مطالعہ کی میز پر اخبارات پھیلے ہوئے ہیں۔ نیشنل ویمن کمیشن کی رپورٹ سامنے ہے۔ دماغ میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ آنکھیں خلا میں ٹکٹکی باندھے ہوئے ہیں۔ خیالات کا ہجوم ہے رپورٹ میں عورت کی بدحالی کی تصویر کھینچی گئی ہے۔
یہ وہی عورت ہے جسے کوئی دیوی کہہ کر پوجتا ہے تو کوئی اس کے قدموں میں جنت تلاش کرتا ہے۔ یہ وہی عورت ہے جس نے نبیوں کو جنم دیا ہے۔ اپنی کوکھ میں پالا ہے۔ اپنا خون، شیرِ مادر کی شکل میں پلایا ہے۔ جس کی آغوش میں اولیا، مہاتما اور سورما و حکمراں پلے ہیں۔
مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ہر دور میں متضاد سلوک و برتاؤ اس کا مقدر رہا ہے۔ اس کے سر پر بابا آدم کو جنت سے نکلوانے کا الزام بھی تھوپا جاتا ہے۔ اس کو شیطان کی خالہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ دھرم اور مذہب کے نام پر اس سے نفرت بھی کی جاتی ہے کہ اس کا سایہ بھی مکتی سے محروم کردے گا۔ خود اس کی مکتی کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، اس کو داسی بنادیا جاتا ہے۔ اس کو اغوا بھی کیا جاتا ہے۔ مردوں سے دشمنی کا مظاہرہ کرنے کے لیے ان کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔ عورت سے دشمنی نکالنے کے لیے اس کی عزت و عصمت کو لوٹا جاتا ہے۔ مرد سے خواہ دوبدو لڑیں یا اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپیں اس کو گولیوں سے بھونیں یا سرقلم کریں، لڑیں ماریں یا مریں معاملہ الٹا بھی پڑسکتا ہے۔ مگر عورت کے مقابلہ میں مردانگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے تو کامیابی اور فتح یقینی ہوتی ہے خواہ اس کامیابی میں اپنی مردانگی، تہذیب اور انسانیت کا جنازہ ہی کیوں نہ نکل جائے۔
یہ اس عورت کی کہانی ہے جو کسی کی ماں ہے، تو کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن اور کسی کی دلبستگی کرنے والی بیوی بھی۔ یہ وہی عورت ہے جس نے اللہ کے رسول ﷺ کو دو سال دودھ پلایا تو دائی حلیمہ کے روپ میں زندہ و جاوید ہوگئی ۔ یہ وہی عورت ہے جس کو رام اور لکشمن سے بدلہ لینے کے لیے راون نے اغوا کیا اور اس کو واپس لانے کے لیے رام چندر جی نے لنکا کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ سونے کی لنکا کو جلاکر خاک کردیا۔ مگر اسی سیتا کو گھر لاکر اگنی پریکشا دینے پر مجبورکیا گیا اور جب اس سے بھی تسلی نہ ہوئی تو اس کو دھوکے سے بھیج کر جنگل میں تنِ تنہا حالات سے دوچار ہونے کے لیے چھوڑ دیا گیا اور پھر بھی اسی سیتا کو پوجا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ اس صنفِ نازک کے ساتھ ہر زمانہ میں ہوتا رہا ہے اور آج بھی ہورہا ہے۔
اسی سیتا کی سرزمین کی تو بات ہے نیشنل ویمن کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کے ۶۱۲ اضلاع میں سے ۳۷۸ یعنی نصف سے زائد اضلاع میں خواتین اور بچوں کو جنسی استحصال کے لیے اسمگلنگ اور اغوا کیا جاتا ہے۔ ان اضلاع میں ۱۷۹۴ ایسے مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے، جو جسم فروشی جیسے گھناؤنے اورغیر اخلاقی کاموں کے مراکز بنے ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں ۱۰۱۶ ایسے مقامات بتائے گئے ہیں جہاں پیشہ ورانہ جسم فروشی کا کاروبار ہورہا ہے۔ رپورٹ میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ کیرل ، آندھراپردیش اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں کے تمام اضلاع میں غیر اخلاقی حرکات کے لیے عورتوں اور بچوں کی اسمگلنگ ہوتی ہے۔ تمل ناڈو کے ۳۳ء۹۳ فیصد، اڑیسہ کے ۶۶ء۸۶ فیصد اور بہار کے ۴۸ء۸۶ فیصد اضلاع اس سنگین صورتِ حال سے دوچار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ملک میں ۱۵؍سال سے ۳۵؍سال تک کی عمر کی عورتوں کی کل آبادی میں سے ۴ء۲ فیصد عورتیں جسم فروشی میں ملوث ہیں۔ اور ملک بھر میں پیشہ ورانہ طور پر جسم فروشی کرنے والی عورتوں کی تعداد تقریباً ۲۸ لاکھ ہے۔ ان میں ۴۳ فیصد سے زیادہ عورتیں اس وقت نابالغ تھیں جب ان کو اس دھندے میں ڈالا گیا۔ ویمن کمیشن کا کہنا ہے کہ جسم فروشی کے ۵۰ فیصد سے زیادہ معاملوں کا سب سے بڑا سبب روزگار کے نام پر جھانسہ دینا ہے کہ عورتوں اور لڑکیوں کو نوکری، مزدوری اور روزگار کے وعدے کرکے ان کے گھر سے لایا جاتا ہے اور دور دراز کے شہروں میں انہیں اس گھناؤنی دلدل میں دھکیل دیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جسم فروشی سے وابستہ اور اس کے لیے اسمگلنگ کی گئیں ۲۲؍فیصد سے زیادہ عورتیں اور لڑکیاں ایسی ہیں جنہیں ان کے خاندان والوں نے ہی اس دھندے میں ملوث ہونے پر مجبور کیا۔ آٹھ فیصد عورتیں وہ ہیں جنھیں ان کے شوہروں اور سسرال والوں نے اس راہ پر چلنے پر مجبور کیا۔ جبکہ ۱۸؍فیصد کو ان کی سہیلیوں دوستوں یا پڑوسیوں نے لالچ دے کر اس دھندے میں ڈالا۔ اسی طرح پیشہ وارانہ جسم فروشی میں ملوث ۵۱؍فیصد سے زیادہ عورتوں کو ان کے گھر والوں یا سسرال والوں نے جسم فروشی کا پیشہ اختیار کرنے پر مجبور کیا۔رپورٹ میں اس امر پر سب سے زیادہ حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ جسم فروشی کے لیے ذمہ دار ۲۲؍فیصد لوگوں پر سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے کارروائی نہیں ہوپاتی ہے۔
رپورٹ میں جہاں مجبور کی گئی عورتوں کا فیصد بتایا گیا ہے وہیں دوسروں کے مجبور کیے بغیر اپنی ذاتی مجبوریوں کے تحت، اپنی خوشیوں سے یا عیش وعشرت کی زندگی گزارنے اور خود اپنی شہوانی خواہش کی تکمیل کے لیے اس دھندے میں پڑنے والی عورتوں کی تعداد اور فیصد بھی سامنے آتا ہے۔
فلموں میں عریانیت، فحاشی اور جنسی بے راہ روی کا مظاہرہ کرنے والی عورتوں اور لڑکیوں کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ یہ کسی جبر کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ محض دولت کی ہوس انہیں اس میدان میں کھینچ کرلے آتی ہے، جس کو وہ کوئی گناہ یا عیب بھی نہیں سمجھتیں بلکہ وہ بھی اس پر فخر کا اظہار کرتی ہیں۔ والدین اور اہلِ خاندان، رشتہ دار و اعزہ و اقربا بھی اس کا ذکر سینہ پھلا پھلا کر کرتے ہیں، یہاں تک کہ نیپال کے ایک وزیرِ اعظم کی صاحبزادی بھارت میں آکر جو کچھ کررہی ہیں یقینا ان کا دعویٰ یہی ہے کہ وہ اپنے خاندان کا نام اونچا اور روشن کررہی ہیں۔
اس سے بھی بڑھ کر مقابلۂ حسن کا معاملہ ہے جس میں مس نیشن اور مس ورلڈ کا انتخاب ہوتا ہے اور جن کا اہتمام حکومتیں کرتی ہیں۔ اس مقابلہ میں حصہ لینے والی لڑکیاں اسٹیج پرآکر کس طرح محض حسن وزینت ہی کا نہیں جسم کے ایک ایک عضو کی نمائش و مظاہرہ کرتی ہیں اور اس کے علاوہ پردہ کے پیچھے وہ کن مراحل سے گزرتی ہیں کوئی سربستہ راز نہیں ہے۔ اس صورتِ حال پر کوئی پردہ پڑا ہوا نہیں ہے کہ پردہ میں رہنے دیا جائے۔ اس سے تو پردہ پوری طرح اٹھا ہوا ہے اور سب کچھ بے پردہ ہے۔
کاروباری اداروں کے لیے جس طرح لڑکیاں اشتہارات کی غرض سے جسم کی نمائش کرتی ہیں آواز کی دلکشی کا مظاہرہ کرتی ہیں، ٹیلیفون اور موبائل سروس پر دل بہلانے کے لیے وہ جو کچھ کرتی ہیں اور اب مساج پارلر کے نام پر جو کچھ ہورہاہے، یہ سب کچھ کسی مجبوری کے تحت تو نہیں کیا جاتا کہ عیش و عشرت کے سامان اور ہوس کی تکمیل کو مجبوری قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جہاں ایک ایک دن میں سیکڑوں یا ہزاروں نہیں لاکھوں کے سودے ہوتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ لڑکیاں اپنی خوشی اور مرضی سے کرتی ہیں۔ لڑکیاں کس قسم کے لباس استعمال کرتی ہیں اور کس طرح فیشن و سج دھج کے ساتھ گھر سے نکلتی ہیں یہ سب کچھ ان کے ماں باپ، بھائی بہنوں، اعزا و اقربا،رشتہ داروں، شوہر اور سسرال والوں کے دیکھتے ، ان کی نظروں کے سامنے اوران کی رضا مندی و مرضی سے ہوتا ہے۔
عورت کی یہ حالتِ زار خواہ اس کی مجبوری کے نتیجے میں ہو، دوسرے کے ظلم و زیادتی، جبر واستبداد سے ہو یا اس کی اپنی بے راہ روی سے، بہرحال اس کا استحصال ہی ہوتا ہے۔ اس کی عفت و عصمت پامال ہوتی ہے اس کی عزت لٹتی ہے۔ جو اس کا جوہر اور سب سے قیمتی شے ہے، جو دولت سے پھر واپس حاصل نہیں کی جاسکتی۔ ایک بار گئی ہوئی پاکدامنی پھر کسی بھی قیمت پر واپس نہیں آتی۔
آزادیِ نسواں اور حقوقِ نسواں کے نعرے لگانے والوں نے اس کے استحصال کے مختلف طریقے ایجاد کررکھے ہیں۔ ان کا کہنا ہے اس کو اپنی عزت لٹانے کا حق ہے۔ عفت و عصمت اس کی اپنی چیز ہے چاہے اس کو برقرار رکھے یا لٹاتی پھرے، اس کو اس کی آزادی ہے۔ یہ کوئی گناہ نہیں کوئی جرم یا برائی نہیں، البتہ کوئی زبردستی چھینے یا لوٹے تو اس کا جرم ہوگا۔
دیکھا یہ گیا ہے کہ ایسے نعرے لگانے والے عورت کو بہلا پھسلا کر اس کی عزت و عصمت لوٹنے والے ہوتے ہیں، وہ خود بدکردار ہوتے ہیں، اپنی پیاس بجھانے کے لیے یہ پرفریب باتیں کرتے ہیں، اور عورت کی عزت سے کھلواڑ کرتے ہیں۔ جب ان کی بہن یا بیٹی کسی کے ساتھ چلی جاتی ہے تو خواہ وہ کتنے ہی آزاد خیال کیوں نہ بنتے ہوں، اپنی عزت لٹ جانے کی دہائی بہت ہی زور و شور سے پیٹتے ہیں۔ جس قانون کو دوسروں کے معاملے میں ڈھال بناتے ہیں اپنے معاملے میں اس کو پوری طرح مسترد کردیتے ہیں۔ پھر بالغ لڑکی کو آزادی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ یہ خاص طور سے مردوں کی منافقت اور خود غرضی ہے ان کا پیمانہ اپنے لیے کچھ اور دوسروں کے لیے اور ہوتا ہے۔
معاشرہ میں مرد اپنے اوپر کوئی پابندی لگانا نہیں چاہتا۔ وہ خود کو تمام حدود سے بالاتر رکھنا چاہتا ہے اور تمام قیود سے آز اد سمجھتا ہے۔ خود عورت کی عزت پامال کرتا ہے جبراً بھی، مکرو فریب سے بھی اور طاقت ودولت کے بل پر بھی۔ وہ خود پاکدامنی کی پرواہ نہیں کرتا حالانکہ عزت و عفت اور عصمت و پاکدامنی اس کی بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے، جتنی کہ عورت کی لیکن مردوں کے غلبہ والے سماج نے اپنے لیے قوانین و روایات دوسرے بنائے ہیں اور عورت کے لیے دوسرے۔ عورت کی پاکدامنی کا معاملہ ہو تو اس کو داغدار قرار دے کر رسوا و ذلیل کرڈالتا ہے، جبکہ اپنے ہم جنس مرد کے بارے میں ایسی کوئی بات نہیں کرتا۔ اس کے برخلاف اسلام نے زانی اور زانیہ دونوں کو ایک ہی زمرے میں رکھا ہے۔ دونوں کو برابر گنہگار اور مجرم قرار دیا ہے۔ دونوں کے لیے یکساں سزا مقرر کی ہے۔
ان حالات میں خود عورت کے حق میں بھی یہی بہتر ہے اور اسی میں اس کی بھلائی ہے، کہ وہ ہر لحاظ سے اپنی عزت کی حفاظت کرے، نہ آزادیِ نسواں اور حقوقِ نسواں کے نعرے لگانے والوں کے فریب میں آئے، نہ ان کو جبر وزیادتی کا موقع دے۔ کہ برسوں عزت لٹاتی رہے اور پھر اس کو بے وفا قرار دے کر کہے: ’’اس نے شادی کا وعدہ کرکے نوکری دلانے کا وعدہ کرکے یا دوسرے جال بجھا کر جسمانی تعلق قائم کیا تھا۔‘‘ آخر اس کے خفیہ اور تنہائی کے وعدوں پر یقین کرکے اپنی عزت اس کے ہاتھوں لٹانے کے لیے کیوں تیار ہوگئی؟ سماج کے سامنے، علانیہ اقرار و وعدہ کیوں نہیں کرالیتی؟ جسے پورا معاشرہ تسلیم و قبول کرلے؟