ربیعہ ملک! میڈم کی آواز کلاس روم میں گونجی ’’کلاس میں حاضر رہا کریں، ورنہ مجھے غائب دماغ لڑکیوں کو یہاں رکھنے کا کوئی شوق نہیں۔‘‘ میڈم کہے جا رہی تھیں اور وہ سر جھکائے سن رہی تھی۔ اس میں اتنی ہمت بھی پیدا نہیں ہو رہی تھی کہ ٹیچر سے معذرت ہی کردے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی خود اعتمادی میں کمی آئی جا رہی تھی۔ اس نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی تھی وہ انتہائی امیر گھرانا تھا۔ باپ ایک بڑا صنعت کار اور ماں سماجی کارکن، جو بڑے بڑے جلسوں، تقریبوں اور مذاکروں میں خلق خدا کی خدمت کے موضوع پر تقریریں کرتی او رلوگوں کے کام کروانے میں مصروف رہتی۔ یہی وجہ تھی کہ ربیعہ کے لیے ان کے پاس کوئی وقت نہ تھا۔ لیکن وہ اس کی تلافی روپیکی فراوانی سے کرنے کی کوشش کرتیں۔ انہوں نے اسے ہوسٹل میں داخل کرا دیا تھا۔ ربیعہ روزانہ چھٹی کے بعد دیکھتی کہ تمام بچے گھر جانے کے لیے بے تاب ہیں۔ اپنے امی،ابو اور بہن بھائیوں سے مل کر بہت خوش ہوتے ہیں مگر اسکول بس اسے لے کر سیدھی ہوسٹل جاتی تو وہ آنکھوں میں جھلملاتے ستارے لیے سب کو خدا حافظ کہہ کر نیچے اتر جاتی۔
وقت پر لگائے اڑنے لگا۔ وہ اب بڑی ھوچکی تھی۔ تنہائی نے اسے بہت ڈرپوک بنا دیا تھا۔ وہ اب بھی کلاس میں کھوئی کھوئی سی رہتی۔ تفریح میں بیگ لے کر چپ چپ برگد کے اس بوڑھے درخت کے نیچے بیٹھ جاتی، جو اس کا سدا کا ساتھی اور ہمدرد تھا۔ وہ اسی کو اپنے سارے دکھڑے سنایا کرتی اور اپنی دوست ملیحہ سے کہا کرتی: ’’جس دن یہ درخت کٹ گیا، اسی دن میں بھی مرجاؤں گی‘‘ او رملیحہ اس کی بے وقوفی پر ہنستی کہ کیا تمہارے لیے آکسیجن کی کمی ہوجائے گی؟
آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ایک دن کچھ لوگ آئے اور اس درخت کو کاٹ کر لے گئے۔ تفریح کے دوران وہ سہیلی سے کہنے لگی: ’’ملیحہ میں تو آج اپنے دوست سے ملی ہی نہیں!‘‘ او روہ اس کے ساتھ درخت کی طرف چل پڑیـ گراؤنڈ میں جب اسے درخت کے بجائے خالی میدان دکھائی دیا تو وہ گھبرا گئی اور پھر درخت کا تنا کٹا ہوا دیکھتے ہوئے بھی دوسری لڑکیوں سے پوچھنے لگی کہ میرا دوست کہاں گیا۔ اسے بڑی مشکل سے یقین آیا کہ اس کا دوست اس سے بچھڑ گیا ہے، درخت کٹ گیا ہے۔ وہ ملیحہ کے گلے لگتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیـ۔ وہ کہہ رہی تھی: ’’میرا دوست بھی مجھ سے چھن گیا وہی تو تھا جو میری بات سنتا تھا، مجھ سے پیار کرتا تھا۔ اب میں اس دنیا میں نہیں رہ سکوں گی۔ میرا گلا گھونٹ دو ملیحہ، مجھے مار ڈالو۔‘‘
رو رو کر جب اس کا جی بھر گیا تو وہ خود ہی خاموش ہوگئی، مگر اس واقعے کے بعد اسے چپ سی لگ گئی۔ ہر وقت کھوئی کھوئی سی رہنے لگی۔ آنکھوں میں موتی چمکتے رہتے۔ اسی حالت میں گرمیوں کی چھٹیاں آگئیں اور وہ دونوں جدا ہوگئیں۔ گرمیوں کی ایک شام جب وہ اپنے کمرے میں بیٹھی تھی کہ اچانک اس کے سینے میں درد کی ایک لہر اٹھی۔ اس نے درد کی شدت سے سینے کو دبا لیا، مگر درد کی شدت بڑھتی گئی۔ اس نے زور سے مالی کو آواز دی اور بے ہوش ہوگئی۔
نذیر صاحب اور بیگم نذیر اپنے کمرے میں بیٹھے تھے کہ اچانک مالی دوڑتا آیا اور بولا: ’’صاحب جی! چھوٹی بی بی کو معلوم نہیں کیا ہوگیا ہے۔ وہ اپنے کمرے میں بے ہوش پڑی ہیں۔‘‘
اس کے امی ابو جلدی سے اسے اٹھا کر اسپتال لے گئے۔ ڈاکٹر نے اس کا مکمل معائنہ کیا۔ اس کے ابو نے ڈاکٹر سے بے ہوشی کی وجہ پوچھی تو وہ انہیں اپنے خاص کمرے میں لے گئے اور بڑے غمگین لہجے میں کہنے لگے: ’’نذیر صاحب! بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ کی بیٹی دل کی مریضہ ہے اور اس بیماری کا علاج ہمارے ملک میں ممکن نہیں۔ ہاں البتہ بیرون ملک ہوسکتا ہے بچنے کی کوئی امید نہیں۔‘‘
یہ سنتے ہی اس کے امی ابو دونوں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ ڈاکٹر نے انہیں مزید بتایا کہ ربیعہ کی بیماری کی بڑی وجہ کوئی بڑا صدمہ ہے۔ ’اسے کیا صدمہ ہوسکتا ہے، ڈاکٹر صاحب! کسی چیز کی کمی ہے، نہ روپے پیسے کی تنگی نہ کھانے پینے کا مسئلہ!‘‘
’’وہ تو ماشاء اللہ یقینا نہیں ہوگی مسٹر نذیر! مگر آپ یہ فرمائیں کہ آپ دونوں دن میں بچی کو کتنا وقت دیتے ہیں؟‘‘ ڈاکٹر کا یہ سوال سن کر دونوں میاں بیوی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ وہ اب ڈاکٹر کو کیا بتاتے کہ دن میں تو کیا وہ تو ربیعہ سے مہینوں کے بعد ملتے ہیں اور جب ملتے بھی ہیں تو سوائے حال احوال دریافت کرنے کے کوئی بات نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر صاحب ان کی خاموشی سے بہت کچھ سمجھ چکے تھے۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ربیعہ کی امی بولیں: ’’ڈاکٹر صاحب! ہم سب کچھ اپنے بچوں کے لیے ہی تو کرتے ہیں وہ کچھ مزید کہنا چاہتی تھیں کہ ڈاکٹر نے انہیں ٹوک دیا: ’’نہیں مسز نذیر! یہ سب کچھ ہم اپنی ذات کے لیے کرتے ہیں … ورنہ آپ اپنی بچی کو چھوڑ کر سارے جہاں کے کام نہ کرتی پھرتیں… در اصل آپ کو اپنی بچی سے زیادہ اپنی ذات سے محبت ہے…‘‘ ڈاکٹر صاحب نے بلا تکلف کہہ دیا اور وہ دونوں سر جھکائے ڈاکٹر کے کمرے سے باہر آگئے۔ ربیعہ کے امی ابو کو اندازہ نہیں تھا کہ انھیں اپنی بے پروائی کی اتنی بڑی سزا ملے گی۔ ان کی اکلوتی بیٹی موت کے دروازے پر پہنچ چکی تھی۔ انہیں اس غفلت پر سخت شرمندگی ہو رہی تھی۔ مزید وقت ضائع کیے بنا انہوں نے امریکہ کے ایک معروف ڈاکٹر سے رابطہ کر کے ربیعہ کی ساری میڈیکل رپورٹیں بھیج دیں۔ چند دن بعد انہیں ڈاکٹر نے امریکہ بلوایا۔ ڈاکٹر نے ان کو صاف بتا دیا کہ ربیعہ کا بہت ہی پیچیدہ آپریشن ہوگا، جس میں وہ بچ بھی سکتی اور موت کے منہ میں بھی جاسکتی ہے۔ ربیعہ کے ابو کو اب احساس ہو رہا تھا کہ بچے والدین کی محبت اور توجہ سے جیتے ہیں نہ کہ دولت کی فراوانی سے۔ اس کی امی بھی جان چکی تھیں کہ ان کا پہلا فرض اپنی اولاد کی تربیت کرنا ہے۔ اس کے بعد ہی کسی دوسرے کام کی اہمیت ہوسکتی ہے۔ دونوں سچے دل سے توبہ کر رہے تھے اور اپنی بیٹی کی زندگی کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ پھر ربیعہ کا آپریشن ہوا اور ان کی دعائیں قبول ہوئیں اور ربیعہ موت کے منہ سے نکل کر زندگی کی خوشیوں میں لوٹ آئی تھی۔lll