خواتین اسلام کا مدافعانہ کردار

عارفہ محسنہ (ممبئی)

مسلمان مردو ں کے تقریباً برابر ہی مسلمان خواتین کی تعداد رہی ہے اور مردوں ہی کی طرح عورتوںنے بھی بہادری، جاں سپاری کے اور اسلام کے فروغ کیلئے قربانی کے ایسے ایسے نمونے پیش کیے ہیں کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے۔ خواتین نہ صرف اسلام کی نشرو اشاعت اور دعوت وتبلیغ کے لیے آگے آئیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے دفاع میں بھی پیش پیش رہیں۔وہ اسلام کے لیے جینے اور اسلام کی خاطر مرمٹنے، اور اسلام کو اپنے لہوسے سینچنے میں پیچھے نہیں رہیں۔ اس میدان میں سب سے پہلی شہید خاتون حضرت سمیہ بنت خیاط کا نام تاریخ میں ثبت ہے۔

آپ نے ام الفضلؓ کا واقعہ تو ضرور سنا ہوگا جب ایک موقع پر انہوں نے لٹھ مارکر ابولہب کا سر پھوڑ دیا تھا کیوں کہ اس نے انکے مسلمان غلام کو صرف اسلام دشمنی کی بناپر ماراتھا۔

حضرت صفیہؓ بنت عبد المطلب کا بہادر انہ اور مدا فعانہ کردار مسلم خواتین کیلئے اسلام کا روشن مینار ہے۔ ۵ھ ؁میں غزوہ احزاب ہوا جس میں مسلمانوں کے لیے بڑی آزمائش تھی۔ حضوؐر نے خواتین اور بچوں کوا حتیا طاًبحفاظت انصار کے ایک قلعہ میں منتقل کردیا تھا۔بنو قریضہ کی دست درازی اور شر سے بچانے کے لیے رحمت عالمؐنے اس مظبوط قلعے کو چُنا اور حسان بن ثابتؓ کو اس کی نگرانی پرمامور کیا۔ رسولؐ اپنے تمام جانثاروں کے ہمراہ جہاد میں مشغول تھے اور بنوقریضہ کے محلے اور انصار کے اس قلعے کے درمیان کوئی فوجی دستہ موجود نہیں تھا ۔اسی اثنا ء میں ایک یہودی اس طرف آنکلا اور قلعے میں موجود لوگوں کی سن گن لینے لگا۔ حسن اتفاق ،ایک معمر خاتون نے اس یہودی کو دیکھ لیا۔ وہ اپنی خدا داد فراست اور اسلام کیلئے مدافعانہ صلاحیت و کردار سے سمجھ گئیں کہ یہ شخص جاسوس ہے۔ اگر اس نے بنو قریضہ کے شریر النفس لوگوں کو جاکر بتا دیا کہ قلعہ میں صرف عورتیں اور بچے ہیں تو ہو سکتاہے وہ میدان خالی دیکھ کر قلعے پر حملہ کردیں ۔چنانچہ انہوں نے پہلے تو نگرانِ قلعہ حضرت حسان بن ثابتؓ سے کہاکہ وہ اس یہودی کو قتل کردیں۔لیکن حضرت حسان بن ثابت ؓ شاعر رسولؐ نے جواب دیا کہ میں ایسا نہیں کرسکتا۔

وہ خاتون حسانؓ کا جواب سنکر اٹھیں اور ایک چوب خیمے کی اکھاڑی، قلعے سے باہر آئیں اور زورسے اس یہودی کے سر پر چوب دے ماری۔ وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ یہودی کو قتل کرکے پھر حضرت حسان ؓ سے کہا کہ جاکر اسکا سرکاٹ لائو۔ انہوں نے اس سے بھی عذ رکیا۔ اس بہادر خاتون نے خود ہی اس کا سر کاٹ کر باہر پھینک دیا۔ بنوقریظہ کے یہودیوں کو اپنے ساتھی کا کٹا ہوا سر دیکھ کر یقین ہوگیا کہ قلعے کے اندر بھی مسلمانوں کی فوج موجود ہے چناچہ انہیں قلعے پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں پڑی۔

یہ شیر دل خاتون جس کی ایمانی شجاعت اور بے خوفی نے ایک بڑا خطرہ ٹال دیابنو ہاشم کی چشم و چراغ نبیؐ کی پھوپھی حضرت صفیہ ؓبنت عبد المطلب تھیں۔

کیوں نا چلتے چلتے بنونجار کی ایک دوشیزہ اشرافیہ حضرت امّ عمارہ ؓکے مدافعانہ رول کو دیکھا جائے۔امّ عمارہ ؓ کا حقیقی سرمایہ افتخار دین کی خاطر ہروقت سربکف رہنے کا جذبہ اور ہادی اکرمؐسے والہانہ محبت اور عقیدت کا تعلق تھا جس نے ان کو خاتون اُحد کا لقب دیا ۔

جب تک مسلمانوں کا پلّہ بھاری رہا، امّ عمارہؓ دوسری خواتین کے ساتھ مشکیزوں میں پانی بھربھر کر مجاہد ین کو پلاتی تھیںاور زخمیوں کی خبر گیری کرتی تھیں ۔ جب ایک اتفاقی غلطی سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور مجاہدین انتشار کا شکار ہوگئے تو اس وقت رسول ِ اکرم ﷺ کے پاس گنتی کے چند سر فروش باقی رہ گئے۔ حضرت اْم عمارہؓ نے یہ کیفیت دیکھی تو انہوں نے مشکیزہ پھینک کر تلواراور ڈھال سنبھالی اور حضورﷺ کے قریب پہنچ کر سینہ سپر ہوگئیں ۔ کفارباربار یورش کرکے حضورﷺ کے طرف بڑھتے اور اْم ِعمارہؓ انھیں دوسرے ثابت قدم مجاہدین کے ساتھ مل کر تیراور تلوار سے روکتیں ۔ یہ بڑانازک وقت تھا ، بڑے بڑے بہادر وں کے قدم لڑکھڑا گئے تھے لیکن یہ شیردل خاتون کو ہِ استقامت بن کر میدان جنگ میں ڈٹی ہوئی تھیں۔ اتنے میں ایک مشرک نے انکے سر پر پہنچ کر اپنی تلوار کا وارکیا۔ امِ عمارہؓ نے اسے اپنی ڈھال پر روکا اور پھر اس کے گھوڑے کے پائوں پر تلوارکا ایسا بھر پور ہاتھ ماراکہ گھوڑا اور سوار دونوں زمیں پر آرہے۔ سرورِعالم ؐیہ ماجرہ دیکھ رہے تھے آپؐ نے اْم عمارہؓ کے بیٹے عبد اللہ ؓ کو پکارکر فرمایا: ’’عبداللہ اپنی ماں کی مددکر۔‘‘ وہ فوراًادھر لپکے اور تلوار کے ایک ہی وار سے اس کو جہنم و اصل کردیا۔عین اس وقت ایک دوسرا مشرک تیزی سے ادھر آیا اور حضرت عبداللہ ؓ کا بایا ں بازوزخمی کرتا ہوانکل گیا ۔ حضرت امّ عمارہ ؓنے اپنے ہاتھ سے عبداللہ ؓ کا زخم باندھا اور پھر فرمایا: ’’بیٹے جائو اور جب تک دم میں دم ہے لڑو۔‘‘حضوؐر نے ان کاججذبۂ جانثاری دیکھ کر فرمایا:’’اے اْمّ عمارہ جتنی طاقت تجھ میں ہے اور کسی میں کہاں ہوگی؟‘‘ اسی اثنا میں وہی مشرک جس نے عبد اللہ ؓ کو زخمی کیا تھا پلٹ کر پھرحملہ آور ہو ۔ حضورﷺنے فرمایا:’’امّ عمارہ سنبھلنا ، یہ وہی بدبخت ہے ، جس نے عبد اللہ کو زخمی کیا تھا۔‘‘ حضر ت اُم عمارہؓ جوشِ غضب میں اس کی طرف جھپٹیں اور تلوار کا ایساکا ری وار کیا کہ وہ ٹکڑے ہوکر نیچے گر پڑا ۔ سرور عالمؐ یہ دیکھ کر متبسم ہو گئے اور فرمایا : ’’ام عمارہ تونے اپنے بیٹے کا خوب بدلہ لیا۔‘‘

اثنائے جنگ میں ایک بدبخت نے دْور سے حضورؐپر پتھر پھینکا جس سے آپ ؐ کے دو دندانِ مبارک شہید ہو گئے۔ شمع رسالت ؐ کے پر وا نے مضطرب ہو کر ادھر متوجہ ہوئے تو ابن قمیہ نامی ایک کافر حضورؐ کے قریب پہنچ گیا اور تلوار کا ایک بھر پور وارکیا۔ حضوؐرخُودپہنے ہوئے تھے۔ ابن قمیہ کی تلوار خود پر پڑی ۔ اسکی دو کڑیا ں رُخسار ِ مبارک میں کھب گئیں اور خون کی دھاریں پھوٹ نکلیں ۔ یہ سب کچھ چشم زدن میں ہو گیا ۔ اُم عمارہؓ بے تاب ہو گئیں اورآگے بڑھ کر ابن قمیہ کو روکا۔ یہ شخص قریش کا نامی شہسوار تھا لیکن شیردل اُم عمارہؓ مطلقہر اساں نہ ہو ئیں اور اس پر نہایت جرأت کے ساتھ حملہ کیا ۔ وہ دوہری زرہ پہنے ہوا تھا اس لئے اُم عمارہؓ کی تلوار ٹوٹ گئی اور ابن قمیہ کو جوابی وار کرنے کا موقع مل گیا ۔ اس سے ان کے کندھے پر شدید زخم آیا لیکن ابن قمیہ کو بھی وہاںٹھہر نے کی جرأت نہ ہوئی اور وہ تیزی سے گھوڑا دوڑاکربھاگ گیا۔حضرت اُم عمارہ ؓ کے زخم سے خون بہہ رہاتھا ۔ حضورؐ نے ان کے زخم پر خودپٹی بندھوائی اور کئی بہادر صحابہ ؓ کا نام لے کر فرمایا :ـ”واللہ آج اُمِ عمارہؓ نے ان سب سے بڑھ کر بہادری دکھائی۔”اُم عمارہ نے عرض کیا:’’یا رسول اللہ ؐ میرے ماں باپ آپ ؐ پر قربان ، میرے لیے دعا فرمائیے کہ جنت میں بھی آپ کی معیت نصیب ہو۔‘‘حضورؐ نے نہایت خشوع و خضوع سے ان کے لیے دعا مانگی اور بہ آواز بلند فرمایا:’’اللہم اجعلھم رفقائی فی الجنۃ”

حضرت اُم عمارہ ؓ کو بڑی مسرت ہوئی اور ان کی زبان پر بے اختیار یہ الفاظ جاری ہوگئے: ما ابالی ما اصابنی من الدنیا )اب مجھے دنیامیں کسی مصیبت کی پر وانہیں۔)

لڑائی ختم ہوئی توحضور ؐاس وقت تک گھر تشریف نہ لے گئے جب تک آپؐ نے حضرت عبد اللہ بن کعب ؓ مازنی کو بھیج کر حضرت اُم عمارہؓ کی خیریت دریافت نہ کرلی ۔ حضورؐفرمایا کرتے تھے کہ اُحد کے دن میں دائیں بائیں جدھر نظر ڈالتا تھا امِ عمارہ ؓ لڑتی نظر آتی تھیں۔

آج ہمیں ایسی ہی سچی خواتین کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے اوران ہی صحابیات کا طرز عمل اپنانا ہے۔ پھر نا کسی لڑکی کی عصمت لٹے گی اور نا کوئی بہوجلائی جائے گی۔ اسلام نے اپنا دفاع کرنا سکھا یا ہے اور صحابیات کا دور، تابعین و تبع تابعین کا دور اور صالحین کے عہد کی عورتوں نے خود کا ،بچوں کا اور اسلام کا دفاع کیا ہے ۔ اس لئے تو پیارے نبیؐ نے فرمایا:جو اپنی جان مال عزت آبرو کی حفاظت کر تے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے۔ مسلم خواتین اپنے دفاع میںبھی لڑتی ہیں اور اسلام کے دفع میں بھی کیوںکہ یہی عین حق ہے۔ مگر اس کے لیے ہمیںدینی علوم اور تاریخ اسلام کا مطا لعہ کرنا ہوگا۔اور اپنے لئے دین اسلام کی صحیح راہ چننی ہوگی۔ زیادہ کھانے،زیادہ سونے اور غلط طرز ندگی اور غلط علوم کے حصول سے پر ہیز کرنا ہوگا۔

پیاری بہنوں اس دعا کوحرزجاں بنالواور عملی اقدام کرو۔۔۔اللہم انی اعوذبک من الھمّ و الحزن و العجز و الکسل والبخل وضلع الدین وغلبۃ الرجال’’اے اللہ مجھے غم و فکر و رنج و ملال عاجزی ،کم ہمتی، سستی ،کاہلی ، اور کنجوسی سے اپنے حفظ و امان میں رکھ ، قرض اور لوگوں کے حاوی ہونے سے بھی بچا۔ آمین ۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں