خوشیوں کے جگنو تھام لیجیے!

شمائلہ شفیع

لوگ اپنی زندگی میں آرام و سکون کے لیے مسلسل محنت اور دن رات کی مشقتیں اٹھا کر اسائشیں حاصل کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ زندگی کو پرسکون بنانے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں۔ مکان کو گھر بنانے کے لیے جوانی جیسی نعمت اپنے پسینوں سے بہا کر سر پر چاندی سجا لیتے ہیں لیکن خوشی سے پھر بھی کوسوں دور رہتے ہیں۔ خوشی اصل میں ہے کیا؟ ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی؟ شاید نہیں، ہم نے خود کو روز مرہ کے کاموں میں الجھا کر اس نعمت سے منہ موڑ لیا۔ ہمارے پاس شاید وقت ہی نہیں جو اسے محسوس کر سکیں۔ خوشی ایک ایسا سچا اور پاکیزہ احساس ہے جو لبوں سے ہوتا ہوا دل کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے اور رگ و پے میں اطمینان اور سکون بھر دیتا ہے۔ خوش رہنا اتنا مشکل نہیں جتنا لگتا ہے۔ اگر ہم محض چھوٹی چھوٹی الجھنوں کو زندگی سے نکال دیں تو ہمارا شمار بھی خوش باش لوگوں میں ہوسکتا ہے۔ صبح سے بجلی نہیں، پانی نہیں آرہا ہے، سورج خوب مزاج پوچھ رہا ہے، مختلف تہواروں اور خوشیوں کے مواقع بھی انہی مسائل کے ساتھ سارا مزہ کرکرا کر دیتے ہیں۔ اب ایسے میں کون سی خوشی اور کہاں کی خوشی؟ نہیں جناب انہی لمحوں میں سے آپ کو خوشیوں کے جگنو چننے ہیں اور وہ صرف ’’اللہ تعالیٰ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے۔‘‘

اگر ہم ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا سیکھ جائیں، تو چھوٹی چھوٹی الجھنوں کے جال سے نکل کر خوشیوں کے سرے ہاتھ میں آجائیں۔ عام سی چیزوں پر شکر کرنے کی عادت ڈالیں۔ یہ عادت آپ کو اخلاق کی بلندی پر لے جائے گی۔ آمدنی کم ہے، شکر ادا کریں کہ جو بے روزگار ہیں، یا جن کی کوئی آمدنی ہی نہیں ان سے تو بہتر حالات میں ہیں۔ اپنا گھر نہیں ہے، شکر ادا کریں، ان لوگوں سے بہتر حالات ہیں جو فٹ پاتھ پر اپنا آشیانہ بسائے بیٹھے ہیں۔ اولاد نہیں ہے، شکر ادا کریں کیوں کہ آپ شادی شدہ ہیں۔ ان سے پوچھئے جو رشتوں کے انتظار میں اپنے بالوں پر سفید تاروں کی جھلملاہٹ کو روز اپنے اندر تک اترتا محسوس کرتے ہیں۔ غربت ڈیرے ڈال کر بیٹھی ہے، شکر ادا کریں اور اپنی کوششیں کریں کہ اللہ بھی ہمت کرنے والوں کی مدد کرتا ہے۔ حالات کو سدھارنے کی کوشش کریں۔

خوش رہنے کا واحد نسخہ صرف اور اللہ واحد بزرگ و برتر کی ذات پر مکمل بھروسا اور اس کا شکر ادا کرنا ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں آپ کے پاس اچھا گھر، گاڑی اور اولاد ہو۔ شکر کی اولین شرط ہر طرح کے حالات میں اس ذات کی نعمتوں کا اعتراف کرنا ہے۔ دل سے اس بات کو تسلیم کرنا ہے کہ ہم تیری دی ہوئی نعمتوں پر سجدہ شکر بجا لاتے ہیں۔ ہم اس لیے ناخوش رہتے ہیں کیوں کہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا صحیح وقت پر ادراک نہیں کرپاتے۔ ان نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے جو ہمیں میسر ہیں بلکہ ہمیں وہی چیزیں مطلوب ہوتی ہیں جو ہماری دسترس سے باہر ہیں۔ ہم کرائے کے گھر سے اپنا چھوٹا سا گھر لینے میں کام یاب ہوجاتے ہیں پھر بھی خوش نہیں رہتے کیوں کہ مزید اچھے کی خواہش ہمیں سکون کا سانس لینے نہیں دیتی اور اپنے رب کا شکر کرنے سے باز رکھتی ہے۔ موٹر سائیکل سے گاڑی تک کا سفر بھی ہمیں وہ تشفی نہیں کراتا کیوں کہ ہمیں بڑی گاڑی کی خواہش ہوتی ہے۔ یوں ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہم پوری دنیا سے ناخوش رہتے ہیں۔ آخری عمر میں بیٹھ کر اس نادان بوڑھے کی طرح آنسو بہاتے ہیں جس کا رونا ہوتا ہے کہ اسے زندگی میں کوئی خوشی نہیں ملی۔ اگر آپ بھی اس عمر میں ہیں اور ایسا سوچتے ہیں تو اپنی زندگی پر نظر دوڑائیے اور وہ لمحات ڈھونڈیے جب آپ نے خوشی کے جگنو نہیں تھامے۔ اگر آپ جوان ہیں تو اب بھی وقت ہے کیوں کہ خوشی کے جگنو ہمیشہ آپ کے آس پاس رہتے ہیں، بس انہیں آگے بڑھ کر تھامنے کی ضرورت ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے کیا پیاری بات بتائی کہ؛ ’’اس شخص کو دیکھو جو تم سے نیچے ہے، اسے مت دیکھو جو تم سے اوپر ہے۔‘‘

ایک حکایت ہے کہ ایک بزرگ کہیں جا رہے تھے۔ ان کے پیر میں جوتے نہیں تھے راستے میں انھوں نے دیکھا کہ ایک شخص دونوں ٹانگوں سے محروم سڑک کے کنارے بیٹھا بھیک مانگ رہا ہے۔ انھوں نے اسے دیکھا تو سجدۂ شکر میں گر گئے۔ یا اللہ تیرا کتنا شکر ہے کہ تونے مجھے دونوں پیر صحیح سلامت عطا کر رکھے ہیں جن سے میں چل پھر سکتا ہوں۔ برخلاف اس معذور شخص کے جو دونوں پیروں سے محروم ہے اور بھیگ مانگ رہا ہے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں