خواتین کی آزادی، مساوات اور یکساں مواقع کی اس دنیا میں کیا خواتین خوش اور مطمئن ہیں اور ان دعووں، عملی کوششوں اور قانونی ترجیحات کے باوجود کیا خواتین کے لیے لوگوں کی سوچ بدلی ہے؟ کیا انہیں عزت و وقار حاصل ہوا ہے اور کیا لوگ ان کے دل میں خواتین کے لیے احترام اور عزت کا جذبہ پیدا ہوا ہے؟
دنیا بھر میں اس محاذ پر بڑی کوششیں ہو رہی ہیں۔ سیاست و معیشت اور تعلیم و روزگار کے میدان میں ان کے لیے ترجیحی طور پر مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔ رزرویشن دیا جا رہا ہے اور آگے بڑھنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ اس کام کے لیے عالمی قوانین ترقی پذیر ممالک میں ایسی سماجی اور قانونی تبدیلیاں کرا رہی ہیں جو خواتین کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرسکیں اور مرد کی بلادستی والے سماج کا خاتمہ کر کے ایسے سماج کی صورت گری ممکن ہوسکے جس میں عورت کو ’’آزادی‘‘ ہو اور اُسے قانونی اعتبار سے مرد سے زیادہ تحفظات حاصل ہوں۔
ایک طرف یہ صورتِ حال ہے۔ دوسری طرف میٹرو پولیٹن شہروں سے لے کر دیہی ہندوستان تک میں خواتین کے خلاف جرائم، استحصال اور تشدد کے واقعات میں اضافہ کے اشارے مل رہے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال ضرور کچھ لوگوں کے ذہن میں اٹھتا ہے کہ آخر ایسا کیوں کہ تمام کوششوں اور تمام عملی وقانونی تحفظات کے باوجود ہمارے سماج میں عورت ’محفوظ اور مامون‘ کیوں نہیں ہو پا رہی ہے۔ خرابی اور کمزوری عملی و قانونی تحفظات میں ہے یا اس نظریے اور سوچ میں جو آج کی خواتین کے لیے تحریک اور Motivation ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ موجودہ زمانے میں اسی نظریہ آزادی و مساوات کے ’صدقے‘ خواتین میں نوکریوں اور روزگار کا رجحان بڑھا ہے اور وہ بھی اب دفتروں، کارخانوں اور کارپوریٹ ہاؤسز میں مرد کے شانہ بہ شانہ کام کر رہی ہیں۔ اس کے پیچھے کہیں تو غربت و حاجت مندی ہے اور کہیں دولت کمانے اور اپنے آپ کو ثابت کرنے کا جذبہ کارفرما ہے۔ مگر نتائج دونوں کے لیے یکساں ہیں۔ ان جگہوں پر خواتین آئیں تو مردوں کے ذریعے ان کا استحصال شرو ع ہوگیا۔ ہراسانی، فقرے بازی، ذہنی و نفسیاتی اذیت اور بالآخر جنسی استحصال کے واقعات عام ہونے لگے اور کام کی جگہوں پر خواتین کے تحفظ پر سوال اٹھنے لگے۔ پھر قوانین اور ضوابط بنے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے۔ مگر ان تمام کے باوجود انہیں تحفظ نہ ملنا تھا اور نہ مل سکا۔ کیوں کہ بنیادی اور نظریاتی طور پر جن لوگوں نے یہ نعرۂ دلفریب دیا تھاوہ خود عورت کو استحصال کی ہی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ چناں چہ خواتین کے لیے یکساں روزگار کے یہ مقامات خواتین کے استحصال کی ایک شکل میں تبدیل ہوگئے۔ اور یہ بات واقعات اور حادثات سے بھی ثابت ہوتی ہے اور اعداد و شمار سے بھی۔
قومی خواتین کمیشن کی تحقیق
کام کاجی خواتین کے استحصال کی خبروں سے بھرے اخبارات اور ملکی میڈیا میں سنسنی پھیلاتی خواتین سے متعلق خبرین ایک طرف۔ لیکن کچھ ایسے بھی حادثات ہیں جو خبر نہیں بن پاتے۔ انہی میں سے کام کی جگہوں پر جاری خواتین کا استحصال اور ان پر ذہنی و نفسیاتی تشدد ہے۔ یہ بات ’’سوشل ایکشن فورم فار ہیومن رائٹس‘‘ کی ایک تحقیق میں سامنے آتی ہے۔
مذکورہ ادارے کی تحقیق کا نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ وہ تمام مقامات جہاں خواتین مردوں کے ساتھ کام کرتی ہیں وہ خواتین کے لیے محفوظ مقامات نہیں ہیں۔ ’نیشنل کمیشن فار وومن کے ذریعے کرائے گئے مذکورہ ادارہ کے مطالعہ سے یہ سنسنی خیز بات سامنے آتی ہے دس میں سے چار یعنی 40% خواتین اپنے کام کے دوران دو سے تین مرتبہ جنسی استحصال کا شکار ہوئیں۔ ان میں سے 13% خواتین نے خود کشی کی کوشش کی۔ یہ مطالعہ ملک کے اہم اور بڑے شہروں کی خواتین پر کیا گیا۔ مطالعے کے نتائج مزید آگاہ کرتے ہیں کہ 96.6 فیصد خواتین بھونڈے مذاق اور طنزیہ فقروں کے سبب ذہنی تناؤ کا شکار رہتی ہیں جب کہ 99 فیصد خواتین اپنے ساتھیوں پر اعتماد نہیں کرتیں۔ ان کام کاجی خواتین میں سے 80 فیصد نے یہ تسلیم کیا کہ محفوظ ماحول نہ ہونے کے سبب ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ جن خواتین سے سوالات پوچھے گئے ان میں سے 67 فیصد نے یہ شکایت کی کہ ان کے کام کی جگہ پر کوئی خواتین سیل نہیں جہاں وہ اپنی شکایت لے کر جائیں۔
جس مساوات کو مغرب کی فکری غلام حکومتیں اور ادارے اپنی کامیابی کے طور پر گناتے اور اس میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو شامل کرنا چاہتے ہیں وہاں لوگوں کی اخلاقی صورتِ حال کیا ہے اور وہ خواتین کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں اس کا اندازہ لگانے کے لیے درج ذیل باتیں کافی ہیں۔
۱- 96.3% خواتین کو گندی تصاویر اور قابل اعتراض مناظر جبراً دکھائے گئے۔
۲- 91.5% خواتین جنسی تعلق بنانے لیے دباؤ ڈالا گیا۔
۳- 83.6% کام کرنے والی خواتین کو ذو معنی الفاظ اور بھونڈے مذاق کا سامنا ہوتا ہے۔
۴- 67.6% خواتین کو مالی منفعت کا لالچ دے کر غلط کاری کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔
۵- 14.6% خواتین کو مذہب طبقہ اور جنس کی بنیاد پر ہونے والے بھید بھاؤ کا سامنا ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ سب کچھ اس صورت میں ہو رہا ہے جب کہ خواتین کے کام کی جگہوں پر ان کے جنسی استحصال کو روکنے کے لیے باضابطہ قانون موجود ہے۔ اور سپریم کورٹ 1997 میں اس صورت حال کے مقابلے کے لیے واضح ہدایات اور رہنمائی دے چکا ہے۔
یہ اعداد و شمار کارپوریٹ دنیا کی حالت کو بیان کرتے ہیں جس کے بارے میں عام تصور یہ ہے کہ وہاں ملک کا پڑھا لکھا اور مہذب طبقہ رہتا ہے جو اپنے لباس اور معیارِ زندگی میں ’بڑا شریف‘ نظر آتا ہے۔ مگر اس خوش لباسی اور ظاہری شرافت کے پیچھے جو سوچ ہے وہ بڑی تاریک اور گندی ہے۔ وجہ صاف ہے کہ پورے سماج میں کہیں بھی خواتین کے لیے عزت و احترام کا جذبہ اور سوچ نظر نہیں آتی۔ چناں چہ جب عام سماج پر نظر ڈالتے ہیں تو صورتِ حال اور خراب نظر آتی ہے۔ اور یہ کیفیت شہری ہندوستان کی ہے جہاں ملک کا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ، مہذب تصور کیا جانے والا اور خوش حال طبقہ رہتا ہے۔
اب آپ ملک کی راجدھانی ہی کو دیکھ لیجیے، گزشتہ دسمبر میں ’’گینگ ریپ‘‘ کے حادثہ کے بعد 181 خواتین ہیلپ لائن شروع کی گئی اس ہیلپ لائن کے صرف ۳۰ جون تک کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہاں اصلاً خواتین کی حالت کیا ہے۔ دیکھئے گزشتہ چھ ماہ میں خواتین کے ساتھ چھیڑ خوانی کے اعداد و شمار۔
جنوری : 58239
فروری : 32046
مارچ : 34609
اپریل : 49579
مئی : 50346
جون : 67318
چھیڑ خوانی کے یہ اعداد و شمار عام انسانوں کے لیے خوف زدہ کردینے والے اور اہل عفکر و نظر کو تشویش میں ڈالنے والے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس سلسلے میں کیاکیا جاسکتا ہے۔ آئے دن قوانین بن رہے ہیں۔ پرانے قوانین کو سخت کیا جا رہا ہے مگر حالت میں بہتری کہیں نظر نہیں آتی۔ وجہ صاف ہے۔ جس تیزی سماج کو مغربی تہذیب کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش ہو رہی ہے اس کے یہی نتائج نکلنے ہیں۔ یہ کوئی دعویٰ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ اس کے لیے دلیل کے طور پر پورے مغرب کو خاص طور پر ان کے نمائندے امریکہ کو پیش کیا جاسکتا ہے جہاں خواتین کے خلاف جرائم ناقابل تصور ہیں اور جہاں خواتین اپنی آزادی اور مساوات کی معراج سے بہرہ ور ہیں۔
میڈیا، جس کی باگ ڈور مغربی دنیا یا ان کے فکری غلاموں کے ہاتھ میں ہے، اس کا مبلغ ہی نہیں خود استحصالِ نسواں کا مضبوط آلہ کار ہے۔ الیکٹرانک میڈیا جس کی سب سے مقبول شکل ٹی وی ہے عریانیت، فحاشی اور جنسی انارکی ایک طرف تو تبلیغ کر رہا ہے دوسری طرف ایک ایسا پلیٹ فارم بن گیا ہے جہاں خواتین کا جنسی و جسمانی استحصال ہوتا ہے۔
’جین کل بورن‘ مغربی دنیا کے مشہور و معروف سماجی کارکن ہیں جو میڈیا میں خواتین کے استحصال کے خلاف مہم چھیڑے ہوئے ہیں ان کا کہنا ہے ’’ایک عام ٹی وی دیکھنے والا آدمی روزانہ 2000سے زیادہ اشتہارات دیکھتا ہے وہ اشتہارات جو لوگوں کو آگاہ کرنے کا اہم ذریعہ ہیں لیکن ان میں اکثر جنس کی بنیاد پر عورت کا استحصال ہوتا ہے۔ عورت کو ان اشتہارات میں ایک ایسی ’’شے‘‘ (Comodity) کی شکل میں دکھایا جاتا ہے جو مردوں کی جنسی خواہش کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔
جین کل بورن نے جس حقیقت کی طرف نشان دہی کی ہے وہ استحصالی ذہنیت ہے جو اَب پوری دنیا میں خواتین کے خلاف کام آرہی ہے۔ مگر خیر خواہ بن کر اور عورت کی براہِ راست بدخواہی کے بجائے دوستی اور خیر خواہی کا لبادہ اوڑھ کر۔ ایسے میں اس لبادہ کو اتار پھینکنے کی اور اس کے اندر چھپے استحصالی نظریات کو دیکھنے اور پہچاننے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ان خواتین کے لیے اس استحصالی نظریہ کا فہم ضروری ہے جو عورت کے لیے اسلام کے عطا کردہ نظریہ احترام کی قائل اور اس کی مبلغ ہیں۔