خود کشی ملکی او رعالمی سطح پر انسانی سماج کے لیے ایک نہایت سنگین مسئلہ ہے۔ اعداد و شمار کے حوالے سے بات کریں تو:
٭ عالمی سطح پر ہر چالیس سیکنڈ میں خود کشی کے سبب ایک زندگی ختم ہوتی ہے۔
٭ پندرہ سے پینتیس سال کے نوجوانوں میں موت کے اسباب میں خود کشی تیسرے نمبر پر ہے۔
٭ ہندوستان میں سالانہ ایک لاکھ سے زائد افراد خود کشی کرتے ہیں۔
٭ خود کشی کے سبب سالانہ 6لاکھ خاندان متاثر ہوتے ہیں۔
٭ جنگوں اور قتل کی وارداتوں میں مرنے والوں کی جملہ تعداد کے مقابلے خود کشی کے سبب مرنے والوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔
خودکشی کے محرکات
سماجی، نفسیاتی اور طبی وجوہات کو خود کشی کے بڑے محرکات میں سے تسلیم کیا جاتا ہے۔ بعض نفسیاتی بیماریاں، بعض دفعہ تکلیف دہ بیماریاں خود کشی کا سبب بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت ساری سماجی وجوہات بھی ہیں جو لوگوں کو خود کشی پر آمادہ کرتی ہیں۔خود کشی کے سماجی محرکات و اسباب پر مختلف ماہرین نفسیات نے اپنی تحقیقات پیش کی ہیں:
ایمائیل درخائیم نے خود کشی کی سماجی وجوہات پر اپنی کتاب میں روشنی ڈالی ہے۔ درخائیم فرانسیسی سماجی مفکر گزرا ہے، اس کی کتاب Le Suicide میں وہ خود کشی کی درج ذیل وجوہات بتاتا ہے۔
(۱) Egoistic Suicide (انامرکوز خودکشی)
سماج سے دھتکارے جانے پر کسی فرد میں یہ جذبات پیدا ہوتے ہیں کہ وہ سماج سے ہمیشہ کے لیے کنارہ کشی اختیار کرلے لہٰذا وہ اقدام خود کشی کرتا ہے۔
(۲) Alruistic Saicide (بے غرض خودکشی)
کسی معاشرتی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی جان قربان کرنا بھی خود کشی ہے، جس کی مثال ہندوستان میںستی کی شکل میں رائج رہی ہے۔
(۳) Anomiqui Suicide: (غیر فطری دباؤ کے تحت خود کشی)
زندگی میں اچانک ہونے والی خلاف توقع تبدیلیاں انسان میں بے حد گھٹن پیدا کرتی ہیں: مثلاً کسی امیر کا اچانک غریب ہوجانا، غیر متوقع ناکامی، کوئی صدمہ لاحق ہونا، ان وجوہات سے ایک شخص میں خود کشی کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔
مشہور شاعر جوش ملیح آبادی نے اس رویہ کو جنون حب ذات یا کود غرضی سے تعبیر کیا ہے:
قابل برداشت جب رہتا نہیں دردِ حیات
ڈھونڈتی ہے تلملاہٹ زہر میںراہِ نجات
اس عمل سے عقل انسانی میں آتی ہے یہ بات
ارتکابِ خود کشی تک ہے جنونِ حب ذات
ڈپریشن اور خود کشی
ڈپریشن ایک نفسیاتی اور طبی مرض ہے جسے خود کشی کی بڑی وجوہات میں شمار کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر پانچ افراد میں سے ہر تیسرا شخص اس بیماری کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے۔ WHO نے ڈپریشن کو اکیسویں صدی کے امراض کی فہرست میں پہلے نمبر پر رکھا ہے۔
یونیسکو کے مطابق پوری دنیا میں پچاس فیصد بچے تناؤ بھرے ماحول میںپرورش پاتے ہیں جو آگے چل کر ان کے لیے ڈپریشن کا سبب بنتا ہے۔ ہندوستان میں ۷۲ فیصد طلبہ، ڈپریشن سے کیسے نمٹا جائے، اس سے ناواقف ہیں۔طلبہ میں خود کشی کے برھتے رجحان میں اس ناواقفیت کا بھی بڑا دخل ہے۔
خود کشی اور اسمارٹ فون
خود کشی کی بہت ساری وجوہات میں سے دورِ حاضر کی اہم وجہ اسمارٹ فون کا کثرت سے استعمال بھی شامل ہوگیا ہے۔
امریکہ کی فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی کے محققین نے اپنی تحقیق میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ نوعمروں کے ذریعے موبائل اسکرین پرگزارا جانے والا وقت ان میں ڈپریشن اور خود کشی کے خطرات کو بڑھا دیتا ہے۔ Clinical psychological suience نامی جرنل میں شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ نوجوان جو موبائل یا کمپیوٹر اسکرین سے ہٹ کر کھیل کود، دوستوں سے روزانہ ملاقاتوں اور گھریلو کاموں میں زیادہ وقت دیتے ہیںوہ نسبتا زیادہ خوش رہتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ۴۸ فیصد نوعمر بچے جو پانچ یا اس سے زیادہ گھنٹے الیکٹرانک آلات کا استعمال کرتے ہیں ان میں خود کشی کی ذہنیت محسوس کی گئی ہے۔ پرتشدد مناظر، مایوسی اور قنوطیت اور بالآخر خود کشی پر ابھارنے والے گیمز بچوں کو نفسیاتی طور پر بہت متاثر کرتے ہیں۔ بلیو وہیل جیسے گیمز مختلف ناموں سے نو عمروں کو راغب کر رہے ہیں جسے ایک خطرے کی گھنٹی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
خود کشی کی روک تھام
عالمی ادارہ برائے صحت (WHO) نے یہ تخمینہ لگایا ہے کہ خود کشی کے سبب اموات میں 2020تک 1.5 ملین کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ خود کشی صحت عامہ سے متعلق ایسا مسئلہ ہے، جو پوری دنیا میں ہونے والی پرتشدد اموات میں نصف کا سبب ہے اور اربوں ڈالر کے مالی نقصان کا سبب بھی۔ اس خطرناک صورت حال سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ خود کشی کی روک تھام کے لیے ۱۰ستمبر کو عالمی سطح پر عالمی یوم ’’برائے خود کشی کی روک تھام‘‘ کے نام سے منانے کا سلسلہ 2003 سے شروع کیا گیا ہے۔ World Suicidee Provertion Day کے ذریعے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس سماجی مسئلہ سے متعلق رائے عاملہ کو ہموار کیا جائے اور خود کشی سے موت کی روک تھام کے لیے مختلف سرگرمیاں، پالیسیاں اور منصوبے بنا کر سماج سے اس لعنت کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
اقدام خود کشی کو پوری دنیا میں قانونی جرم تسلیم کیا جاتا رہا ہے لیکن اب عالمی سطح پر اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اقدام خود کشی کو جرم کی فہرست سے نکال دیا جائے۔ ہندوستان کے ساتھ تقریباً ۵۸ ممالک نے اس سلسلے میں پیش رفت دکھائی ہے۔
انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 309 کے تحت اقدام خود کشی کرنے والے شخص کو ایک سال تک جیل میں رکھنے کا قانون تھا لیکن ۸؍ اگست 2016 کو حکومت ہند نے (Mental Health care Bill) کو منظوری دے دی ہے۔ لہٰذا اب اقدام خود کشی کرنے والے شخص کو مجرم سمجھنے کی بجائے ذہنی صحت کی بہتری کے لیے علاج و معالجہ کی سہولت فراہم کی جائے گی۔
مشہور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ فیس بک نے یوزرس میں خود کشی کے رجحان کو سمجھنے کے لیے ایسے انتطامات کیے ہیں کہ جن کی مدد سے خود کشی کے رجحان رکھنے والے افراد کی شناخت کر کے انھیں بروقت مدد فراہم کی جاسکے گی تاکہ وہ اس اقدام سے محفوظ رہیں۔ فی الوقت یہ تجربات امریکہ وغیرہ میں کیے جاچکے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی یہ سہولت پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ تمام تجربات کس حد تک خود کشی کی روک تھام کر پائیں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا کیوں کہ یہ سب کوششیں ’’وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا‘‘ کی مصداق ہیں۔
اسلامی رہنمائی
اسلام خود کشی سے تحفظ کے لیے زبردست رہ نمائی کرتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات اہم ہے کہ ایک شخص مسلمان ہو اور وہ خود کشی کا رجحان بھی رکھے ایسا نہیں ہوسکتا۔ مسلم معاشرہ میں یہ وبا بہت کم ہے کیوں کہ اسلام نے انسانی زندگی کے مقصد کو اپنے ماننے والوں پر واضح رکھا ہے۔ قرآن اور سنت کی درج ذیل تعلیمات معاشرے کو خود کشی کی لعنت سے چھٹکارا دلا سکتی ہیں۔
۱- قرآن انسان کو پیدا کرنے کا مقصد واضح کرتا ہے کہ اس کے ذریعے اچھے اعمال کرنے والوں کو پرکھنا مقصود ہے۔ زندگی اللہ کی عطا کردہ نعمت ہے جسے ایک مقصد کے تحت گزارنے کا پروگرام بھی اسلام نے دیا ہے۔
۲- صبر کو بہترین اجر کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ اہل ایمان کی خصوصیات میں عبادت سے پہلے صبر کو پیش کیا گیا ہے۔ دنیا میں بے صبرے لوگ ہی خود کشی کرتے ہیں۔
۳- مایوسی کو کفر قرار دیا گیا ہے۔ خود کشی کرنے والے افراد مایوسی کے سبب خود کشی کرتے ہیں۔
۴- اچھی اور بری تقدیر کا اللہ کی طرف سے ہونے کا عقیدہ انسان کو متوازن سوچ کا حامل بناتا ہے۔
۵- پریشان دلوں کے اطمینان کا بہترین طریقہ جو قرآن بتاتا ہے، وہ اللہ کا ذکر ہے۔ ’’بے شک اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔‘‘
۶- خود کشی کرنے والوں سے متعلق احادیث رسولؐ میں سخت وعیدیں آئی ہیں جس کے تصور سے ہی انسان خود کشی کے خیال سے باز آجاتا ہے کیوں کہ خود کشی کرنے والا اپنی جان کو ہلاک کرکے غموں سے چھٹکارا نہیں پاتا بلکہ مرنے کے بعد مزید عذاب کا مستحق قرار پاتا ہے۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
۷- صالح صحبت: اللہ کے رسول نے صالح صحبت کی اہمیت کو اہل ایمان پر واضح کیا ہے۔ خود کشی کی کئی وجوہات میں ایک وجہ تنہائی بھی ہے۔ انسان اگر غلط صحبت اختیار کرلے تب بھی مشکل اور تنہا رہے تب بھی خسارا، لہٰذا صالح صحبت کو اختیار کرنے والے زندگی کے حقیقی لطف سے سرشار ہوتے ہیں۔
موجودہ دور میں اسلامی اجتماعیت سے وابستگی نوجوانوں کے لیے صالح صحبت اختیار کرنے کا بہترین پلیٹ فارم ہے، جہاں ایک دوسرے سے اللہ کے لیے محبت کرنے والے احباب میسر آتے ہیں جو زندگی کا بہترین سہارا بھی ثابت ہوتے ہیں اور اگر کسی ساتھی پر قنوطیت طاری ہوتی ہے وہ فوری پکار اٹھتا ہے کہ
خود کشی چپکے سے کرنے نہیں دیتے مجھ کو
چند چہرے ہیں جو مرنے نہیں دیتے مجھ کو
۸- اسلام شہادت کی موت کو سعادت کی موت قرار دیتا ہے۔ اسلام نے صرف زندگی گزارنے کے طریقے نہیں بتائے بلکہ مثالی موت کے سلیقے بھی سکھائے ہیں۔ انسان کو خود غرض بن کر خود کشی کرے تو ہلاک لیکن اللہ کے پسندیدہ راستے پر چل کر مرے تو شہید کا درجہ پاتا ہے۔
۹- اللہ کے رسولؐ نے دعا کو مومن کا ہتھیار قرار دیا ہے۔ ایسی دعائیں سکھائی ہیں جو ڈپریشن، یاس و قنوطیت، عجز و کاہلی جیسے رویوں سے اللہ کی پناہ میں آنے کا حوصلہ فراہم کرتی ہیں۔
اسلام کا یہ ماڈل اگر عام کیا جائے تو یہ بات دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ سماج سے خود کشی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
یہ مسئلہ آپ کا نہیں
لیکن ہم جس سماج میں رہتے بستے ہیں وہاں اکثر ایسے افراد مل جاتے ہیں جو زندگی سے پریشان ہیں ار چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں ایسے لوگوں کی مدد اور رہنمائی کرنا ہمارا فرض ہے۔ اس مضمون کے مخاطب آپ ان معنوں میں ہیں کہ آپ کو سماج میں پائی جانے والی اس بیماری کی روک تھام کے لیے اٹھ کھڑا ہونا چاہیے کہ انسانی جانوں کا تحفظ ہمارا دینی فریضہ ہے۔
اس میدان میں مختلف تنظیمیں سرگرم ہیں جو خود کشی سے لوگوں کو باز رکھنے کے لیے بہترین کوشش کر رہی ہیں۔ افسوس کہ امت مسلمہ اس میدان میں کہیں نظر نہیں آتی۔ ذیل میں کچھ ایسی تنظیموں اور ہیلپ لائن سینٹرز کی معلومات پیش کی جا رہی ہے جو خود کشی کی روک تھام کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان کے کاموں کو سراہیں، ان کا تعاون کریں اور ممکن ہو تو ہم بھی اس طرح کی عملی کوششوں کا آغاز کریں۔
۱- AASRA :ممبئی میں ۱۹۹۸ سے پبلک چیریٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ یہ ادارہ زندگی سے مایوس لوگوں کو آن لائن، آف لائن، بذریعہ فون اور راست ملاقات کے ذریعے پرامید زندگی جینے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اس کی ویب سائٹ www.aasra.info پر مزید معلومات مل سکتی ہیں۔
۲- Suicide.org. یہ ایک غیر منافع بخش تنظیم اور ویب سائٹ ہے۔ جس کا مقصد خود کشی کی روک تھام، بیداری اور خود کشی کا رجحان رکھنے والوں کی اس کیفیت سے باہر نکلنے لیے مدد کرنا ہے۔ خود کشی سے متعلق ہر طرح کی معلومات کا ذخیرہ اس ویب سائٹ پر موجود ہے۔
ویٹ سائٹ: www.sucide.org
۳- SNEHA: چینئی میں واقع یہ ادارہ ڈپریشن کا شکار اور زندگی سے ناامید لوگوں کو جذباتی تعاون فراہم کرتا ہے۔ ویب سائٹ، ٹیلی فون اور راست ملاقات کر کے کونسلنگ کی خدمات یہ ادارہ فراہم کرتا ہے۔
www.snehaindia.org
ان کے علاوہ اور کئی ادارے اور ویب سائٹس ہیں جو کونسلنگ بھی کرتی ہیں اور رضاکارانہ طور پر کام کرنے کا جذبہ رکھنے والے کونسلرز کو بھی تیار کرتی ہیں۔ درج ذیل ویب سائٹس پر آپ مزید رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں، اور ضرورت مندوں تک پہنچا سکتے ہیں:
www.befriendersindia.org
www.education.vsnl.com
www.mumbainet.com
www.sumaitri.org.
www.maithrikochi.org
lll