خطرناک بوتل

ڈاکٹر سلمہ پروین

یہ حقیقت ہے کہ دودھ بچے کے لیے ایک مکمل غذا ہے بشرطیکہ وہ اس کی ماں کا دودھ ہو۔ اگر بچے کو بوتل کے ذریعہ کسی اور جانور کا یا پاؤڈر کا دودھ پلایا جارہا ہے تو اس میں بچے کے لیے فائدہ کم اور نقصانات زیادہ ہیں۔ بوتل سے دودھ پینے والے بچوں کو دو قسم کے خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔ پہلا خطرہ تو بوتل سے جڑا ہے۔ دودھ میں موجود شکر اور دیگر غذائی اجزاء جراثیم کی پسندیدہ غذا ہیں۔ استعمال کرنے کے بعد بوتل کو جیسے ہی رکھا جاتا ہے یہ جراثیم ان میں پنپنے لگتے ہیں۔ اگر آپ نے بوتل کو محض پانی یا صابن سے دھوکر رکھ لیا تو یہ جراثیم ختم نہیں ہوتے۔ ان کو مارنے کے لیے بوتل کو پانی میں ابالنا ضروری ہے۔ بچے کو جتنی مرتبہ دودھ دیا جائے اتنی ہی مرتبہ بوتل کو پانی میں ابال کر صاف کرنا مشکل کام ہے جس میں عموماً لاپروائی ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے یہ خطرناک جراثیم بچے کے جسم میں جاکر اسے طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کرتے ہیں۔ ان بیماریوں میں اہم ترین اور جان لیوا پیٹ کے امراض ہیں۔

بوتل کے دودھ میں دوسرا خطرہ دودھ میں چھپا ہوتا ہے۔ قدرت نے ہر جاندار میں اس کے بچوں کی مناسبت سے دودھ پیدا کیا ہے۔ اسی لیے ہر جانور بچوں کی پیدائش کے بعد کچھ عرصے تک انھیں دودھ پلاتا ہے۔ انسان کے دودھ میں قدرت نے انسان کی ضروریات کے لحاظ سے غذائیت رکھی ہے جو بچے کی عمر کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اگر بچے کو ماں کے علاوہ کسی بھی طرح کا دودھ دیا جاتا ہے تو وہ نہ صرف اس کی ضروریات پوری نہیں کرتا بلکہ اس کے نازک ہاضمے پر بوجھ بنتا ہے۔ ماں کے دودھ میں کیلشیم، سوڈیم، پوٹاشیم، میگنیشم، لوہا، تانبہ، فاسفورس، کلورین، گندھک، وٹامن اے، بی ون، بی ٹو، توانائی، کولوسٹرم اور اینٹی باڈیز ہوتی ہیں۔ کولوسٹرم ماں کے سینے سے نکلنے والا پہلا رقیق مادّہ ہوتا ہے جس میں بیماریوں سے لڑنے کی زبردست صلاحیت ہوتی ہے۔ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بچپن میں ماں سے حاصل کیے گئے کولوسٹرم کا اثر انسان پر عمر بھر رہتا ہے۔ اسی طرح ماں کے دودھ میں موجود قدرتی اینٹی باڈیز بچے کو بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہیں۔ یہ قدرتی حفاظت کا سامان اس بچے کو نصیب نہیں ہوتا جو ماں کے دودھ سے محروم رہتا ہے۔

گائے یا بھینس کا دودھ قدرت نے ان کے بچوں کے حساب سے تیار کیا ہے۔ اس دودھ میں وہ سب کچھ نہیں ہوتا جو انسان کے بچے کی ضرورت ہے۔ غذائیت کے اعتبار سے بھی یہ دودھ بہت مختلف اور خطرناک ہوتا ہے۔ اس دودھ میں دو اہم مادّے ’’لیکٹوز‘‘ اور کیسپین ہیں۔ ان کوہضم کرنے کے لیے ’’لیکٹیز‘‘ اور ’’رے نن‘‘ نامی اینزائم درکار ہوتے ہیں جو انسانی جسم میں تین چار سال کی عمر سے پہلے نہیں بنتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ دودھ ۹۸ فیصد بچوں کے لیے ناقابلِ ہضم ہوتا ہے۔ وہ اسے پوری طرح ہضم نہیں کرپاتے اور بیمار رہتے ہیں۔ ان میں سب سے عام بیماریاں تھائی رائیڈ کی خرابی، آنتوں میں سوزش اور زخم، میعادی بخار، پیلا بخار، دمہ اور سانس کی دیگر تکالیف، نزلہ، کھانسی، کان کا انفیکشن، الرجی، جگر کی خرابی اور موٹاپا شامل ہیں۔ کیسین جوکہ گائے بھینس کے دودھ میں اس لیے ہوتا ہے تاکہ ان کے بچوں کی بڑی بڑی ہڈیاں اس سے بن سکیں، انسانی بچوں کے لیے آفت ہوتا ہے۔ یہ پیٹ میں جاکر پھٹ جاتا ہے اور بڑے بڑے لوتھڑے بنادیتا ہے۔ گائے بھینسوں میں معدہ چار تھیلیوں پر مشتمل ہوتا ہے جن میں یہ آسانی سے ہضم ہوجاتا ہے تاہم انسان کے بچے کے نازک ایک تھیلی والے معدے میں یہ ہضم نہیں ہوپاتا۔ معدے اور آنتوں میں بیٹھ جاتا ہے۔ چپک جاتا ہے، جس کی وجہ سے دیگر اقسام کی غذائیت بھی پوری طرح آنتوں میں جذب نہیں ہوپاتی اور بچے کے جسم کو غذائیت نہیں مل پاتی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146