ہمارے ایک واقف کار کی بیٹی دہلی یونیورسٹی میں پڑھتی تھی۔ نقاب پوش تھی او رروزانہ بس سے کالج آتی جاتی تھی۔ ایک روز ایک جھپٹ مار اس کا موبائل چھین کر بھاگ نکلا۔ وہ بھی اس کے ساتھ دوڑی اور بیچ سڑک پر اس کو پکڑ لیا۔ ماشاء اللہ اچھی مقدار میں اس کی پٹائی بھی کی اور پھر اپنا موبائل لے کر گاڑی میں بیٹھ کرکالج کے لیے روانہ ہوگئی۔
جدیدیت کی نمائندہ ایک لڑکی بس اسٹینڈ پر کچھ لڑکوں پر بجلی کی رفتار سے حملہ آور ہوئی۔ ان میں سے ایک بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا جب کہ دو اپنے آپ کو اس کی گرفت سے نہ نکال سکے۔ وہ اکیلی سر عام دو ہٹے کٹے نوجوان کو تنہا پیٹ رہی تھی اور لوگ تماشہ دیکھ رہے تھے۔ آس پاس کھڑی خواتین داستان بیان کر رہی تھیں اور بیچ بیچ میں کہتی جاتیں اور مارو! او رمارو! انھوں نے لڑکیوں کا نکلنا دو بھر کر دیا ہے۔ ایک بڑھیا کہہ رہی تھی ہمت تو دیکھو بس اسٹینڈ پر لڑکی کو چھیڑ رہے تھے…
دونوں واقعات حقیقی ہیں او رملک کی راجدھانی دہلی کے ہیں مگر ا س قسم کے اقعات ملک میں کہیں بھی دیکھنے اور سننے کو مل جاتے ہیں جو خواتین کی جرأت و ہمت اور خود حفاظتی کی کوشش کو پیش کرتے ہیں۔
ایک مثال اور دیکھیے!دو خاندانوں میں پرانی دشمنی تھی ایک روز عصر کے وقت دو بچے کھیل رہے تھے کہ آپس میں جھگڑا ہوگیا۔ ایک بچہ زیادہ پٹ گیا اور اس نے گھر جاکر شکایت کردی۔ دیکھتے ہی دیکھتے دسیوں افراد کی بھیڑ نے لاٹھی ڈنڈوں سے لیس دوسرے بچے کے گھر پہنچ کر دھاوا بول دیا۔ گھر پر مرد نہیں تھے اس لیے خواتین ہی کو سب جھیلنا پڑا۔ عورتوں نے گھر کا دروازہ اچھی طرح بند کر دیا اور چھت پر چڑھ کر زور دار پتھراؤ کیا۔ پتھراؤ اتنا زبردست تھا کہ کئی لوگ اپنا سر پھڑوا کر بغیر کوئی نقصان پہنچائے واپس بھاگ کھڑے ہوئے۔ در اصل گھر والے اپنے دفاع کے سلسلے میں پہلے ہی سے چوکنے تھے اور انھوں نے ریلوے ٹریک کے کنارے سے موٹے موٹے پتھر بڑی مقدار میں گھر کی چھت پر جمع کر رکھے تھے۔ کوئی ڈھائی تین سو گرام وزنی یہ نوکیلے پتھر اس وقت ان کے کام آئے اور انھوں نے ہمت اور منصوبہ بندی سے حملہ آورں کو واپس لوٹنے پر مجبور کر دیا۔ اسی ضمن میں یہ بھی بیان کر دیا جائے کہ گجرات کے ۲۰۰۲ کے مسلم کش فسادات کے دوران ایک عورت نے اپنی بلڈنگ اور سوسائٹی کی حفاظت کچھ اس طرح کی کہ فسادی لوگ کچھ نہ کرسکے اور الٹے پاؤں لوٹنے پر مجبور ہوگئے۔ انگریزی میگزین “Seminar” اس پر ایک لمبی اسٹوری کی تھی۔
اس تناظر میں ہم سماج کی باشعور خواتین کو یہ فکر دینا چاہتے ہیں کہ وہ ایسے حالات میں صنف نازک کے بجائے صنف فولاد میں خود کو تبدیل کرلینے کا ہنر بھی سیکھیں اور اس کے لیے وہ تمام ضروری تربیت بھی حاصل کریں جو سماج و معاشرے میں معروف اور قانونی طور پر درست ہو۔
گزشتہ دنوں ایسی تصویریں فیس بک اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، جن میں نوجوان لڑکیوں کو باقاعدہ طور پر آتشیں اسلحہ اور دھار دار آلات چلانے کی تربیت دی جا رہی تھی۔ ایسا کیوں ہوا اور اس کی قانونی اور سیوک اجازک ہے یا نہیں یہ الگ سوال ہے۔ مگر اتنا واضح ہے کہ کچھ شرپسند عناصر ملک کو نفرت کی آگ میں جھونک دینا چاہتے ہیں اور ان کا ہدف کیا ہے اور کون ہے یہ بھی اب کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے۔
ہندوستانی سماج میں جہاں ایک طرف خواتین کے خلاف جرائم کا سیلاب ہے اور وہ خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں وہیں فرقہ وارانہ منافرت کا زہر اس قدر اندر تک اتر گیا ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں معمولی معمولی باتوں کو اور کبھی کبھی بغیر کسی وجہ کے محض افواہ کی بنیاد پر خون خرابہ کرنے پر اتر آتی ہیں۔ ان دونوں ہی کیفیتوں اور حالتوں میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہماری لڑکیاں اور خواتین خود حفاظتی کی طرف نہ صرف متوجہ ہوں بلکہ وہ تمام فنون سیکھیں جو اس راہ میں ان کی مدد کرسکیں۔ اسی طرح گھر میں پیدا ہونے والی ایمرجنسی اور حادثاتی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے بھی ضروری معلومات اور تربیت حاصل کریں۔ گھر میں آگ لگ جائے تو اہل خانہ اور بچوں کو کیا کرنا چاہیے۔ زلزلہ، سیلاب یا دشمنوں کے اچانک حملے کی صورت میں کیا کچھ کیا جاسکتا ہے، اس کی تعلیم اور تربیت بھی لازمی ہے۔ شہروں میں جہاں فلیٹوں میں رہنے کا کلچر عام ہو رہا ہے وہاں نکلنے اور خطرے سے بھاگنے کے لیے تربیت حاصل کرنا اور بچوں کو تربیت دینا بھی اہم ہے۔ بچپن میں مضمون نگار نے رسی کے ذریعے کنوئیں میں اترنے کی تربیت حاصل کی۔ اس کے لیے جوٹ کی ایک موٹی رسی استعمال ہوتی تھی جس میں ایک ڈیڑھ فٹ پر گانٹھ لگی ہوتی تھی اور ہم رسی پکڑ کر انگوٹھے اور انگلی کے بیچ کا وہ حصہ جو ہوائی چپل پہنتے وقت پھنسایا جاتا ہے، رسی میں لگی گانٹھوں پر پیر کو روکتے ہوئے بہ آسانی کنوئیں میں اتر جاتے اور بہ آسانی کنوئیں سے باہر آجاتے تھے۔ فلیٹوں میں اونچائی پر رہنے والے لوگوں کے لیے ایمرجنسی اور حادثاتی صورت میں اس کا استعمال کارآمد ہوسکتا ہے۔
خواتین کے خلاف تشدد اور جنسی جرائم کے بڑھتے گراف کے پیش نظر خواتین کو خود حفاظتی کے گُر اور ترکیبیں سکھانے کے لیے ریاستی پولیس نے بھی تربیتی پروگراموں کی شروعات کی ہے۔ دہلی پولیس اور دیگر ریاستوں کی پولیس بھی اسی طرح کی تربیت کے لیے گرمی کی چھٹیوں میں مختلف مقامات پر تربیتی کیمپ چلاتی ہیں، جن میں لڑکیوں اور خواتین کو مختلف النوع صورت حال سے نمٹنے اور حملہ کرنے والوں سے اپنا بچاؤ کرنے کی تربیت دیتی ہے۔ ہماری خواتین کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے پروگراموں کا فعال حصہ بنیں اور وہ سب کچھ سیکھیں جو خود حفاظتی کے کام آسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسکولی طالبات کو اسکولوں میں بھی اس طرح کی باتیں سکھائی جاتی ہیں اگر نہیں سکھائی جاتیں وہ ان کی غیر نصابی سرگرمیوں کا حصہ ہیں اور تو وہ مقامی پولیس، فائر سروسز اور NCC وغیرہ کی مدد لے کر اس قسم کے تربیتی پروگرام اپنے اسکولوں میں چلائے جائیں۔ حکومتی ادارے اس طرح کی سرگرمیوں کو اچھی نگاہوں سے دیکھتے بھی ہیں اور تعاون بھی کرتے ہیں۔ ہمارے سرکاری تعلیمی نظام میں اسکاؤٹ اینڈ گائڈ اور NCC وغیرہ اسکولی بچوں کو اس قسم کی تربیت دینے والے معتبر سرکاری ادارے ہیں، جن کی خدمات ضلعی سطح پر دستیاب ہیں۔ یہ ادارے، اسکولوں، این جی اوز اور سماجی خدمت کے اداروں کی درخواست پر بھی خصوصی خدمات پیش کرسکتے ہیں۔ اگر ان سے رابطہ کیا جائے۔ اسی طرح مختلف ریاستوں میں خواتین کے لیے سیلف ڈیفنس ٹرینگ کے بہت سے ادارے بھی کام کر رہے ہیں جو حکومت سے منظور شدہ ہیں اور اپنے یہاں بلا کر یا بلائے جانے پر وہاں جاکر یہ تربیت کا کام انجام دیتے ہیں۔ اس وقت ان کی تلاش بھی مشکل کام نہیں ہے۔ آپ گوگل پر جاکر سیلف ڈیفنس ٹریننگ ٹائپ کریں تو ایسے اداروں کی فہرست سامنے آجاتی ہے۔ اس طرح ان میں سے آپ اپنے قریب ترین ادارے سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں اور سماجی خدمت کے کام کرنے والی این جی اوز کو اس طرف متوجہ ہونا چاہیے اور اپنی خواتین اور بچیوں کو سیلف ڈیفنس کے فن کا ماہر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ وہ کسی بھی صورت حال کا مقابلہ کرنے کی اہل ہوں۔
ہمارے اردو ادب میں عورت کو صنف نازک کچھ اس قدر گردانا گیا ہے کہ وہ اپنے فکر و شعور میں بھی نازک اور کمزور بن گئی ہے۔ خود حفاظتی اور اپنی ذات کے تحفظ کے سلسلے میں بھی وہ اس قدر کمزور واقع ہوئی ہے کہ کسی اچانک صورت حال کے مقابلے کے لیے بالکل غیر اہل ہوکر رہ گئی ہے۔ یہ کیفیت دینی مزاج اور اہل ایمان کی خوبیوں کے برعکس ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قوی اور طاقت ور مومن ضعیف اور کمزور مومن سے زیادہ محبوب ہے حالاں کہ خیر دونوں کے اندر ہے۔
عہد رسالت کی خواتین جہاں جسمانی اور ذہنی دونوں اعتبار سے مضبوط ہوتی تھیں وہیں اپنے ذہن و شعور کے اعتبار سے نہایت چاق و چوبند بھی ہوتی تھیں۔ اس زمانے میں یقینا خواتین بھی جسمانی ورزش اور دفاعی تربیت اپنے سماجی حالات میں پستی رہی ہوں گی۔ ورنہ نسیبہ بنت کعبؓ رسول پاکؐ کے دفاع میں اس مہارت کے ساتھ شمشیر زنی نہ کرپاتیں کہ انھوں نے کئی مشہور شہسواروں کو کھدیڑ دیا تھا۔lll