عورت پر بے پناہ مظالم ہو رہے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ مظالم کرنے والے غیر مسلم ہیں۔ مسلمانوں میں بھی ان کی نظیریں مل جاتی ہیں لیکن غیر مسلموں کے مقابلے میں بہت کم۔ یہ سوچ کر ہم خاصے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ چلو ہمارا معاشرہ تو اس لعنت سے بڑی حد تک پاک ہے۔ یہاں مسلمانوں میں بھی جو حادثات ہوتے ہیں تو یہ حقیقت میں ان لوگوں کے یہاں وجہ سے ہوتے ہیں جو نام کے مسلمان ہیں اور اسلام اور اس کی تعلیم سے ناواقف ہیں۔ عام مسلمان جن کے دل میں خدا کا خوف ہے وہ ان خبیث گناہوں میں مبتلا نہیں ہوتے، انہیں دنیا کی لالچ نہیں ہوتی، آخرت کی جواب دہی سے وہ غافل نہیں ہوتے، اپنے کندھوں پر معصیتوں کے بوجھ نہیں بڑھاتے۔ یہ اچھی بات ہے۔
میں جب معصیتوں کی فہرست پر غور کرتا ہوں تو میرے سوچنے کا انداز ذرا مختلف ہوتا ہے۔ جانے کیوں میں یہ سوچتا ہوں کہ جسے زہر دے کر مار دیا گیا، گلا گھونٹ کر موت کی نیند سلا دیا گیا، آگ میں جلا کر بھسم کر دیا گیا، یا کسی اور طریقے سے اس کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا گیا وہ ختم ہوگئی۔ اس پر مظالم کا سلسلہ بھی تمام ہوگیا۔ لیکن اصل مظلوم تو وہ ہے جسے بیوگی پر اچھوت، بدشگون، منحوس، آفت اور بلا قرار دے دیا گیا۔ ان میں سے جو گھر سے چلی گئی وہ ہمیشہ کے لیے نظر سے دور ہوگئی، جو رہ گئی وہ اس عذاب میں ساری زندگی مبتلا رہی۔ اسے سہاگن ہوتے ہوئے بھی کوئی حق نہ دیا گیا۔ گھر میں داسی بن کر رہی اور گھریلو خادمہ کے فرائض انجام دیتی رہی۔ اس کی رائے کی اہمیت اور اس کی عقل کا کوئی اعتبار نہ کیا گیا۔ پرایادھن ہونے کی وجہ سے میکے سے صرف دہیج لے کر رخصت ہوئی اور سسرال میں بہو کے آنے تک بھنڈار کی چابی ساری کے پلو میں لٹکائے رہی۔ اس کے بعد اس کی حیثیت خارج شدہ کباڑ (Rejected Junk)کے برابر رہ گئی۔
یہ سب خرابیاں ہمیں دوسروں میں نظر آتی ہیں اور ہم خدا کا شکر ادا کرے ہیں کہ ہمارے اسلام میں یہ سب مظالم نہیں ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اسلام میں نہیں ہیں۔ لیکن کیا یہ بھی سچ ہے کہ یہ سب ہم مسلمانوں میں بھی ہوتا ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ بھیانک گناہوں کی تعداد ہمارے معاشرے میں کم ہے کیوں کہ اللہ کا خوف اب بھی ہمارے دلوں میں کسی نہ کسی حد تک باقی ہے لیکن وہ گناہ جن کو ہم گناہ نہیں تصور کرتے، صرف ناانصافی قرار دیتے ہیں، ان کی تعداد کسی نوعیت سے کم نہیں۔
سب سے پہلا امتیاز یا ناانصافی مردوں اور عورتوں کی آرزو سے شروع ہوتی ہے۔ جو بھی آئے گا یہی دعا دیتا جائے گا۔ ’’دودھوں نہاؤ، پوتوں پھلو۔‘‘ بیٹی کا نام و نشان اس دعا میں بھی نہیں ہوتا۔ اس دعا کے بعد بھی اگر بیٹی پیدا ہوجائے تو منہ لٹک جاتے اور چہرے مرجھا جاتے ہیں۔ اس ناامیدی کے بعد بھی جب آگے کی امید کی دعا دی جاتی ہے تو وہ بھی گھر کے چراغ، خاندان کا نام چلنے کی دعا ہوتی ہے اور نام چلتا ہے صرف بیٹے سے ۔ اس لیے کہ بیٹی تو بیاہ کر کے دوسرے کے گھر چلی جاتی ہے۔ اسی لیے بیٹی سے دوسرے درجہ کے شہری کا سا برتاؤ کیا جاتا ہے۔ اچھی سے اچھی چیز بیٹے کو کھلائی جاتی ہے۔ اچھے سے اچھا بیٹے کو پہنایا جاتا ہے۔ جہاں بیٹی نے ہمسری کی، برابری کا مطالبہ کیا، اسے گھڑک دیا گیا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس پر جو کچھ خرچ ہوگا وہ پرائے دھن پر خرچ ہوگا۔ بیٹے پر کیا ہوا خرچ تو ایک طرح سے مستقبل کے لیے سرمایہ لگانا ہے۔ اس کا نفع تو بعد میں واپس آجائے گا۔ بیٹی پر جو کچھ خرچ ہوگا اس کا فائدہ تو غیر ہی اٹھائیں گے۔
ایک صحابی رسول اللہﷺ کے پاس حاضر تھے۔ اتنے میں ان کا بچہ اور بچی ان کے پاس بھاگتے ہوئے آئے۔ انھوں نے بیٹے کو گود میں اور بیٹی کو سامنے بٹھا لیا۔ رسول اللہﷺ نے اس امتیازی سلوک پر ٹوک دیا۔ آپؐ پر ہم سب کی جانیں قربان، آپؐ اتنا امتیاز بھی گوارا نہ کرتے تھے اور ہم کھلی نا انصافی کرتے ہیں اور ہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم کتنا بڑا ظلم کر رہے ہیں۔
تعلیم کے معاملے میں اب ہم یہ تو سوچنے لگے ہیں کہ لڑکی کو بھی تعلیم دلانی چاہیے لیکن تعلیم کیا ہواور کیسی ہو؟ اہم سوال ہے۔ میں جب کہتا ہوں کہ ہر طرح کی تعلیم دلانی چاہیے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ میں مغرت سے غیر معمولی طو رپر مرعوب ہوں۔ حالاں کہ میں ان لوگوں سے زیادہ احتیاط کا قائل ہوں۔ ایک صاحب سے بات ہو رہی تھی۔ وہ کہنے لگے کہ بعض تعلیمی شعبے ایسے ہیں کہ ان میں لڑکیوں کو داخل نہیں کرانا چاہیے، مثلاً انجینئرنگ اور میڈیکل وغیرہ، کیوں کہ ان شعبوں میں اس وقت تک تعلیم حاصل نہیں کی جاسکتی جب تک پردہ کو خیر باد نہ کہہ دیا جائے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں لیکن یہ بتائیے کہ جب زچگی یا ولادت کے مواقع ہوتے ہیں یا جگر، پتے، بند آنت، ہرنیا یا اسی طرح کے دوسرے آپریشنوں کی ضرورت ہوتی ہے تو عورت مرد سرجن سے اپنے ستر کو کیسے چھپاتی ہے؟ آپ اضطرار میں پردہ کے عارضی ترک کی بات کریں گے، میں حیا کی انتہائی حد کے داؤ پر لگ جانے کی بات کر رہا ہوں۔ مجھے مطمئن کیا جائے اور کوئی حل بتایا جائے کہ عورت صرف عورت ڈاکٹر ہی کے سامنے بے ستر ہوسکے۔ کوئی ایسا اضطرار ہو جو عورت کو تعلیم کے دوران اور علاج معالجہ کے دوران صرف عورت کے سامنے بے جھجک اپنی کیفیت بیان کرنے کی سہولت فراہم کرسکے۔ اگر امہات المومنین گھر بیٹھے کپڑے کی بین الاقوانی تجارت یا چمڑے کی دباغت کرسکتی تھیں اور اسے فروخت کراسکتی تھیں تو آج کی عورت گھر بیٹھے الکٹرانک، کمپیوٹر ٹکنالوجی، چارٹرڈ اکاؤنٹنسی، قانونی مشاورت، تجارتی پالیسی، آر کی ٹیکچرل کنسل ٹینسی وغیرہ کے کام کیوں نہیں انجام دے سکتی؟ یہ سب کچھ ہوسکتا ہے اور حجاب کی حدود کا احترام کرتے ہوئے کیا جاسکتا ہے، شرط صرف یہ ہے کہ احکامات خدا وندی کا لحاظ رکھا جائے، مگر ہم ملت اسلامیہ کے اس طرح فعال بننے کے بارے میں سوچنے سے ہی معذور ہیں۔
تعلیم کی اس نوعیت پر گفتگو بہت سے ذہنوں کو الجھا دے گی اور منفی انداز سے سوچنے کے ڈھرے پر ڈال دے گی، اس لیے چلئے چھوڑیے، ہم اس تعلیم پر گفتگو نہیں کرتے، صرف دینی تعلیم تک ہی اپنی بات کو محدود رکھتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں کتنی بچیاں ہیں جن کو صحیح معنوں میں دینی تعلیم دی جاتی ہے؟ بغدادی قاعدہ پڑھا دینا اور ناظرہ قرآن پڑھا دینا دینی تعلیم نہیں ہے۔ اس سے اس کو ارکان اسلام تک کا کوئی علم نہیں ہوتا۔ اسے اس امر کا بھی قطعا علم نہیں ہوپاتا کہ اس کے لیے مسلمان ہونے میں کیا بہتری ہے۔ ایسی ہی لڑکیاں عصری تعلیمی اداروں میں پہنچتی ہیں تو انہیں اپنے اور دوسرے مذاہب کی لڑکیوں میں سوائے نام کے اور کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ یہی ذہنی الجھاوے وہ آئندہ نسل کو منتقل کرتی ہے۔ اسی کا انجام ہے کہ مسلمان بہ حیثیت مجموعی دین سے بیگانہ ہوتا جا رہا ہے۔
ایک مرحلہ شادی کا آتا ہے جب بڑی ہماہمی ہوتی ہے۔ لیکن لڑکی کی حیثیت انتہائی مجہول سی ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے ایک صحابی نے کہا کہ وہ فلاں صحابیہ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے پوچھا: کیا تم نے انھیں دیکھا ہے؟ صحابی نے کہا نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم پہلے انہیں دیکھ لو۔ رسولِ اکرمﷺ کی اس ہدایت پر عمل ہمارے نزدیک بہت بڑی بے حیائی ہے۔ اعوذ باللہ، رسول اللہ کا حکم اور بے حیائی؟ یعنی عقد کے لیے قبولیت کا حق بھی لڑکی کو حاصل نہیں؟ پھر بھی نکاح ہو جاتا ہے۔
لڑکی کو اپنے ساتھ بہت سا جہیز، اتنا کچھ جتنا کہ لڑکے والے یا لڑکا فرمائش کر دے، لانا ہی چاہیے، کیوں کہ اللہ رکھے، صاحبزادے کو ساری زندگی بیوی کے لائے ہوئے جہاز پر ہی تو سفر کرنا ہے۔ ناکارگی، نااہلی اور کاہل الوجودی کا سودا وہ اپنے جہیز کے ذریعے کرتی ہے۔ ادھر میکے والے یہ سب کچھ دے کر سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ یعنی اب لڑکی کا جہیز لے جانے کے بعد وراثت میں کوئی حق نہیں رہا۔ اسلام نے شادی کے بعد بھی عورت کا بنیادی رشتہ اس کے گھر یا میکے سے ہی باقی رکھا ہے (طلاق کے بعد اسے اپنے میکے ہی واپس آنا ہوتا ہے) لیکن ایسا کیا نہیں جاتا۔ کہتے ہیں کہ شادی کے بعد تمہارا گھر تمہاری سسرال ہے۔ بات صحیح ہے۔ لیکن اللہ نے اسے جو حق دیا ہے وہ تو سلب نہ کیا جائے۔ اسے وراثت کے شرعی حق سے تو محروم نہ کیا جائے مگر اللہ کی نافرمانی کر کے ایسا کیا جاتا ہے۔
نکاح جب پڑھایا جاتا ہے تو لڑکی والوں کی طرف سے اتنا مہر مقرر کرانے کی کوش کی جاتی ہے کہ لڑکا ادا نہ کرسکے کیوں کہ جتنی زیادہ مہر کی رقم ہوگی سماج میں اتنی ہی زیادہ اونچی ناک ہوگی۔ لڑکے والے اس لیے منظور کرلیتے ہیں کہ اس میں ان کی شان کا بھی تو مظاہرہ ہوتا ہے اور پھر یہ عام تصور کہ مہر ادا کون سا کرنا ہے۔ ہمارے یہاں ایک جاہلانہ روایت یہ بھی عام ہے کہ ماں سے دودھ اور بیوی سے مہر معاف کرالیا جائے۔ کیا دودھ معاف کرالینے کے بعد ماں کی سابقہ و حالیہ حق تلفی جائز ہوجائے گی؟ اسی طرح کیا بیوی سے مہر معاف کرالینے کے بعد مہر واقعتا معاف ہوجائے گا؟
لڑکی کے سلسلے میں ایک بے رحمانہ رویہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی شادی کے سلسلے میں غیر معمولی تاخیر کی جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ تیس پینتیس برس کی ہو جاتی ہے۔ اس کا اصل جوانی کا زمانہ گزر جاتا ہے۔ اس کے بعد شادی کی جاتی ہے۔ بعض لڑکیوں کے سلسلے میں تو عمر کی وہ سرحد بھی گزر جاتی ہے جس کے بعد ماں بننے کی ہر امید ختم ہو جاتی ہے۔ اس تاخیر کے پیچھے یا تو یہ ہوشیاری ہوتی ہے کہ جائداد کے مزید وارث عالم وجود میں نہ آئیں یا بیٹی بیاہیں گے تو ایسے گھرانے میں جس کی ہڈی اپنی ہڈی سے ملتی ہو یا جس کی اٹاری اپنی اٹاری کی جتنی ہی اونچی ہو۔ کیا لڑکی کو اس طرح زندہ درگور کردینا شرعاً جائز ہے؟
یہ از کار رفتہ لڑکیاں اس لحاظ سے پھر خوش نصیب ہوتی ہیں کہ اپنے گھر کی تو ہو جاتی ہیں، لیکن ان لڑکیوں کی بے بسی کے بارے میں سوچئے جن کے والدین ان کی شادی ہی نہیں کرتے اور ساری زندگی گھر میں بٹھائے رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ کیسے سوچ لیا جاتا ہے کہ ان کے کوئی ارمان ہی نہیں ہوتے، کوئی خواب ہی نہیں ہوتے، کوئی تمنا کوئی آرزو نہیں ہوتی، انہیں اس طرح کی زندگی گزارنے کی خواہش نہیں ہوتی جیسی کہ ان کے والدین گزار رہے ہیں؟ کاش کہ ان کے والدین کبھی یہ بھی سوچتے کہ ان کے بعد ان بے آسرا بوڑھی عورتوں کا کیا ہوگا؟ جب یہ ضعیفی کی وجہ سے معذور ہوجائیں گی اور ان کا اپنا کوئی ان کے پاس نہ ہوگا تو ان کی دیکھ ریکھ کون کرے گا؟ ان کا ولی وارث کون ہوگا؟ لاکھوں کی تعداد میں ایسی بے یار و مددگار آبادی تیار کردینا کس شرع کے مطابق جائز ہے؟ یہ لاتعداد غیر شادی شدہ بوڑھی عورتوں کا سوال ہے جو جواب کا طالب ہے۔
شادی شدہ عورت کا شوہر اگر مرجائے تو وہ بدقسمت نہیں منحوس قرار دی جاتی ہے۔ گھر میں وہ کسی شگون میں شریک نہیں ہوسکتی، شادی میں کسی رسم میں پہل نہیں کر سکتی، نوبیاہتا دلہن کے سر پر ہاتھ نہیں رکھ سکتی۔ یہ سب گھروں میں نہیں ہوتا، چند علاقوں اور گھروں میں ہی ہوتا ہے لیکن ہوتا تو ہے۔ البتہ یہ ہر گھر میں ہوتا ہے کہ بیوہ ہوتے ہی عورت کے سر سے رنگین دو پٹہ اتر جاتا ہے۔ اس کے ہاتھ ناک کان ننگے ہوجاتے ہیں۔ ہاتھوں میں مہندی لگانا، خوشبو لگانا یا اور کوئی آرائش کرنا ممنوع ہو جاتا ہے۔ کیوں؟ کیوں کہ وہ بیوہ ہے۔ یہ سب ممانعتیں کس شرع کے تحت ہوتی ہیں؟ عورت زندگی بھر کے لیے اپنے شوہر کی موت کا اعلان کیوں بن جاتی ہے؟ سوگ صرف تین دن کیوں نہیں منایا جاتا؟ ساری زندگی کیوں منایا جاتا ہے؟ کیا یہ ظلم غیر اسلامی نہیں ہے؟
ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اسلام نے بیوہ کے عقد ثانی کی اجازت دے رکھی ہے۔ دوسرے مسلم ممالک میں اس کا عام رواج بھی ہے، لیکن ہمارے یہاں یہ کس حد تک پسندیدہ ہے؟ بیواؤں کی کتنی فی صد اتنی خوش نصیب ہوتی ہے کہ اس کا عقد ثانی ہو جائے؟ اس کے برخلاف اسے جس کسمپرسی کی زندگی گزارنی ہوتی ہے وہ عبرت انگیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بیوہ کو اسلام کے ذریعے، جان، مال، اولاد، ہر طرح کا تحفظ دیا ہے لیکن ہندوستانی مسلمان معاشرے نے اسے ازکار رفتہ کباڑ قرار دے کر معاشرتی زندگی سے خارج کر دیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بیوگی سارے ارمانوں اور راحتوں کا جنازہ ہوتی ہے۔ اس کے بعد حسرتوں کے سوا اور کچھ نہیں بچتا۔
ان میں سے بعض ضلالتیں کم ، بعض زیادہ اور بعض بہت عام ہیں۔ ان کی روشنی میں آئیے ہم فیصلہ کریں کہ مظلوم عورت کون ہے؟ وہ جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردی گئی یا وہ جو پھانسی کے پھندے میں لٹکی ہوئی ہے… مرتی بھی نہیں، جیتی بھی نہیں! کیا اسے اسلام کا گن گانے والے اس ناختم ہونے والے عذاب سے نجات نہیں دلا سکتے؟lll (فروری ۱۹۹۷ کے شمارے سے)