شادی کے بعد اکثر مرد حضرات یہی سوچتے ہیں کہ کاش وہ سماعت سے محروم ہوتے، کیوں کہ ساس بہو کی روایتی لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان بے چارے شوہر ہی کا ہوتا ہے۔ وہ مرد جو سارا دن اکڑ کر چلتا ہے، افسری کرتا ہے اور دفتر میں اپنا دماغ کھپاتا ہے، جب تھکا ماندہ گھر پہنچتا ہے تو بہت سے مسائل کا انبار موجود ہوتا ہے جو زیادہ تر گھریلو تنازعات کے ہوتے ہیں، ان چھوٹی چھوٹی باتوں کے سبب جن سے اکثر مرد حضرات جان چھڑاتے ہیں۔ مگر کریں تو کیا کریں کہ لوٹ کر آنا تو گھر ہی ہے۔
اماں کے پاس سلام کرنے گئے کہ بیگم کی شکایتیں شروع ’’تیری دلہن سارا دن بستر توڑتی رہتی ہے۔‘‘ (جب کہ وہ سارا دن کام کے بعد بہ مشکل ایک ہی گھنٹہ لیٹی ہو) ’’سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتی۔‘‘ (اب اگر وہ مروتاً خاموش ہوگئی تو کیا مضائقہ ہے۔‘‘ یہ نہیں ہوتا کہ مجھ بڑھیا کے پاؤں دبا دے، جوڑ جوڑ دکھتا ہے میرا۔ تو بھی چٹیا نہیں کھینچتا اس کی۔ جو رو کا غلام یہ نہیں ہوتا کہ دو ہاتھ لگا کر اس سے کہے کہ میری خدمت کیا کر۔‘‘ اتنے میں بیگم پانی کا گلاس لے کر آگئی۔ ’’آپ فریش ہو جائیں، میں کھانا لگاتی ہوں۔‘‘
’’دیکھا یہ تو چاہتی ہی نہیں کہ تو میرے پاس آکر بیٹھے، بس اسی کے پلو سے بندھا رہے۔‘‘ اماں پھر شروع ہوگئیں۔
اب اگر کھانے کے بعد کچھ سکون میسر آیا تو بیگم نے آغاز کیا۔ ’’بات سنیں! کیا آپ مجھے اس گھر میں نوکرانی بنا کر لائے ہیں، اپنے گھر میں تو میں کسی کام کو ہاتھ تک نہیں لگاتی تھی اور یہاں سارا سارا دن لگی رہتی ہوں، مگر اماں کی صلواتیں ختم نہیں ہوتیں۔ آپ کی بہنیں الگ باتیں سناتی ہیں۔ اس گھر میں میرے نوالے تک گنے جاتے ہیں اور آپ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔‘‘
’’یار میرے سر میں درد ہو رہا ہے، ایک کپ چائے ہی پلادو۔‘‘ بے چارہ شوہر اتنا ہی کہہ سکا۔ ’’میرا غم سننے کے لیے تو ٹائم ہی نہیں آپ کے پاس۔ آتے ہی اماں نے کان جو بھر دیے ہوں گے۔ آپ مجھے کب سے ہوٹل لے کر نہیں گئے اور نہ ہی شاپنگ پر۔‘‘
’’خدا کا خوف کرو پچھلے ہفتے ہی تو…‘‘
’’کیا پچھلے ہفتے؟ سات دن ہوتے ہیں ہفتے میں۔ گھر کا کھانا کھا کھا کر بور ہوگئی ہوں مگر آپ کو میری پروا ہی نہیں ہے۔ ذرا بھی پیار نہیں کرتے مجھ سے۔‘‘
’’اف میں کہاں پھنس گیا۔‘‘ شوہر کی منمناتی ہوئی آواز نکلی اور سر پکڑ لیا۔
’’کیا کہا؟ پھنس گیا؟ یعنی آپ مجھ سے شادی کر کے پچھتا رہے ہیں؟‘‘ نہیں یار یہ بات نہں ہے۔ میرا مطلب یہ نہیں تھا۔‘‘
’’جائیں میں آپ سے بات نہیں کرتی، میں جا رہی ہوں امی کے…‘‘ اسی دوران ماں نے آواز دی۔ ’’پھر جم کے بیٹھ گیا بیوی کے پاس۔ کہا بھی تھا کہ کھانے کے بعد ذرا میری بات سننا۔ اور ایک مرتبہ پھر ماں کا بہو کے خلاف شکایتوں کا دفتر کھل گیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر شادیاں خواتین کی وجہ سے ہی ناکام ہوتی ہیں، کیوں کہ عورت ہی گھر بناتی اور بگاڑتی ہے، چاہے وہ بہو کے روپ میں ہو یا ساس کے روپ میں۔ اگر یہ دونوں خواتین چاہیں تو رشتے میں نفرت و عداوت کی جگہ محبت اور دوستی قائم ہوسکتی ہے، جس سے اس کی گھریلو زندگی پر خوش گوار اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ساس کو چاہیے کہ بہو کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھے۔ جس طرح اپنی بیٹی کو تکلیف پہنچانے کا نہیں سوچ سکتی، اسی طرح بہو کو بھی پریشان نہ کرے۔ اس کی خطاؤں پر درگزر کرے، گھریلو معاملات میں بہو کو بھی برابر کا شریک رکھے۔ یعنی ہر اہم مسئلے میں بہو سے بھی رائے لی جائے تاکہ وہ خود کو گھر کا ایک فرد سمجھے۔ اسی طرح بہو کو بھی بہت سی باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ شوہر کے ساتھ ساتھ گھر کے تمام افراد پر یکساں توجہ دے، گھر والوں کی ضرورتوں کا خیال رکھے۔
لیکن ایسے میں سب سے اہم کردار شوہر کا ہوتا ہے۔ وہ وہی کرے جو ہمیشہ سے کرتا چلا آیا ہے۔ یعنی خاموشی اختیار کرے کیوں کہ ایک چپ سو بلاؤں کو ٹالتی ہے۔ یاد رکھیں کھانا پینا، کپڑا بیوی کا حق ہے اور اس حق کو خوش دلی کے ساتھ انجام دینا شوہر کا فریضہ بھی اور باعث اجر بھی ہے ۔ اسے خوش اسلوبی سے سر انجام دینے سے نہ صرف دنیا میں خوش گوار زندگی بنتی ہے بلکہ انسان آخرت میں بھی اجر و ثواب کا مستحق قرار پاتا ہے کیوں کہ آپ کی بیوی آپ کے بچوں کی آیا بھی ہے اور استانی بھی۔ وہ گھر کی مالی بھی ہے اور چوکیدار بھی اور آپ کی خزانچی بھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ آپ کی نفسیاتی معالج بھی ہے۔ اگر آپ کو کسی قسم کی پریشانی ہو تو وہ آپ کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ ہمارا شوہروں کے لیے یہی مشورہ ہے کہ دونوں رشتوں میں توازن برقرار رکھے۔ کبھی بھی بیوی کی باتوں میں آکر ماں سے بدتمیزی نہ کرے بلکہ بیوی کو حتی الامکان پیار سے سمجھانے کی کوشش کی جائے۔ اگر وہ نادانی کا مظاہرہ کرے تو اپنی سمجھ بوجھ استعمال کرتے ہوئے درست فیصلہ کرے اور انصاف اور برابری کا مظاہرہ کرے۔
اپنی خوش اخلاقی اور نرم مزاجی کو جانچنے کا اصل میدان گھریلو زندگی ہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وہی مومن اپنے ایمان میں کامل ہے جو اہل خانہ کے ساتھ خوش اخلاقی، خندہ پیشانی اور مہربانی کا برتاؤ رکھے۔ گھر والوں کی دل جوئی اور ہر ایک سے پیار محبت سے پیش آئے۔ یہی کامیاب گھریلو زندگی کا اصول ہے۔lll