خواتین کے خلاف جنسی تشدد کا ایک اور واقعہ

شمشاد حسین فلاحی

دنوں حیدر آباد کی ویٹرنری ڈاکٹر کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ انتہائی بدبختانہ، شرم ناک اور تشویش ناک تھا۔ ایک خاتون کے دامن عصمت کو تار تار کر کے اسے زندہ جلا دیا گیا۔ اس سانحے پر پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا اور ملک کے ہر حصے میں اس درندگی کے خلاف شدید احتجاجات ہوئے۔ اگرچہ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا اور ملک کے اخبارات میں تقریباً روزانہ اس قسم کی خبریں شائع ہوتی ہی رہتی ہیں جو اپنے آپ میں خود افسوس ناک اور تشویش ناک ہیں مگر اس حیوانیت نے لوگوں کو سڑکوں پر اترنے کے لیے مجبور کر دیا کہ اب وہ یہ درندگی برداشت نہیں کریں گے۔ اس شدید عوامی احتجاج سے مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتیں شدید دباؤ میں آگئی تھیں اور امید کی جاتی تھی کہ ملکی نظام اور قانون میں شاید کچھ اصولی تبدیلیاں ہوں، جو خواتین کے خلاف اس بڑھتی حیوانیت پر کچھ روک لگا سکیں۔ اس سے پہلے ۲۰۱۲ میں نربھیا معاملے میں بھی اسی طرح کی صورت حال د یکھنے کو ملی تھی۔ پھر کشمیر کی معصوم بچی آصفہ کی درد ناک داستان بھی عوام کو معلوم ہے اور اگر قارئین اپنے حافظہ پر تھوڑا سا زور دیں تو ان کو یہ بھی یاد آجائے گا کہ اس کے پیچھے کے درندے کون تھے اور پھر واقعات کا تسلسل قائم ہوجائے گا۔ گزشتہ دنوں کے حیدر آباد حادثہ نے عوام کے غم و غصہ کو جس طرح کھولا دیا تھا اس کے نتیجے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت قانون و انتظام کے سلسلے میں غور و فکر کرتی اور اس نظام میں کلیدی تبدیلیوں کا خاکہ بناتی اور سابقہ تجربات کی بنیاد پر ظالم کو ظلم کی سزا اور مظلوم کو انصاف فراہم کرنے کے لیے سنجیدگی سے سوچتی مگر اس نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ ایسی چال چلی کہ عوام کا غصہ اسی طرح بیٹھ گیا جیسے ابلتے کڑھاؤ میںبالٹی بھرٹھنڈا پانی ڈال دیا جائے۔

اس وقت ملک میں خواتین کے خلاف جنسی جرائم کا بڑھتا گراف ہر ہندوستانی کو تشویش اور پریشانی میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔تشویش کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ ملک میں خواتین کے خلاف جنسی جرائم کا گراف تیز رفتاری کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور یہ بات ملک کے سرکاری اعداد و شمار بھی کہہ رہے ہیں اور ملک خود اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ بھی رہا ہے اور محسوس بھی کر رہا ہے جب کہ جنسی جرائم میں انصاف کا عمل سست، غیر فعال اور بعض لوگوں کے نزدیک ناکام ہو رہا ہے اور اس کی دلیل کے طور پر وہ ان اعداد و شمار کو پیش کرتے ہیں جو خود حکومتی اداروں ہی کے فراہم کردہ ہیں۔ یہ اعداد و شمار جرائم کے واقعات اور ان کے ٹرائل کے نتیجے میں ملنے والی سزا سے متعلق ہیں جو لوگوں کے لیے مایوس کن بھی ہیں اور ان کے اعتماد کو نقصان پہنچانے والے بھی۔ جنسی جرائم کے خاطیوں اور مجرمین کی بڑی تعداد عدالتی کاروائیوں کے دوران بری ہوجاتی ہے اور اس کا تناسب وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۱۹۷۳ میں اس طرح کے مجرمین کو سزا ہونے کا تناسب 44.3 فیصد تھا جو ۲۰۱۶ تک آتے آتے گھٹ کر محض 25.5فی صد رہ گیا جو اپنے آپ میں مایوس کن ہے۔ اس میں اگر بااثر مجرمین کو بھی جوڑ لیا جائے تو وہ عوام کے لیے نہایت مایوس کن ہے جہاں سیاست کے ایوانوں کے ممبر افراد تک اس جرم میں ملوث پائے گئے ہیں۔ تشویش اور پریشانی اس بات پر ہے کہ ان کی ان بیٹیوں کا جن کو وہ پال پوس کر بڑا کر رہے ہیں مستقبل کس قدر غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے۔ چند سال کی معصوم بچیوں سے لے کر اناؤ کی بیٹی اور پھر حیدر آباد کی ڈاکٹر خاتون تک محفوظ نہیں۔ ایسے میں ہر حساس اور باشعور انسان یہ ضرور سوچے گا کہ وہ کس طرح کے ہندوستان میں رہنے والا ہے۔ ادھر دوسری طرف ہمارے ملک کی عالمی سطح پر جو شناخت بن رہی ہے اور لوگوں کا خواتین کے خلاف جنسی جرائم کو لے کر جو تاثر قائم ہو رہا ہے وہ بہ حیثیت قوم ہمارے لیے شرم ناک ہے اور بہ حیثیت شہری پریشان کن اور تشویش ناک۔ شاید اسی قسم کے جذبات و احساسات کا اظہار کرنے کے لیے پانچ چھ سالہ بیٹی کا ایک باپ اسے گود میں لیے انڈیا گیٹ پر احتجاج کرنے کے لیے آیا تھا جس سے پولیس والے کھینچ تان کر رہے تھے اور اس کی بیٹی چیخ و پکار کر رہی تھی۔ وہ دل دوز منظر ٹی وی کی اسکرین پر جس نے بھی دیکھا ہوگا، ضرور متاثر ہوا ہوگا۔

اس حادثے کے بعد عوام کی جانب سے ملک بھر میں جو احتجاج کی لہر اٹھی اور عوام نے جس غصہ کا اظہار کیا وہ عین فطری اور بنیادی انسانی اور اخلاقی و قانونی اقدار کے مطابق ہے اور یہ ایک طرف تو ملک کے شہریوں کا حق ہے دوسری طرف ان کا فریضہ بھی ہے کہ وہ جس ملک و نظام میں رہ رہے ہیں اس کو چست درست بنائے رکھنے اور بہتر بنانے کا حکومتوںسے مطالبہ کریں کیوں کہ اس نظام اور قانون کی بہتر کارکردگی ہی ان کے بہتر اور محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے۔ لیکن یہ بات بھی ہمارے ذہن میں رہنی چاہیے کہ ملکی نظام و قانون کو بہتر اور چست درست بنائے رکھنا اور اس کا پوری اسپرٹ اور ذمے داری کے ساتھ نفاذ کہ قانون کی نظر میں ظالم و مظلوم یکساں ہوں اور مظلوم خواہ وہ کتنا بھی بے اثر ہو بر وقت انصاف سے محروم نہ رہ جائے۔ اسی طرح ظالم خواہ کتنا ہی بااثر ہو ظلم کے انجام اور سزا سے کسی صورت بچ کر نہ نکل سکے، اس کے لیے حکومتوں کو اپنی سوچ اور اپنے غم و غصہ سے آگاہ کرنا تمام شہریوں کی اجتماعی ذمے داری ہے اور اس ذمے داری کو انجام دیے بغیر ہم ایسے ملک میں رہنے کا تصور نہیں کرسکتے جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور شہریوں کا مستقبل محفوظ رہ سکے۔ جہاں حکومت کو اس کی ذمے داری یاد دلانا اہم ہے وہیں ملک کے شہری کی حیثیت سے ہماری بھی کچھ ذمے داریاں اور فرائض ہیں جن کی انجام دہی کے بغیر ہم حکومتوں سے بہتری کی امید نہیں کرسکتے۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ بہ حیثیت شہری، بہ حیثیت ماں باپ اور بہ حیثیت باشعور سماج کے فرد ہمیں کیا کچھ کرنا چاہیے۔

بحیثیت باشعور شہری جہاں ہماری ذمے داری اہم ہے وہیں بہ حیثیت والدین اور سماج کے فرد ہمیں اپنے معاشرے میں ایک ایسی باشعور اور ذمے دار نسل کو پروان چڑھانے سے ایک لمحہ کے لیے بھی غافل نہیں ہونا چاہیے جو نہ صرف سماج میں خود کسی کے لیے تکلیف اور پریشانی کا باعث نہ بنے بلکہ بلند انسانی سماجی اور معاشرتی و اخلاقی اقدار کو اپنی زندگی میں برتنے والی ہو۔ اس کی سوچ اور فکر کی اٹھان ایسی ہو کہ وہ اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں برائی سے نفرت کرنے والی اور اس کی بیخ کنی کا جذبہ بھی اپنے اندر رکھتی ہو۔ اس سوچ اور فکر کو ہم ہندوستانی تہذیب کے تناظر میں ’’اچھے سنسکار‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔

اس طرح کے جرائم کرنے والوں کی سوچ اور فکر کیسے اور کیوں پروان چڑھتی ہے، اس سے ہم سب واقف ہیں۔ دراصل یہ نتیجہ ہے ہماری اس ناکامی کا جو بہ حیثیت والدین ہمارے حصے میں قومی سطح پر آتی ہے۔ اسباب اور وجوہات کا ذکر ہو تو اس کا بیان الگ الگ انداز میں کیا جاسکتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ نشہ اور شراب کی وجہ سے ہوا ہے کہ مجرمین نشہ میں تھے۔ ہاں ہوسکتا ہے مگر شراب اور نشہ کی لت سے اپنی اولاد کو محفوظ رکھنا بھی ہماری ہی ذمے داری ہے اور اس ذمے داری کو محض قانون اور حکومتیں ادا نہیں کرسکتیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ملک میں اعلیٰ ترین اقدار واخلاق کے تعارف اور انہیں نئی نسل کے ذہن و فکر میں اتارنے کی سوچ سماج میں بڑے پیمانے پر پھیلانے اور آگے بڑھانے کی ہمہ جہت کوشش ہو، اس میں ہم اپنے گھر سے حصہ داری شروع کریں۔ ہمارے بیٹے اگر برائیوں سے محفوظ ہوگئے تو بہ حیثیت قوم ہماری بیٹیاں بھی ان کے شر سے محفوظ ہوجائیں گی۔ نئی نسل کی اس اخلاقی تربیت میں گھر، سماج تعلیمی اداروں اور سماجی خدمت کے اداروں کے ساتھ ساتھ اگر حکومتی سطح کا تعاون بھی شامل ہوجائے تو ہم مل کر بہت قلیل مدت میں اس صورت حال کو کنٹرول کرسکتے ہیں۔ بہ صورت دیگر ہماری کوششوں کی حیثیت شاخیں تراشنے اور جڑوں کو پانی دینے سے زیادہ نہ ہوگی۔۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں