خواتین کے فقہی سوالات

ادارہ

س: اگر میں نے بحالت وضو اپنے بچے کی نجاست دو رکی تو کیا میرا وضو ٹوٹ جائے گا۔ (صالحہ انور، علی گڑھ)

ج: جس نے دوسرے کی شرم گاہ شہوت کے ساتھ چھوئی اس کا وضو ٹوٹ گیا۔

لیکن بلاشہوت ہاتھ لگانے کے بارے میں اختلاف ہے، راجح یہ ہے کہ صفائی کی خاطر بچے کی شرم گاہ چھونے سے وضو نہیں ٹوٹے گا، کیوں کہ یہ شہوت کا مقام نہیں ہے او ریہ ایک عام ضرورت ہے اور اس سے وضو ٹوٹنے میں حرج اور مشقت کی بات ہے، اگر اس سے وضو ٹوٹتا تو صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد لوگوں سے یہ بات مشہور و معروف ہوتی۔ (شیخ ابن باز)

س: میں نے ایک عالم سے سنا ہے کہ اگر وضو کے وقت جلد پر تیل لگا ہوا ہو تو وضو نہیں ہوگا، اگر یہ صحیح ہے تو کبھی کبھی پکانے کے وقت تیل کے کچھ چھینٹے میرے بال اور اعضائِ وضو تک پہنچ جاتے ہیں، تو کیا ایسی حالت میں وضو یا غسل سے پہلے ان اعضا کو صابن سے دھونا ضروری ہے تاکہ وہاں تک پانی پہنچ سکے، اسی طرح میں بطور علاج اپنے بالوں میں تیل استعمال کرتی ہوں تو اس کا کیا حکم ہے؟ (شیریں اختر، دہلی)

ج: جواب دینے سے پہلے میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ کو اور ہاتھ کہنیوں تک دھولو، اور اپنے سر کا مسح کرو، اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک دھولو۔‘‘ (المائدۃ:۶)

اس آیت کے اندر ان اعضا کے دھونے او رمسح کیے جانے والے اعضا (سر، کان سمیت) کے مسح کا حکم اس بات کا متقاضی ہے کہ جو چیز بھی اعضائِ وضو تک پانی پہنچنے سے مانع ہو اسے زائل کیا جائے، کیوں کہ اگر کوئی چیز جلد تک پانی پہنچنے سے مانع ہے تو گویا ان اعضا کا دھونا ہی نہیں ہوا۔

بنابریں ہم کہیں گے کہ اگر انسان اپنے اعضائِ وضو میں تیل (یا کریم) استعمال کرے اور وہ جم جائے تو ضروری ہے کہ وضو کرنے سے پہلے اس کا ازالہ کرے، کیوں کہ اگر تیل باقی رہ جائے یا جم جائے تو جلد تک پانی پہنچنے میں رکاوٹ بنے گا اور اس صورت میں وضو درست نہ ہوگا۔ لیکن اگر تیل یا کریم اتنا گاڑھا نہیں کہ منجمد ہوسکے بلکہ صرف اس کا اثر اعضائِ وضو پر باقی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اس حالت میں انسان کو پختہ یقین کرلینا چاہیے کہ اپنے ہاتھوں کو اعضاء وضو پر پھیر چکا ہے، کیوں کہ عموماً تیل کے ساتھ پانی الگ ہو جاتا ہے اور بسا اوقات تمام اعضاء وضو تک پانی پہنچ نہیں پاتا کہ اس کی طہارت ہوسکے۔

لہٰذا سائلہ سے ہم کہیں گے کہ اگر یہ تیل اتنا گاڑھا ہو کہ اعضاء وضو پر منجمد ہو کر جلد تک پانی پہنچنے میں رکاوٹ بن رہا ہے تو وضو کرنے سے پہلے اس کا ازالہ ضروری ہے او راگر وہ جسم پر بالکل منجمد نہیں تو آپ کو صرف وضو کرلینے میں کوئی حرج نہیں، صابن سے اس کو دھونے کی ضرورت نہیں، البتہ اس عضو کو دھوتے وقت اس پر اپنا ہاتھ پھیر لیں تاکہ اس جگہ سے پانی پھسل نہ جائے۔ (شیخ ابن عثیمین)

س: میری ایک سہیلی وضو کے وقت چہرے اور ہاتھوں کو صابن سے دھوتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس سے وضو احسن ہوتا ہے، اس سلسلہ میں کیا حکم ہے؟ (فرحت رحمن، مراد آباد)

ج: وضو میں ہاتھوں اور چہرے کو صابن سے دھونا مشروع نہیں ہے، بلکہ وہ ایک طرح کا تشدد اور غلو ہے، نبیؐ سے ثابت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:

’’غلو اور تشدد کرنے والے ہلاک ہوگئے، غلو اور تشدد کرنے والے ہلاک ہوگئے۔ آپؐ نے یہ تین مرتبہ فرمایا۔‘‘

ہاں اگر ہاتھوں میں میل کچیل لگی ہو جو صابن یا اس جیسی دوسری صاف کرنے والی چیزوں ہی سے زائل ہوسکتی ہے تو ایسی صورت میں اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں، لیکن عام حالتوں میں صابن استعمال کرنا ایک طرح کا غلو اور بدعت ہے، لہٰذا اس کا استعمال نہ کیاجائے۔ (شیخ ابن عثیمین)

س: ہماری یہاں لوگوں میں یہ خیال عام ہے کہ بیوی وفات کے بعد اپنے شوہر پر حرام ہو جاتی ہے، نہ تو ا سکی طرف دیکھنا جائز ہے او رنہ قبر میں اتارنا، کیا یہ صحیح ہے؟ (شمائلہ خان، رام پور)

ج: شرعی دلائل سے ثابت ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ بیوی اپنے شوہر کو غسل دے اور دیکھے اور اسی طرح کوئی حرج نہیں کہ مرد اپنی بیوی کو غسل دے اور اس کو دیکھے، اسماء بنت عمیسؓ نے اپنے شوہر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو غسل دیا تھا، اور فاطمہؓ نے وصیت کی تھی کہ ان کو (ان کے شوہر) علیؓ غسل دیں گے، واللہ ولی التوفیق۔ (شیخ ابن باز)

س:ہمارے محلے میں ایک مولانا رہتے ہیں وہ مدرسے کے فارغ ہیں، گزشتہ دنوں ان کے والد صاحب کا انتقال ہوا تو انہوں نے گھرکی عورتوں کو بھی نماز جنازہ پڑھوائی او رپھر مردوں نے ایک نماز جنازہ پڑھی۔ اس کا کیا حکم ہے؟ (ا ب ج)

ج: نماز جنازہ مردوں اور عورتوں کے لیے مشروع ہے کیوں کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’من صلی علی الجنازۃ فلہ قیراط، و من تبعھا حتی تدفن فلہ قیراطان، فیا رسول اللہ وما القیراطان؟ قال: جبلین عظیمین یعنی من الاجر‘‘ (۱۱۲)

’’جس نے نماز جنازہ پڑھی اس کے لیے ایک قیراط ثواب ہے او رجو دفن ہونے تک جنازہ کے ساتھ رہا اس کے لیے دو قیراط ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا اے اللہ کے رسول! دو قیراط کیا چیز ہے؟ جواب دیا کہ دو بھاری پہاڑ کے برابر، یعنی ثواب۔

لیکن عورتوں کو جنازے کے ساتھ قبرستان نہیں جانا ہے۔ کیوں کہ یہ ان کے لیے ممنوع ہے، اس کی دلیل ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی وہ روایت ہے جس میں وہ کہتی ہیں:

’’ہمیں جنازوں کے ساتھ جانے سے منع کیا گیا او رہم پر (اس بارے میں) سختی نہیں کی گئی۔

البتہ نماز جنازہ پڑھنا عورت کے لیے ممنوع نہیں ہے خواہ یہ نماز جنازہ مسجد میں ہو یا گھر میں یا عیدگاہ میں، عورتیں مسجد نبوی میں نبیؐ کے ساتھ نماز جنازہ پڑھتی تھیں اور آپؐ کے بعد بھی، ہاں قبروں کی زیارت مردوں کے لیے خاص ہے جیسے کہ جنازہ کے ساتھ قبرستان جانا (ان کے لیے خاص ہے)، کیوں کہ رسول اللہﷺنے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے اس کے اندر حکمت واللہ اعلم۔ ان کے جنازوں کے ساتھ جانے اور قبروں کی زیارت کرنے سے ان کی طرف سے اور خود ان پر فتنہ کا اندیشہ ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا:

’’ میں نے اپنے بعدمردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ کوئی فتنہ نہیں چھوڑا۔‘‘

(شیخ ابن باز)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں