آج کل تو دنیا بھر میں انسان کی اوسط عمر میں برابر اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، یورپ، امریکا، جاپان اور دیگر حصوں میں تو ۹۰ برس کی عمر ایک عام سی بات بنتی چلی جا رہی ہے اور اس کا اثر باقی دنیا پر بھی پڑا ہے کہ ایشیا اور افریقہ میں زچہ اور بچہ کی بہتر نگہداشت نہ ہونے کی وجہ سے جو جانیں ضائع ہوتی ہیں ان سے قطع نظر عمر کی اوسط حد میں اضافہ ہوا ہے اور یوں ۶۰ کی لائن کراس کرتے ہی ’’بزرگوں‘‘ کو زندگی کی دوڑ سے خارج کرنے کا رجحان اور رویہ کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔
بڑھاپے کو خوشگوار کیسے بنایا جا سکتاہے؟ اس پر چینی مفکرلِن یوتانگ کی کتاب کے علاوہ بھی بے شمار دانشوروں نے اظہارِخیال کیا ہے اور ترقی یافتہ دنیا میں ریٹائرمنٹ کی حد میں نہ صرف مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے بلکہ بعض شعبوں میں تو اس کو سرے سے ختم ہی کر دیا گیا ہے اور مختلف فنون کے ماہرین کی خدمات سے اس وقت تک استفادہ کیا جاتا ہے جب تک وہ جسمانی یا ذہنی صحت کے حوالے سے کام کرنے کے قابل رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں سرکاری طور پر اب تک برٹش راج کے زمانے کے بنائے ہوئے قوانین پر آنکھیں بند کرکے عمل کیا جا رہا ہے اور یوں ہمارا معاشرہ اس دانش سے فائدہ نہیں اٹھا رہا جو صرف اور صرف تجربے سے حاصل ہوتی ہے۔
یہ بحث اپنی جگہ پر بہت سنجیدہ اور فکرانگیز ہے لیکن ہر تصویر کی طرح اس کا بھی ایک دوسرا رخ ہے یعنی اگر اس صورتِ حال کو ہلکے پھلکے اور نیم مزاحیہ انداز میں دیکھنے کی کوشش کی جائے تو اس کا ایک اپنا لطف ہے۔
زندگی کے ۳ حصوں کو کسی ستم ظریف نے یوں بیان کیا ہے:
نوجوانی کی عمر: آپ کے پاس وقت اور طاقت تو ہوتی ہے مگر دولت نہیں۔
درمیانی عمر: آپ کے پاس دولت بھی ہوتی ہے اور طاقت بھی مگر وقت نہیں۔
بڑھاپا: آپ کے پاس وقت اور دولت دونوں ہوتے ہیں مگر طاقت رخصت ہوجاتی ہے۔
اس کے بعد پچاس ساٹھ اور ستر سال کی عمر کے لوگوں کو ان کی بڑھتی ہوئی عمر کے کچھ ایسے ’’فوائد‘‘ سے آگاہ کیا گیا ہے جو عام طور پر ان کے دھیان میں نہیں ہوتے۔مثال کے طور پر :
۱- بردہ فروش یا اغواکاروں کی فہرست سے آپ خارج ہوجاتے ہیں۔
۲- کسی ایسی صورت میں جب لوگوں کے کسی گروہ کو اغواکار گرفتار کرلیں تو سب سے پہلے رہا کیے جانے والوں میں آپ کے ایج گروپ کو ترجیح دی جاتی ہے۔
۳- لوگ آپ کو رات ۹ بجے فون کرکے بات کا آغاز اس جملے سے کر سکتے ہیں ’’میں نے آپ کو جگا تو نہیں دیا؟‘‘
۴- آپ کو سیکھنے کے لیے پہلے کی طرح محنت نہیں کرنا پڑتی۔
۵- جو اشیا آپ خریدتے ہیں ان کے پرانا اور بوسیدہ ہونے کے امکانات کم سے کم ہو جاتے ہیں۔
۶- اب آپ چاہیں تو رات کا کھانا ۴ بجے سہ پہر بھی کھا سکتے ہیں۔
۷- آپ سوائے اپنے نظر کے چشمے کے ہر چیز کے بغیر گزارا کر سکتے ہیں۔
۸- آپ کو سوائے اپنی پنشن کے معاملات کے کوئی پریشانی باقی نہیں رہتی۔
۹- ٹریفک پولیس کی مقرر کردہ حدِرفتار اب آپ کو مقابلہ کی دعوت نہیں دیتی۔
۱۰- آپ لفٹ کی آواز کے ساتھ آواز ملا کر اکیلے بھی گا سکتے ہیں۔
۱۱- اب آپ کی آنکھیںمزید خراب نہیں ہو سکتیں۔
۱۲- زندگی بھر کی ہیلتھ انشورنس میں کٹوائی ہوئی رقم اب آپ کے کام آنا شروع ہو جاتی ہے۔
۱۳- آپ کے گْھٹنے محکمہ موسمیات کی نسبت بہتر پیشین گوئی کر سکتے ہیں۔
۱۴- آپ کے راز آپ کے دوست کبھی افشا نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ان کی یادداشت سے بھی محو ہو چکے ہیں۔
لیجیے… ایڈٹ کرنے کے باوجود یہ تفصیل ۳ چوتھائی سے زیادہ کالم کھا گئی۔ سو اب اسی موضوع پر موصول ہونے والی دوسری دلچسپ تحریر کا ذکر پھر کبھی سہی۔ اصل بات یہی ہے کہ بڑھاپے کو اپنے اوپر طاری کرنے کے بجائے اسے زندگی کا ایک ایسا حصہ سمجھنا چاہیے جس میں انسان جسمانی طور پر شاید کمزور ہوتا چلا جاتا ہے مگر اس کی ذہنی صلاحیتیں زندگی بھر کے تجربات اور وہ دانش جو اس نے مختلف ذرائع سے حاصل کی ہے ایک ایسا خزانہ ہیں جو کسی صدقہ جاریہ کی طرح اس کے بعد آنے والوں کو منتقل ہوتا رہتا ہے اور ان کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے۔ بڑھاپے اور زندہ دلی کے حوالے سے مرحوم احمدندیم قاسمی ایک بہت دلچسپ واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ اْنھوں نے اپنی ایک بزرگ عزیزہ جنھیں وہ بی اماں کہا کرتے تھے، سے پوچھا کہ ۱۸۵۷ کی جنگِ آزادی کے دنوں میں آپ کی عمر کیا ہوگی؟ اس پر وہ مسکرا کر بولیں۔
’’ندیم بیٹا ۔۔۔۔۔۔! کچھ ٹھیک سے تو یاد نہیں مگر اِتنا یاد ہے کہ تمھارے افسانے بہت شوق سے پڑھا کرتی تھی۔lll