی آیت نمبر102سورہ? النساء￿ کی آیت نمبر 1اور سورہ? احزاب کی دوآیتیں 70-71بالترتیب تلاوت کی جاتی ہیں۔ پھر دوحدیثیں ’’النکاح من سنتی ‘‘ اور ’’فمن رغب عن سنتی فلیس منی‘‘ پڑھی جاتی ہیں اور مہر وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے ایجاب وقبول کرایا جاتا ہے۔

نکاح کے وقت پڑھی جانے والی مذکورہ تینوں آیتوں کا بظاہر نکاح سے کوئی راست تعلق نہیں نظر آتا۔ پھر بھی یہ آیتیں نکاح کے موقع پر کیوں پڑھی جاتی ہیں؟ ان آیتوں کا نکاح سے تعلق جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ نکاح کی حقیقت پر غور کیا جائے۔ قرآن میں نکاح کو میثاقِ غلیظ یعنی مضبوط (Firm Contract)کہاگیا ہے۔ یہ حقوق اور ذمہ داریوں کا دو طرفہ معاہدہ ہے۔ اس کے ذریعہ ایک مرد اور ایک عورت اپنے آپ کو ساری عمر کے لیے ایک بے حد سنجیدہ رشتہ سے جوڑتے ہیں تاکہ دونوں ایک دوسرے کی رفاقت (ساتھ) میں زندگی کے سفر کو طے کریں۔ اس طرح ایک نئی سماجی اکائی وجود میں آتی ہے۔ اس کے صالح اور غیر صالح ہونے پر سماج کے صالح اور غیر صالح ہونے کا مدار ہوگا۔ یہ آیتیں گھر اور سماج کو درست اور صالح رکھنے کی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ گویا مجلسِ نکاح میں ان آیتوں کی تلاوت سے نئے جوڑے اور دونوں طرف کے لوگوںسے یہ امید وابستہ کی جارہی ہے کہ زندگی کے ضابطوں (rule and regulation)کوخدا رخی بنائیں اور ان کی روشنی میں نئی زندگی کی تشکیل کریں۔

نیچے تینوں آیتوں کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے پھر ان کی مختصر تشریح بھی کی جائے گی۔

پہلی آیت: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیساکہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔

دوسری آیت: اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں۔ اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو۔ اور رشتے ناطے کو توڑنے سے ڈرو۔ بے شک اللہ تعالی تمہاری نگرانی کررہا ہے۔

تیسری آیت: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، سیدھی اور سچی بات کہو۔ وہ تمہارے عملوں کو سدھار اور تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا۔ جس شخص نے اللہ اور اْس کے رسول کی اطاعت کی تو اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔

اس آیت کا مشترکہ پیغام تقوی ہے۔ ان آیتوں میں چار مرتبہ تقوی کا حکم دیا گیا ہے۔ تقوی کیا ہے؟ تقوی دل کے ایک ایسے احساس کا نام ہے جو انسان کو گناہوں سے بچالے جب دیکھنے والی کوئی آنکھ موجود نہ ہو۔ قدرت کے باوجود کسی پر ظلم نہ کرسکے۔ کیوں کہ خدا کے سامنے حاضری کا تصور اس کے ہاتھ کو ظلم سے روکتا ہے۔ تقوی انسان کے اندر نیکی اور بھلائی کی تمنا پیدا کرتا ہے۔ اور یہ تمنا اسے سادگی کی طرف لے جاتی ہے۔ خدا کا خوف اسے فضول خرچی اور بے فائدہ نمائش کا شوق چھین لیتا ہے اس طرح انسان سادہ مگر بے مقصد بن جاتاہے اور اس کا مقصد خدا کی رضا حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ضروری ہے کہ پورے سماج میں تقوی کی روح پیدا کی جائے تاکہ برائیاں مٹ سکیں۔ سماج کے ہر طبقے اور انسان کے ہر رشتے میں حقوق اور فرائض کا احساس پیدا ہوسکے جس کے بغیر خوش گوار ماحول اور پْر سکون زندگی ممکن نہیں۔

تینوں آیات کا مشترکہ پیغام ہے کہ سماج کا ہر فرد اپنے اندر تقوی اور تقوی پر مبنی صفات پیدا کریں۔ ان آیتوں کا سماجی تجزیہ کرنے کی مزید کوشش کی جارہی ہے۔

پہلی آیت میں اس طرح اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا گیا ہے جیساکہ اس کا حق ہے۔ اللہ نے ہمیں زندگی دی ہے۔ زندگی کی بقا اور ترقی کے لیے جو چیزیں ضروری ہیں پوری کائنات میں رکھ دی گئی ہیں۔ ہم خدا کے احسانات کو گننے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے۔ پھر اس کا شکریہ ادا کرنا ہمارے لیے کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ اب غو رکرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سامنے صرف دو ہی راستے ہیں: اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھائیں اور اس کا شکریہ ادا کریں۔اس کی ناراضگی سے ڈرتے ہوئے صرف اس طریقِ حیات کو اپنائیں جو اس کے احکام کے مطابق ہے۔ اور ایسے طریقوں سے خود کو بچائیں جو اسے پسند نہیں۔ اور موت تک اس حال پر رہیں یا اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانا چھوڑدیں۔ یہ دوسرا طریقہ یقینی طورپر ہمارے لیے ممکن نہیںہے۔ نعمتوں سے فائدہ اٹھائیں اور خدا کی نافرمانی بھی کریں یہ بدترین جرم اور احساس فراموشی ہے۔ جس سے بچنا ہمارے لیے ضروری اور ہم پر خدا کا حق ہے۔ یہ آیت مجلسِ نکاح میں موجود ہر شخص کو احتساب کی دعوت دیتی ہے۔ خاص کر ان مجلسوں میں جہاں شرعی ہدایتوں کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں۔ کیا یہ بات عجب نہیں لگتی کہ جس محفل میں کہاجارہا ہے ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے‘‘ اسی محفل میں اللہ کے حکموں کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اور اْلٹا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔

دوسری آیت کے پہلے ٹکڑے میں انسان کو یاددہانی کرائی جاتی ہے کہ سب کے سب ایک ہی جڑسے نکلے ہوئے ہیں۔ تاکہ سب کے ذہن میں یہ بات رہے کہ رنگ ونسل وہ بنیاد نہیں بن سکتی جس پر فخر کیا جائے۔ کیا ایک دادا کے دوپوتوں کو یہ حق حاصل ہے کہ باپ کے مختلف ہونے پر ایک دوسرے کے مقابلے میں برتری کا اظہار کرے اور فخر جتائے ؟ حالاں کہ دونوں جانتے ہیں کہ ان کا شجرہ? نسب دادا پر ایک ہوجاتا ہے۔ تو پھر کوئی ذات اور کوئی قوم کو دوسرے کے مقابلہ میں کیسے فضیلت اور برتری دی جاسکتی ہے؟ جب کہ ہم جانتے ہیں کہ شجرہ? نسب کی کڑی درمیان میں کہیںنہ بھی ملی تو بالآخر حضرت آدم علیہ السلام پر مل ہی جائے گی۔ البتہ تقوی کو اللہ تعالی نے برتری کی بنیاد بنایا ہے جس کا شروع ہی میں حکم دیا جاچکا ہے اور رسول اللہ ?نے ان لفظوں میں جس کا اعلان فرمایا تھا ’’لا فضل لعربی علی عجمی ولالعجمی علی عربی، ولا لآحمر علی آسودولالآسود علی آحمر الا بالتقوی‘‘ (مسند احمد حدیث نمبر24204)

البتہ ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کے مقابلے میں دینی، تعلیمی اور تہذیبی اعتبار سے بہتر پوزیشن میں ہوسکتا ہے۔ اور اس طرح ایک برادری دوسری برادری کے مقابلے میں بھی۔ لیکن اس کا سبب نسلی نہیں بلکہ تاریخی ہوتا ہے۔ جس طرح ایک بیج کو مناسب آب وہوا مل جائے تو وہ تناور درخت بن سکتی اور مناسب آب وہوا کی محرومی اسے بے کار بناسکتی ہے۔ اسی طرح کسی آبادی میں موجود کسی برادری اور قبیلے کو جب مناسب تعلیم وتربیت مل جائے تو مجموعی طورپر ان کی ترقی ہوجاتی ہے۔ مناسب تعلیم وتربیت کا فقدان اسے پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ بس ایسی حالت میں ترقی یافتہ برادری اور قبیلے کوچاہیے کہ دینی لحاظ سے پسماندہ برادری اور اصلاح کی کوشش کریں نہ کہ اپنی ظاہری حالت کو فخر کی غذا بنائیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں رہنمائی کے لیے ایک واقعہ موجود ہے جس میں اللہ کے رسول ?نے اشعری قبیلے سے اس لیے خفگی کا اظہار کیا کہ وہ اپنے پڑوسی قبیلے کو تعلیم وتربیت پر برانگیختہ نہیں کرتے اور پڑوسی قبیلے سے ناراضگی فرمائی ہے کیوں کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے تعلیم لینے کی کوشش نہیں کرتے۔ (یہ حدیث ضعیف ہے۔ الجن? ڈیسک، دیکھیے: ضعیف الترغیب والترہیب، علامہ البانی، حدیث نمبر97)

اس واقعہ میں رسول اللہ ?کا اشعری قبیلہ پر صرف اس لیے ناراض ہونا کہ اپنے پڑوسی قبیلہ کی دینی تربیت اور نصیحت کی کوئی تدبیر نہیں کرتے۔ اور پڑوسی قبیلہ پر اس لیے ناراض ہونا کہ وہ اشعری قبیلہ سے سیکھنے اور تربیت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ، ہمارے لیے ایک راہِ عمل مہیا کرتا ہے۔ ہمیں اونچ نیچ کی دیوار کھڑی کرنے کے بجائے وہ کرنا چاہیے جو اشعری قبیلہ کے افراد نے کیا تھا۔ اور وہ یہ کہ ایک مدت متعین کریں اور جو برادری ، قبیلہ اورگروہ دینی تربیت اور تہذیبی سائشتگی سے دور ہیں انھیں آگے لانے کی کوشش کریں۔ مناسب تعلیم وتربیت انھیں بھی نکھار دے گا۔ اگر اس کے بجائے ہم نے اپنے ظاہر کو فخر کی غذا بنایا تو ہم مجرم ہوں گے۔ کیوں کہ اس طرح ذمہ داریوں سے راہِ فرار اختیار کررہے ہوں گے۔

اسی آیت کے دوسرے ٹکڑے میں انسان کو قرابت داروں اور رحمی رشتوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ یہ وہ رشتے ہیں جن کے خصوصی احسان، توجہ اور مدد کے بغیر فرد کی بقا، نشوونما اور ترقی ناممکن ہے۔ رشتہ رحم کے معاملے میں ڈرنا یہ ہے کہ ان کے حقوق درست طریقے پر اداکیے جائیں ، اس کی طرف سے غفلت ہرگز نہ برتی جائے۔ آیت کے اس حصہ کی طرف نئے جوڑے کو خصوصی دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ انھیں یادرکھنا چاہیے کہ نیا رشتہ سرپر نئی ذمہ داریاں لاتا ہے مگر پْرانی ذمہ داریوں کو ہٹائے بغیر۔ نیا رشتہ ذمہ داری اور حقوق میں اضافہ کا نام ہے نہ کہ فقط تبدیلی کانام۔ ماں باپ ، بھائی بہن اور دوسرے رشتہ دارو ں کی طرف سے غفلت برتیے اورنہ اپنے اہل کے حق میں کمی کیجیے بلکہ سب کا حق ادا کیجیے ’’فآتِ کل ذی حق حقہ‘‘ اور یادرکھیے اللہ ہر آن ہماری نگہبانی کررہا ہے۔

تیسری آیت کے پہلے ٹکڑے میں تقوی اور قولِ سدید (سیدھی سچی بات)اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ گھریلو جھگڑے ہوں یا سماجی لڑائیاں اگر جائزہ لیا جائے تو ستر فیصد سے زیادہ معاملہ قولِ سدید اختیار نہ کرنے کے نتیجے کے طورپر سامنے آئے گا۔کامیاب ازدواجی زندگی کے لیے باسلیقہ گفتگو کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔ اور اسی طرح کامیاب سماجی زندگی کے لیے بھی۔ گھر اور سماج کی درستگی کے لیے گفتگو کے آداب اور آداب کی تربیت کو عام کرنا ضروری ہے جس کے بغیر پْرسکون ماحول قائم نہیں ہوسکتا۔ اور پْرسکون ماحول کے بغیر تعمیری کام صحیح طورسے انجام دیے جاسکتے ہیں اور نہ نء نسل کی صحیح تعلیم اور صحیح تربیت کی جاسکتی ہے۔

اسی طرح اس آیت کے دوسرے حصہ میں بڑی کامیابی حاصل کرنے کا راز بتایا گیا ہے۔ بڑی کامیابی کیا ہے؟ بڑی کامیابی ہے عذاب ِ نار سے بچالیاجانا اور جنت میں داخل کردیا جانا۔ (3:185)اللہ نے یہ کامیابی اپنی اور اپنے رسول ?کی بات ماننے میں رکھی ہے۔ یہ بات ماننا نماز، روزہ، زکوٰۃاور حج تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ اس کا دائرہ زندگی کے ہرشعبہ تک پھیلا ہوا ہے۔ جب بھی ایسا موقع آئے کہ خدا کے پسندیدہ اور ناپسندیدہ راستہ میں سے ایک انتخاب کرنا پڑے۔ ایسے میں دوسرے راستوں کو چھوڑ کر خدا کے پسندیدہ راستہ کو اختیار کرنا ’اطاعت‘ ہے۔ ایسے موقع پر ایمان والے کا فرض ہوگا کہ اللہ کے پسندیدہ راستے سے دور نہ ہٹیچاہے وہ سماج کے رواجی ڈھانچہ اور روایتی تصور کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اورسماج مدح وستائش تعریف شاباشی کے بجائے لعنت وملامت سے اس کا استقبال کرے۔ کیوں کہ اللہ نے کامیابی اپنی اور اپنے رسول کی بات ماننے میں رکھی ہے۔ نہ کہ رواجی بندھنوں اور روایتی بندشوں میں۔

اللہ تعالی مسلمانوں کو ان آیات کی روشنی میں زندگی تشکیل اور تعمیر کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین!(جاری)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں