بس پر سوار ہوتے ہی سب سے زیادہ محسوس کرنے والی بات یہ تھی کہ تمام لوگوں کی نگاہیں ڈرائیور کے بائیں ہاتھ کی نشست پر بیٹھی لڑکی پر مرکوز تھیں۔ (وہ کسی کوچنگ سینٹر سے واپس گھر جارہی تھی) چند کتابیں اور ایک چھوٹا سا بیگ اس کے ہاتھ میں تھا۔ مگر ایسا کیا تھا جو ہر نگاہ اس پر جمی ہوئی تھی… میں نے دیکھا … اور پھر میرا جی چاہا کہ کاش میں اس وقت اس گاڑی میں نہ ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا… پورے لباس کے باوجود ایسا لگتاتھا کہ میں بھی اسی کی طرح ہوں۔ یہ میری مسلمان بہن ہی ہے نا۔ اس کی باریک قمیص اور ہلکے رنگ کی ہلکی سی شلوار اس کی مکمل ستر پوشی سے عاجز تھے۔ رہی سہی کسر اسکارف نما دوپٹے نے پوری کردی تھی، پھر بیٹھنے کا لاپروا انداز۔ جیسے چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا : مجھے دیکھو۔ میں نے دوبارہ اس کو دیکھنے کی ہمت نہیں کی، اور اگلا اسٹاپ ہی میری منزل تھا۔
شام کو گھر میں کام کرتے ہوئے چلتے پھرتے اچانک نگاہ ٹی وی اسکرین پر پڑی، کوئی مباحثہ نما پروگرام بہت زوروشور سے جاری تھا اور خاتون میزبان اپنے نقطۂ نظر کو مہمان پر واضح کرنے کی کوشش میں مصروف تھیں۔ ان کا لباس بھی کپڑے کی کمیابی کا مظہر تھا۔ کیمرے نے ان کو پورا فوکس کیا تو معلوم ہوا کہ صرف آستینیں ہی نہیں ان کا پاجامہ نما شلوار کا پائنچے والا ابتدائی حصہ بھی غائب ہے۔ یا الٰہی یہ ہم لوگ کہاں آگئے۔ صرف یہ دو مناظر ہی نہیں اس طرح کے لا تعداد مناظر ہمارے ارد گرد نظر آتے ہیں۔ گھروں میں، سڑکوں پر، بازاروں میں۔ ہم میں سے ہر ایک اپنے آس پاس دیکھے تو ہم میں سے بہت سے لوگ خود یہ کردار ہیں۔
آئیے ایک اور تصویر دیکھتے ہیں۔ ساحلِ سمندر پر لوگوںکا ہجوم ہے،گرمی کی شدت سے لوگ بے حال، ایسے میں پانی میں جانے سے کسی کو کون روک سکتا ہے؟ خواتین جب برابری کی دعوے دار ہیں تو بھلا پیچھے کیوں رہیں؟ نجانے کتنے ایسے گروپس جب پانی سے ساحل کی طرف آرہے ہوتے ہیں تو کچھ آنکھیں ان کو دیکھ کر جھک جاتی ہیں اور کتنی ہی آنکھیں انہیں دیکھ کر چمک اٹھتی ہیں۔
مگر آج وہ دور ہے کہ ہم میں سے بہت سے لباس پہن کر بھی بے لباس لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسولﷺ نے عاریات اور کاسیات بن کر ریجھنے اور رجھانے والی خواتین پر لعنت فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ ایسی خواتین جنت سے بہت دور رہیں گی۔ حدیث میں اس مفہوم کے لیے ’’کاسیات عاریات‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اس میں لباس کی ایسی بناوٹ بھی شامل ہے جس سے جسم نمایاں ہو اور بہت ڈھکے چھپے لباس کے باوجود اس کا بہت باریک ہونا بھی شامل ہے۔
ہماری بہت سے بہنیں نادانستہ طور پر محض فیشن کی تقلید میں مروجہ لباس پہننے کی کوشش کرتی ہیں۔ فیشن بذاتِ خود کوئی بری چیز نہیں بشرطیکہ وہ ہمیں اس دائرۂ کار سے باہر نہ نکالے جو اسلام نے ہمارے لیے مقرر کیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ابتدا ہی سے اپنی بچیوں کو لباس کی حدود کے بارے میں بتائیں اور پابندی کروائیں۔ ساتر لباس کی اہمیت کا احساس دلائیں اور میڈیا کی چھا جانے والی یلغار کے برے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے شروع سے ان کاذہن بنائیں اور انہیں بتائیں کہ ان کا ’’رول ماڈل‘‘ کون خواتین ہیں۔
ہم جب بھی لباس پہنیں تو ایک بار خود کو اس حدیث کے آئینے میں ضرور دیکھیں کہ کہیں ہم بھی تو ’’کاسیات عاریات‘‘ میں شامل ہونے نہیں جارہے ہیں۔
——