تنازعات انسانی سماج کا لازمی حصہ ہے۔ تنازعات کا نہ ہونا ایک غیر فطری خواہش ہے لیکن تنازعہ کا مبنی بر انصاف حل تلاش کرنا فطری ضرورت ہے۔ اگر تنازعہ میں انصاف کے ساتھ حل نہ نکالا جائے تو انسانی سماج میں افراتفری، بے چینی اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے عدل و انصاف کو پوری انسانی تاریخ میں بنیادی ضرورت تسلیم کیا گیا ہے۔ تنازعات میں ثالثی کی روایت قبائلی پنچایتوں سے لے کر موجودہ دور کے عدالتی نظام تک تسلسل کے ساتھ چلی آرہی ہے۔ اسلام جو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس نے انسانی زندگی کے کسی گوشہ کو دنیائی سے محروم نہیں رکھا ہے چناں چہ عائلی زندگی کے مسائل سے لے کر تمام امور میں اسلامی قوانین زبردست حکمت کے ساتھ موجود ہیں۔
اسلام اپنے ماننے والوں سے یہ تقاضہ کرتا ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیں یہ مطالبہ تنازعات اور اختلافات کو رفع کرنے میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں نزاع پیدا ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو، اگر تم واقعی اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (النساء:۵۹)
اہل ایمان کی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ جب وہ رسولؐ ان کے مقدمے کا فیصلہ کردیں تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ اسی طرح جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں انہیں فاسق قرار دیا گیا ہے۔ چناں چہ تنازعات میں فیصلہ سازی کا اختیار صرف اللہ اور اس کے رسول کو حاصل ہے اور لوگوں کے باہمی تنازعات میں اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کے نظام کو نظامِ قضاء کہا جاتا ہے۔
نظامِ قضاء کا تاریخی تسلسل
اہل ایمان کے لیے نظام قضا کا قیام دینی واجبات میں شمار ہوتا ہے لہٰذا قضا کا نظام تاریخی تسلسل کے ساتھ قائم نظر آتا ہے۔ اللہ کے آخری رسولؐ صحابہ کے درمیان اٹھنے والے تنازعات کو خود قرآنی احکام کی روشنی میں حل فرماتے تھے اور مختلف علاقوں میں آپؐ نے متعدد صحابہ کو قضا کی ذمے داریاں سونپی تھیں۔ اللہ کے رسولؐ کے ذریعے قائم کردہ یہ سلسلہ خلافت کے تمام ادواور میں پوری آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری رہا۔
ہندوستان میں مسلمانوں نے اپنی آمد کے ساتھ ہی نظام قضا کو اپنے مسائل کے حل کے لیے فیصلہ ساز ادارے کی حیثیت سے متعارف بھی کروایا اور یہاں رائج نظاموں سے توثیق بھی حاصل کرلی۔ بعد ازاں جب مسلم حکمرانی کا دور شروع ہوا تو حکومتی سطح پرنظامِ قضا کو رائج کیا گیا۔ مغلیہ عہد تک ہندوستان میں نظام قضا قائم رہا بلکہ انگریزوں کے ملک پر قبضہ کے بعد عرصہ تک قاضیوں کے مشورے فیصلوں میں شامل ہوتے رہیں۔ لیکن ۱۸۶۲ میں اسلام کے فوجداری قانون کو ختم کر کے ’’انڈین پینل کوڈ‘‘ نافذ کر دیا گیا اور نکاح، طلاق اور وراثت، ہبہ جیسے عائلی اور شخصی امور کی حد تک اسلامی قوانین کو باقی رہنے دیا گیا۔ لیکن جب اس میں بھی دخل اندازیاں ہونے لگیں تو علمائے کرام اور مسلمانوں نے پرزور مطالبہ کر کے شریعت پر عمل آوری کے حق کو منوایا اور ۱۹۳۷ میں شریعہ اپلیکیشن ایکٹ ۱۹۳۷ کا نفاذ عمل میں آیا۔ اسی قانون کو مسلم پرسنل لا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس قانون کی رو سے شادی بیاہ، مہر نان نفقہ، طلاق، خلع، فسخ نکاح، ولایت ہبہ، وراثت اور اوقاف میں فریقین مسلم ہونے کی صورت میں فیصلہ اسلامی شریعت کے مطابق ہوگا۔ گو کہ عائلی مسائل میں آج بھی فیصلے پرسنل لا کے مطابق ہوتے ہیں لیکن اس سلسلے میں مسلمان مستقل بے چینی کی کیفیت میں ہے کہ یہ حق بھی ان سے چھین نہ لیا جائے۔
حالیہ دنوں میں عدلیہ کی جانب سے شریعت میں مداخلت کے مختلف مثالیں سامنے آرہی ہیں۔ حکومت اس کا بہانہ بنا کر یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ خود مسلمانوں میں دین پر عمل آوری کے جذبے کی کمی اور شرعی فیصلوں کی اہمیت سے ناواقفیت کی بنا پر ملکی عدالتوں میں ایسے معاملات جا رہے ہیں جو پوری امت کی رسوائی کا سبب بن رہے ہیں۔ ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہمہ جہتی منصوبہ بنا کر کام کیا جائے۔ اسلام کی عائلی تعلیمات کو ہر مسلم تک پہنچایا جائے۔ دین پر عمل آوری کا جذبہ پیدا کیا جائے اور اپنے تنازعات شریعت کے دائرے میں رہ کر حل کرنے کا مزاج بنایا جائے۔
امید کی کرن
اس بات پر اللہ کا شکر بجالانا لازمی ہے کہ تمام تر مخالفتوں اور آزمائشوں کے باوجود امت میں دین کے نام پر جان نچھار کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ شریعت کو مسلمان اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ عدالتی نظام کی بجائے شریعت کے مطابق فیصلہ کا رجحان اب بھی مسلمانوں میں پایا جاتا ہے گو کہ تناسب کم ہے۔ ملت مستقل اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ عوام الناس کو شریعت پر عمل کے لیے آمادہ بھی کیا جائے اور ایسے اداروں تک ان کی رسائی بھی ہو جہاں وہ اپنے معاملات شریعت کے مطابق حل کروا سکیں۔ چناں چہ ۱۹۲۱ میں امارت شرعیہ بہار کا قیام اسی غرض سے عمل میں آیا تھا اور آج بھی یہ ادارہ سرگرم عمل ہے۔ اس کا دائرہ بہار، جھارکھنڈ اور اڑیسہ تک ہے۔ علاوہ ازیں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے تحت ۱۹۹۲ میں کلکتہ اجلاس میں طے کی گئی قرار داد کے مطابق پورے ملک میں دار القضا کا نظام قائم کرنے کا عزم کیا گیا تھا۔ پرسنل لا بورڈ کے تحت اس وقت ۴۹ دار القضا کا نظم الگ الگ ریاستوں میں چل رہا ہے۔ جہاں تربیت یافتہ قاضیوں کے ذریعے عائلی تنازعات کا شریعت کی روشنی میں حل نکالا جا رہا ہے۔ ان اداروں کے تحت اپنے معاملات کو حل کرنے کی ترغیب دینا انتہائی ضروری ہے۔ ملک کی اہم تحریک جماعت اسلامی ہند مختلف مہمات کے ذریعے ان اداروں کو تقویت بخشنے کا کام کر رہی ہے۔ ساتھ ہی فیملی کونسلنگ سینٹرس اور شرعی پنچایتوں کے قیام کا بھی جامع منصوبہ اور عمل آوری کا کام کر رہی ہے۔
اِن شرعی عدالتوں میں اپنے تنازعات کے حل کے لیے رجوع کرنے کے بے شمار فائدے ہیں:
مسئلہ کا حل دین پر عمل
تنازعات انسانی نفس اور شیطانی فتنہ کے سبب پیدا ہوتے ہیں، لیکن ان کے حل کے لیے اسلام نے جو طریقے بتائے ہیں ان پر عمل آوری اجر و ثواب کا سبب بنتی ہے۔ اہل ایمان کی صفت بتاتے ہوئے قرآن کہتا ہے:
’’اے پیغمبر! تمہارے رب کی قسم یہ مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ ایسا نہ ہو کہ یہ اپنے باہمی اختلافات میں تمہیں حکم نہ مان لیں، پھر تم جو فیصلہ کرو اس پر اپنے دل میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں۔‘‘ (النساء:۶۵)
سورہ احزاب میں فرمایا گیا:’’کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کردینے کے بعد اپنے معاملہ میں کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔‘‘ (الاحزاب:۳۶)
اللہ اوراس کے رسولؐ کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں کو قرآن آگاہ کرتا ہے:
’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی حدوں سے تجاوز کرے گا اللہ اس کو آگ میں داخل کرے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔‘‘ (النساء:۱۰۴)
اتنی واضح تعلیمات کی موجودگی میں کوئی بھی اہل ایمان جانتے بوجھتے اپنی دنیا و عاقبت خراب نہیں کر سکتا ہے۔
سہولت اور آسانی
سرکاری عدالتوں کے مقابلے میں دار القضا میں رسائی انتہائی آسان ہے۔ عام طور پر مساجد میں اس کے دفاتر ہوتے ہیں۔ کسی وکیل کی رہ نمائی کے بغیر فریق خود اپنے موقف کو قاضی کے پاس رکھ سکتا ہے۔ سرکاری عدالتوں میں کیس رجسٹر کرنے کا جو طریقہ کار ہے وہ مشکل ترین ہے اور محکمہ پولیس کا عمل دخل اس میں ہوتا ہے۔ بعد میں بھاری بھرکم فیس ادا کر کے وکیلوں کی خدمات لینی ہوتی ہیں۔ لیکن یہاں راست ربط کر کے تحریری طور پر اپنا مسئلہ بتانا ہوتا ہے جس کے بعد دونوں فریقوں کو تحریری اطلاع کے ذریعے متعین تاریخ پر حاضر ہوکر اپنے موقف کو پیش کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔
وقت ضائع نہیں ہوتا
سرکاری عدالتوں میں کسی مسئلہ کو فیصلے کے مقام تک پہنچنے میں غیر متعین وقت درکار ہوتا ہے۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ سرکاری عدالتی نظام سے کسی کو اگر انصاف حاصل کرنا ہے تو اس کے لیے عمرِ نوح اور صبر ایوب اور خرانہ قارون درکار ہوتا ہے ۔ دار القضاء میں معاملے کی نوعیت کے مطابق دو سے چار مہینے میں یک سوئی حاصل کی جاسکتی ہے۔
عدالتوں میں زیر التوا مقدمات پر ایک نظر ڈالی جائے تو اس کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ شرعی عدالتوں کا کس قدر فائدہ ہے، بلکہ یہ ایک نعمت ہے۔
عدالتی نظام پر بوجھ
ہندوستانی عدالتوں میں 3,13,69,568 مقدمات التوا میں ہیں جس میں سے تقریبا 80لاکھ مقدمات ایسے ہیں جو تقریبا 05 سال سے زائد مدت سے التوا میں ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا میں 17 جنوری 2017 کو شائع ہوئے تجزیے کے مطابق 2040 تک التوا میں بڑے مقدمات کی تعداد پندرہ کروڑ تک پہنچ جائے گی۔
آندھرا پردیش کے چیف جسٹس مسٹر وی وی راؤ کے مطابق ہمیں التوا میں پڑے مقدمات کے فیصلوں کے لیے 320 سال درکا رہوں گے۔
سال گزشتہ میں کیے گئے سروے کے مطابق ہندوستان کے ڈسٹرکٹ کوٹس میں 2.18 کروڑ کیس التوا میں ہیں۔ 12ریاستوں میں تقریباً پانچ لاکھ مقدمات سنوائی کے لیے منتظر ہیں اور ایک ایک مقدمہ کے لیے اگر دس سال کی مدت درکار ہو تو کتنا وقت درکار ہوگا اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، ان مقدمات میں 20 لاکھ مقدمات خواتین کی جانب سے درج کرائے گئے ہیں۔
کم خرچ، بالا نشین
سرکاری عدالتوں میں وکلا حضرات کس قدر فیس وصول کرتے ہیں اس کا درست اندازہ تو انہی لوگوں کو ہوتا ہے جو اس کیفیت سے گزر چکے ہیں۔ مقدمہ کو پیچیدہ در پیچیدہ کر کے اور ہر مرحلہ پر مقدمہ آپ کے حق میں ہونے کا تیقن دلا کر فیس اینٹھی جاتی ہے۔ جب کہ دار القضا اور شرعی پنچایتوں میں اپنے عائلی معاملات کو حل کرانے میں کوئی خرچ نہیں آتا۔ یہاں فریقین بلا خرچ کیے اطمینان بخش شرعی فیصلے حاصل کر سکتے ہیں۔
شریفوں کے فیصلے؟؟
خاندانی نزاعات میں عام طور پر میاں بیوی کے درمیان ہونے والے ناخوشگوار واقعات جب سرکاری عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں تو ہر فریق دوسرے کی تحقیر کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا ہے۔ پھر الزام در الزام کی وہ صورت حال سامنے آتی ہے کہ انتہائی راز داری کی باتیں بھی بے شرموں کی طرح میاں بیوی ایک دوسرے کے خلاف بھری عدالتوں میں بولنے لگتے ہیں۔ بے حیائی کا بازار گرم ہوتا ہے۔ غیر مسلم وکلا اور ججز ان کے گواہ بنتے ہیں جب کہ شرعی عدالتوں میں رازوں کی حفاظت ہوتی ہے۔ مسجدوں میں چلائے جانے والے دفاتر میں ایک خاص روحانی ماحول میں فریقین ایک دوسرے کے بارے میں بے حیائی کی باتوں سے باز رہتے ہیں ۔ جھوٹ کا سہارا نہیں لینا پڑتا اور اس طرح حیا کا خون نہیں ہوتا اور رازوں کی حفاظت بھی ہوتی ہے۔
خوف خدا کے سائے میں
تنازعات کا بر وقت حل نہ ہو تو وہ ہر وقت سر ابھارتے ہیں۔ ایک خوش حال معاشرے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہاں لوگ ایک دوسرے سے عفو و درگزر کا معاملہ کریں۔ خدا کی عدالت کے لیے کچھ معاملات کو چھوڑ دیں، خوف خدا کے تحت اور اللہ سے انصاف کی امید پر بعض معاملات کو چھوڑ کر ہی ایک فرد مطمئن ہو سکتا ہے۔ اگر اسی دنیا میں انصاف کی ہٹ لگائے کوئی شخص عدالتوں کے جگر لگاتا رہے تو ہاتھ کچھ نہیں آتا تمام عمر پریشان رہتا ہے۔
شریعت کے مطابق فیصلے میں حق نہ ملنے کی صورت میں یہ احساس بہرحال دل میں ہوتا ہے کہ اللہ کی عدالت میں مزید فیصلہ ہونا ہے جہاں کسی پر ذرہ برابر زیادتی نہیں ہوگی۔ اس احساس کے ساتھ معاملات کا فیصلہ کرنے سے معاشرہ میں عمومی خوش حالی کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
اسلام اس پوری دنیا پر غالب ہونے کے لیے آیا ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی زندگی پر دین قائم کرنا اہل ایمان پر فرض ہے۔ معاشرت، سیاست ، معاشیات، غرض ہر شعبہ میں دین کی اقامت کے لیے ضروری ہے کہ متبادل نظام پیش کر کے دنیا کو یہ بتایا جائے کہ اسلام کے نظام رحمت میں کس قدر عملیت اور سکون ہے۔ شرعی عدالتوں کا نظام اقامت دین کے لیے ضروری ہے۔ یہ موجودہ عدالتوں کا کم از کم عائلی مسائل میں متبادل پیش کرتا ہے۔
ہماری ذمہ داریاں
پرسنل لا بورڈ اور امارت شرعیہ بہار کے تحت چلائے جانے والے دار القضا کو خلاف دستور قرار دینے اور اسے ہندوستانی عدالتوں کا متبادل قرار دے کر پابندی عائد کرانے کی کوشش ہوتی رہتی ہے۔ لیکن فی الوقت ان کوششوں کو کامیابی نہیں مل پائی ہے۔
2005 میں وشولوچن مدن نامی ایک ایڈوکیٹ نے سپریم کورٹ میں اپیل کی کہ دار القضا کے سسٹم پر پابندی عائد کی جائے۔ اس معاملے کی مختلف اداروں کی جانب سے کامیاب پیروی کی گئی اور سپریم کورٹ کے بنچ نے ۷ جولائی ۲۰۱۴ کو اس ریمارکس کے ساتھ رٹ کو خارج کر دیا:
حالاں کہ ہمارے دستوری فریم میں یہ اجازت موجود نہیں ہے تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دار القضا کا وجود ہی غیر قانونی ہو۔ یہ انصاف دلانے کا غیر رسمی نظام ہے جس کا مقصد فریقین کو باہم مفاہمت پر آمادہ کرنا ہے۔ (Case No;386, civil of 2005)
اسی طرح ایک نام نہاد مسلم نظیر نور علی نامی شخص نے ممبئی ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کے تحت ایک کیس فائل کرا کے دار القضاء کو متوازی کورٹ ثابت کرتے ہوئے ہندوستانی عدلیہ کے لیے نقصان دہ باور کراتے ہوئے پابندی کا مطالبہ 2014 میں کیا تھا۔ بمبئی ہائی کورٹ نے اس پٹیشن کو 24نومبر 2016 کو اس ریمارکس کے ساتھ خارج کر دیا کہ یہ سسٹم غیر قانونی نہیں کہا جاسکتا جیسا کہ Apexکورٹ اس سے قبل کہہ چکی ہے۔ (PIL56/2014)
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان شرعی تعلیمات سے واقف بھی ہوں اور عمل پیرا بھی۔اگر یہ کام کیا جاتا ہے تو پرسنل لا میں کی جا رہی مداخلت کی کوششیں اور دار القضاء کو خلاف دستور قرار دیے جانے کے لیے کی جانے والی تمام حرکتیں خود اپنے انجام کو پہنچیں گی۔
اس سلسلے میں رائے عامہ کی بے داری کی بے حد ضرورت ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ برادران وطن کو بھی شریعت کی حکمت اور عملیت سے واقف کرانا ضروری ہے۔