خواتین کے لیے مساوات اور مواقع

فاروق احمد انصاری

مواقع کے لغوی معنی ہیں،’’وقت یا حالات کا ایک مجموعہ جس سے کچھ کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ـ‘‘ لہٰذا اگر ہم اس نظریے کی جانچ کرنا چاہیں کہ آیا آج کی خواتین کو یکساں مواقع مل رہے ہیں تو ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت مردوں کے مقابلے میں ان کے لئے حالات سازگار ہیں یا نہیں؟
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو خواتین ہمیشہ ہی معاشرے میں پسماندہ رہی ہیں، تاہم اب حالات بدل رہے ہیں۔ ترقی یافتہ اور ترقی پِید دونوں ہی طرح کے ممالک میں زیادہ سے زیادہ خواتین کو بااختیار بنانے کی راہ ہموار ہورہی ہے، جس کے اثرات ترقی پذیر ممالک میں بھی دیکھے جارہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صنفی عدم مساوات، مساوی تنخواہ اور ہراساں کرنے کے معاملات کو کم کرنے اور حل کرنے کے لئے اب کمپنیاں تیزی سے پختہ پالیسیاں تشکیل دے رہی ہیں۔ یہ پالیسیاں مزید خواتین کو افرادی قوت میں شامل ہونے اور مَردوں کی طرح مساوات کے پیمانے پر کارکردگی دکھانے میں مدد فراہم کریں گی۔دنیا کا ایسا دعویٰ بھی ہے اور توقع بھی۔
خواتین گذشتہ ادوار کے مقابلے میں موجودہ دور میں زیادہ اہم ذمہ داریاں نبھانے میں زیادہ نمایاں ہوتی ہیں، بعض ممالک اور شعبوں میں خواتین مَردوں کےبرابر یا ان سے بھی بہتر تنخواہ حاصل کر رہی ہیں، سرکاری اور غیر سرکاری اداروں اور حکومتوں پر بھی خواتین اعلیٰ ترین عہدوں اور منسبوں پر ہیں۔ لیکن اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتے کہ آج کی دنیا میں ہر عورت کو یکساں مواقع حاصل ہیں۔ یہ زمینی سطح کی حقیقت ہے جو پوری دنیا میں یکساں ہے۔
اس منظرنامے کو یقینی بنانے کے لیے مرد اور خواتین سے ایک جیسا سلوک روا رکھا جاناہی وہ واحد راستہ ہے جس میں تمام خواتین کو برابری کی بنیاد پر مواقع کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔لیکن فی الحال، یہ منظر نامہ مطلق درست نہیں تصور کیا جاسکتا ہے۔ تمام تر پیش رفت کے باوجود حالیہ ہائی پروفائل معاملات میں گوگل جیسی کمپنی میں بھی مردوں اور عورتوں کے درمیان امتیازی سلوک عیاں ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اب بھی یہ مانتے ہیں کہ عورتیں مختلف طریقوں سے مَردوں کے برابر نہیں ہیں۔ جب خواتین کو مساوی تنخواہ کی طرح ایک خاص حق دیا جاتا ہے ، تو کچھ لوگوں کو پریشانی لاحق ہو جاتی ہے ۔ ایسا منظر نامہ جہاں عورت کو کام کی جگہ یا معاشرے میں مساوی مواقع ملتے ہیں، ایک مرکزی دھارے کا تصور ہونا چاہئے ۔
شیرل سینڈبرگ ، اوپرا ونفری ، جینیٹ یلن اور دیگر بہت سی نامور خواتین اپنی زندگی اور کیریئر میں طاقتور اور قابل احترام مقام پر پہنچ گئیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو مساوی حقوق اور تنخواہ دی جانی چاہیے تاکہ وہ اپنی استطاعت، ذہانت اور ذمہ داری سے مَردوں کی طرح مساوی طور پر اپنا کردار ادا کرسکیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کی شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق صنفی مساوات کی درجہ بندی میں امریکا بھی نیچے چلا گیا تھا یعنی2006 ء میں 23ویں نمبر پر تھا تو 2016ء میں 45ویں پوزیشن پر چلاگیا تھا۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ اب سائنسدانوں، ماہرین تعلیم ، انجینئرز، ریاضی دانوں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کی نئی نسل کے لیے راہیں ہموار ہورہی ہیں، تاہم انسانی زندگی کے کئی اہم شعبوں میں خواتین کی تعداد ابھی بھی مردوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ جبکہ ان میدانوں میں خواتین غیر معمولی خدمات انجام دے سکتی ہیں اور یہ ان کی فطری صلاحیتوں اور حالات سے زیادہ مناسبت بھی رکھتا ہے۔ ان میدانوں میں اکیڈمکس اور ریسرچ و تحقیق کے میدان ہیں جہاں آج بھی خواتین کا تناسب بہت کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باصلاحیت، حوصلہ مند لڑکیوں کی بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم کے میدان میں پیشہ وارانہ کورسیز کو زیادہ ترجیح دیتی ہے اور تصور یہ ہے کہ ان میدانوں میں نوکری کا حصول یقینی ہوجاتا ہے۔ اس فرق کو کم کرنے کیلئے بہت سے ماہرین اقتصادیات، ماہرین تعلیم اور عالمی رہنما کاوشیں کررہے ہیں۔
یہاں ہمیں اس طرز فکرو عمل کو ترک کرنا چاہئے اور اوائل عمری سے ہی لڑکیوں کی سائنس، کامرس اور تخلیقی و تحقیقی شعبوں میں حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے اور جب وہ اپنے کیریئر کے نمایاں مقام پر پہنچ رہی ہوں تو انہیں بااختیار بنانے اور بڑے خواب دیکھنے کے حوالے سے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، اور انہیں سماجی خدمت اور معاشرے کے ارتقاء کے عمل میں اہم کردار نبھانے کی سوچ دی جائے۔ اگر اس طرح توجہ دی گئی تو خواتین خود ہی یہ ثابت کرسکتی ہیں کہ وہ مساوات کے لائق ہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے اور آنے والی نسلوں کے لئے حالات کو درست بنانے کیلئےیہ بالکل موزوں وقت ہے۔
یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہئے کہ جن شعبوں میں ٹیکنالوجی اپنا کردار ادا کرتی ہے، وہ ان شعبوں کو بدل کر رکھ دیتی ہے ۔ ٹیکنالوجی نے کمیونیکیشن کی رفتار تیز کردی ہے اور گھریلو کام سے لے کر دفتری فرائض تک ہمیں ہر وقت کمپیوٹر یا گیجٹس کی ضرورت پڑتی ہے، اس صورتحال میں بچیوں کی تعلیم میں بھی ٹیکنالوجی کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے اور زندگی کے ہرموڑ پر، ہر فیلڈ میں، چاہے وہ صنعتیں ہوں یا تعلیمی ادارے، ٹیکنالوجی ہمارے درمیان کھڑی ہوتی ہے۔ ٹیکنالوجی کی دوڑ میں اگر خواتین پیچھے رہ جائیں اور اپنا کردار ادا نہ کرسکیں تو معاشرے کے لیے یہ بڑے نقصان کا باعث ہوگا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں