[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

خط کہانی

محمد یوسف قاسمی

غالباً فروری کے مہینے میں کسی صبح نمازِ فجر سے قبل ایک صاحب حاجی عبدالرحمن طواف کعبہ کے دوران انتہائی محبت سے ملے وہ اندازہ لگا چکے تھے کہ میں ہندوستانی ہوں انھوں نے پوچھا کہ فجر کی نماز کے بعد آپ کس جگہ بیٹھیں گے۔ میں نے رکن یمانی کے سامنے اپنے بیٹھنے کی جگہ اشارے سے بتائی۔ انھوں نے کہا کہ میں آپ سے ملوں گا۔ میں نے کہا بہت خوب، میں انتظار کروں گا۔
نماز پڑھنے کے بعد عبدالرحمن میرے پاس آئے اور کہا کہ میرے ساتھ گھر چل کر ناشتا کیجیے۔ میں نے ان سے کہا کہ میرا یہ معمول ہے کہ سورج طلوع ہونے کے بعد ہی حرم سے باہر نکلتا ہوں، لیکن وہ نہیں مانے اور مجھے اپنے گھر محلہ جیاد لے گئے۔ ناشتے کے دوران بڑی کارآمد اور دلچسپ باتیں سناتے رہے۔
دورانِ گفتگو ایک اہم واقعہ انھوں نے یہ بیان کیا کہ حیدرآباد (دکن) کے علاقے کا ایک نوجوان لڑکا تھا جس کی حال ہی میں شادی ہوئی تھی۔ شادی کے دس پندرہ دن بعد اس کو سعودی عرب کاویزا مل گیا جس کے لیے پہلے سے اس نے رقم وغیرہ جمع کرائی تھی۔ ویزا ملتے ہی وہ سعودی عرب روانہ ہوگیا۔ پڑھا لکھااور ڈگری یافتہ تھا۔ وہاں کچھ عرصہ بیکار پھرتا رہا، پھر اسے ایک سو ریال یومیہ پر نوکری مل گئی۔ ملازمت ملنے پر وہ بے حد خوش تھا۔ سو ریال یومیہ اس کو اپنے ملک کے مقابلے میں بہت زیادہ نظر آرہے تھے۔ اس نے اپنی بیگم کو خط لکھا کہ نوکری مل گئی ہے، پھر اپنی تنخواہ کا بڑی خوشی سے ذکر کیا۔ مزید لکھا کہ یہاں کچھ عرصہ کام کرنے سے میرے پاس خاصی رقم جمع ہو جائے گی اور کچھ برسوں کے بعد ہم عیش کریں گے۔
بیوی نے خاوند کو جوابی خط ارسال کیا جس میں لکھا تھا:
’’آپ کا خط ملا، خوشی ہوئی کہ آپ برسرِ روزگار ہوگئے ہیں اور اس پر بھی خوشی ہوئی کہ سو ریال روز کی نوکری پر آپ بہت خوش ہیں لیکن میری ایک بات یاد رکھیں۔ جوانی کی ایک خاص مدت ہوتی ہے اور وہ جانے کے بعد پھر نہیں آتی جبکہ دولت ہرعمر، ہر زمانے میں آتی جاتی رہتی ہے۔ والسلام۔۔۔ آپ کی بیگم۔‘‘
اس خط کا خاوند کو ملنا تھا کہ اس نے زار و قطار رونا شروع کردیا۔ تمام رات اسے نیند نہ آئی۔ صبح ڈیوٹی کا وقت ہوا تو جس فرم میں وہ کام کررہا تھا، اس کے سربراہ سے ملا اور اپنا استعفا پیش کردیا کہ میں اب یہاں مزید کام نہیں کروں گا۔ سربراہ نے کہا: ’’کتنی مشکل اور کتنی منتوں سے تم کو یہ نوکری ملی ہے۔ اب تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے کہ نوکری چھوڑ رہے ہو۔ آخر وجہ کیا ہے؟ کیا تنخواہ کم ہے یا کہیں اور اس سے اچھی نوکری مل گئی ہے؟‘‘
نوجوان نے کہا: ’’ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘
فرم کے سربراہ نے کہا:’’بتاؤ، آخر بات کیا ہے؟‘‘
اس نے سربراہ کے سامنے وہ خط رکھ دیا۔ سربراہ عرب تھا، لہٰذا وہاں موجود دیگر افراد نے اس شخص کی بیوی کا خط پڑھ کر اسے سنایا جس پر وہ عرب رو پڑا اور اس نے کہا:’’یہ بات ہے تو تمہارا ستعفا منظور! تم فوری طور پر اپنے گھر چلے جاؤ اور اپنے شہر میں کام کرو۔ تم ہنر مند ہو، تمہارے لیے وہاں بھی کام کی کوئی کمی نہیں۔‘‘
حاجی عبدالرحمن نے بتایا کہ اس عرب نے نوجوان کے لیے واپسی ٹکٹ اور ساتھ ہی کچھ انعام کا بندوبست بھی کردیا۔اس طرح وہ نوجوان واپس اپنے وطن چلا گیا۔
کتنے ہی ایسے نادان افراد ہوں گے جو نوجوان بیویوں کو بے سہارا چھوڑ کر بیرونی ملکوں کو چلے جاتے ہیں۔ جب واپسی ہوتی ہے تو جوانی سکڑ چکی ہوتی ہے، من کی بستی بھی اجڑ چکی ہوتی ہے اور پتا نہیں کیا کچھ ہو چکا ہوتا ہے جس کا کچھ حصہ تو قابلِ بیان ہوتا ہے اور بہت سی باتیں بیان کرنے کی اس شخص میں سکت ہی نہیںہوتی۔ وہ بڑی کوشش کرتا ہے کہ بات راز میں رہے لیکن ظالم سماج اسے راز میں نہیں رہنے دیتا اور وہ بدنصیب شخص اس کی آگ میں عمر بھر سلگتا ہی رہتا ہے۔
عبدالرحمن نے کہا: ’’مولانا! آپ سے گزارش ہے کہ آپ وطن جاکر لوگوں کو نصیحت کریں کہ خدارا مال و دولت کے لالچ میں نوجوان بیویوں اور نوجوان اولاد کے حقوق پامال نہ کریں۔ جو لوگ ان حقوق کو پامال کرتے ہیں، اس دنیا میں بھی ان کو سزا ملتی ہے اور اگلے جہان میں بھی ان کے لیے عذاب ہوگا۔
اس کی مناسبت سے ایک اور وقعہ بیان کیے دیتا ہوں تاکہ اس سے بھی لوگ عبرت حاصل کریں۔ ایک شخص چار پانچ سال سے بیرون ملک کہیں ملازمت کرتا تھا۔ اس دوران اس نے گھر کا چکر نہیں لگایا تھا، بس وہیں سے رقم بھیج دیتا تھا۔ ایک روز گاؤں سے اس کی بیوی کا خط آیا کہ تمہیں مبارک ہو، تمہارا فرزند پیدا ہوا ہے۔ وہ حیران و پریشان ہوا کہ خدایا یہ کیا ماجرا ہے۔ میں تو چار سال سے ملک سے باہر ہوں۔ میرے ہاں یہ لڑکا کیسے پیدا ہوگیا؟ نہایت طیش اور غضب میں اس نے رختِ سفر باندھا اور گھر پہنچا۔ گھر میں جو باتیں ہوئیں، وہ اللہ ہی کو معلوم ہیں۔ باہر گاؤں میں اس نے بہت شور وغوغا کیا کہ یہ میرا بچہ نہیں۔ اس کے پہلے بچے بچیاں تھیں، وہ بھی اور سب رشتے دار بھی پریشان تھے۔ کسی دانا شخص نے اس کو مشورہ دیا کہ اب شور مچانے سے کیا حاصل، جو ہونا تھا وہ ہوچکا۔ اب بھلائی اسی میں ہے کہ اس بات کو پی جاؤ اور گاؤں والوں سے کہہ دو کہ میں گزشتہ سال ایک رات کے لیے گھرآیا تھا اور پھر بغیر کسی کو بتائے چلا گیا تھا، چنانچہ اس شخص نے ایسا ہی کیا اور گاؤں کے لوگوں کو جمع کرکے کہا کہ میں نے ایسے ہی شور مچا ڈالا تھا۔ مجھے بعد میں یاد آیا کہ میں گزشتہ سال ایک رات کے لیے خفیہ طور پر گھر آیا تھا اور کسی کو نہیں بتایا اور رات گزار کر صبح منہ اندھیرے واپس چلا گیا تھا۔ شرکائے محفل میں سے کسی نے کہا کہ جناب یہ تو آسان بات ہے۔ پاسپورٹ دیکھ لیں۔ اس سے معلوم ہوجائے گا کہ آپ آئیتھے یانہیں؟
اس نے جواب میں کہا کہ میرے پاس دوسرا پاسپورٹ تھا، میں اس پر آیا تھا۔ دانا لوگوں نے کہا کہ اب اس قصے کو چھوڑو کہ کس پاسپورٹ پر آیا تھا۔ اچھا ہوا کہ اس کا شک اور غصہ دور ہوگیا۔ ہمیں تو فکر تھی کہ یہ طیش و غضب میں کوئی اور حرکت نہ کرڈالے۔
تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ حرص زر کے ایسے پجاریوں کو، جو حقوق و فرائض سے اس قسم کا تغافل برت رہے ہیں، نصیحت کریں کہ وہ ان واقعات سے عبرت حاصل کریں اور بیویوں، اولاد اور والدین کے حقوق کی ادائیگی کو اپنے لیے دنیا و آخرت کی نجات کا ذریعہ سمجھیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں