دریا دل

دانشؔ چک بالا پوری

اللہ کے نام پر کچھ دے دو ،بہن۔۔۔۔۔۔کھانے کے لئے کچھ دے دو۔۔۔۔۔۔۔‘‘

باہر سے کانوں میں رس گھولتی ہوئی آواز آئی اور میں تلاوت کرتے کرتے چونک پڑا،میں نے محسوس کیا کہ آواز میں کچھ ایسی خاص بات ہے جو پیشہ ور بھکاریوں کی آواز میںنہیں ہو سکتی ۔ورنہ عام طور پر بھکاریوں کی آواز توکسی نفرت کے زہر میں بجھے تیر کی طرح ہوتی ہے جوکان کے پردوں پر خراش ڈالتی ہوئی گزر جاتی ہے۔گویا وہ امیروں کے تئیں اپنے دل میں چھپے حسد اور جلن کی بھڑاس اپنی آواز کے ذریعہ نکال رہے ہوتے ہیں۔سائل کی پیاری آواز کو شاید میری بیوی نے بھی سن لیا تھا، برتن میںکچھ لے کر باورچی خانے سے نکلی اور ہال سے ہوتی ہوئی باہر نکل گئی۔میں نے دیوار گھڑی پر نظر ڈالی ،صبح کے آٹھ بج رہے تھے اورمیرے دُکان جانے میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے۔میں پھر تلاوت میں غرق ہوگیا۔کچھ دیر بعد میں نے دیوار گھڑی پر نظر ڈالی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دس بج رہے ہیں اور میری بیوی ،خیرات دینے نکلی تھی مگر ابھی تک نہیں لوٹی!دفعتاً وہ گھر میں داخل ہوئی تو میں نے دیکھا کہ وہ روہانسی ہورہی ہے!میں نے فکر مند لہجے میں پوچھا :۔

’’بات کیا ہے بیگم،یہ بھکاریوں پر موتی کیوں لٹائے جا رہے ہیں؟‘‘

اس نے اپنی آنکھوں سے گرتے موتیوں کو اپنے پلو میں سمیٹتے ہوئے،سوں ںںں۔۔۔۔۔۔۔۔کی زوردار آواز کے ساتھ ناک چڑھائی اور کہا:

’’بھکاری کیوں کہتے ہو جی۔۔۔۔۔سب بھکاری ایک جیسے نہیں ہوتے ،مفلس کہئیے!‘‘

میں نے چڑانے والے انداز میں کہا:

’’اچھا !تو بھکاریوں کی وکالت بھی ہو رہی ہے آج کل؟آخر بات کیا ہے؟ پوری کہانی تو سنائو‘‘

میری بیوی نے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے کہنا شروع کیا:

’’جب میں اس مفلس عورت کے برتن میں خیرات ڈال رہی تھی تو میں نے محسوس کیا کہ وہ خیرات لینے میں شرمندگی محسوس کر رہی ہے ،جھجک رہی ہے۔جب کہ عام پیشہ ور بھکاریوں کے اندر یہ بات نہیں ہوتی۔میں نے دیکھا کہ مجھ سے خیرات لیتے ہوئے،وہ اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے اور ہونٹ سختی سے بھینچے ہوئے ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اپنے آپ پر جبر کرتے ہوئے برتن آگے بڑھا رہی ہے۔ میں نے اس مفلس عورت کے سراپے کو غور سے دیکھا تو محسوس ہوا کہ وہ پیشہ ور بھکارن نہیں ہوسکتی بلکہ ہے کسی مجبوری کے تحت بھیک مانگنے پر مجبور ۔۔۔‘‘

میں نے اپنی بیوی کی بات بیچ ہی میںکاٹتے ہوئے کہا:

’’تم بھی نا بیگم۔۔۔۔۔۔۔ ارے تم ان بھکاریوں کے چونچلوں کو نہیں سمجھتیں!یہ بھکاریوں کی قوم بھی آج کل بہت ترقی کر گئی ہے۔بھیک مانگنے کوبھی ان لوگوں نے ایک فن میں بدل دیا ۔۔۔۔‘‘

میری بیوی نے مجھے پوری بات کرنے نہیں دی اور بیچ میں ہی بول پڑی۔

’’اجی،پہلے پوری بات تو سن لیجئے،یہی تو مسئلہ ہے آپ کے ساتھ کہ بات پوری ہونے سے پہلے ہی گمان کے گھوڑے دوڑانے لگتے ہیں۔‘‘

میں نے مصنوعی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

’’اچھا۔۔۔۔۔اچھا۔۔۔۔ٹھیک ہے ۔۔۔۔ تو پھر فرمائیے۔‘‘

اس نے خلاء میں گھورتے ہوئے سنجیدگی سے کہنا شروع کیا:

’’جب میں اس کے برتن میں کھانا ڈال چکی تو اس مفلس عورت کی بچی نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا :

’’امی جان ،آنٹی نے اتنا دیا ہے کہ یہ کھانا آج کی افطاری اور کل کی سحری کے لئے کافی ہوسکتا ہے،اب کیوں دوسرے گھروں سے مانگیں؟‘‘تو اس مفلس عورت نے اپنی معصوم بچی سے اتفاق کرتے ہوئے کہا :

’’ہاں میری بیٹی ،تم ٹھیک کہتی ہو۔بہن نے یک مشت ہمیں اتنا دے دیا ہے کہ کل تک ہمیں کسی اور سے کچھ مانگنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔اللہ ،بہن کے سہاگ کو سلامت رکھے اور ہر بلا کو بہن کے گھر سے دور کردے۔‘‘

اتنا کہہ کر میری بیوی نے اپنے آنسو خشک کئے اور تھوڑے توقف کے بعد پھر گویا ہوئی:

’’اس ماں اور اس کی معصوم بچی کی باتیں سننے کے بعد مجھ سے رہا نہیں گیا،میں نے ان کو بٹھا یا اور ان کے حالات پوچھے۔پتہ چلا کہ وہ عورت حال ہی میں بیوہ ہوئی ہے۔شوہر کے بعد گھر میں کمانے والا کوئی نہیں ہے۔جب یہ بیوہ ،جوان اور حسین عورت کام کی تلاش میں نکلتی ہے توہوس پرست نظریں اس کا پیچھا کرتی ہیں۔گھر بیٹھے کرنے والے کام کی تلاش میں ہے مگر کوئی ایسا کام اب تک اسے نہیں ملا ۔اس لئے یہ شریف النفس عورت بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئی ہے۔‘‘

اتنا کہہ کر وہ چپ ہو گئی اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی!میںنے پوچھا:

’’صرف اتنا ہی۔۔۔۔۔بیگم ،تمہارے پورے 120متٹ ان بھکاری ۔۔۔۔مم ۔۔۔۔میرا مطلب ہے ان مفلس ماں بیٹی کے ساتھ گزرے ہیں،کیا ان 120منٹ،مطلب دو گھنٹوںمیں صرف اتنی ہی باتیں ہوئیں ہیں۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘

اس نے جھلاکر کہا:

’’رمضان کا مہینہ ہے روزے سے ہوپھر بھی اپنی روزے دار بیوی کو تنگ کرنے سے باز نہیں آتے!۔۔۔۔ ۔۔۔ہاں ںں ںں ںں ۔ ۔ ۔ ہوں میں باتونی۔۔۔۔۔توکیا ہوا؟میری باتوں سے کبھی کسی کو نقصان ہوتے ہوئے دیکھا ہے ؟۔۔۔۔۔۔بھلی باتیں ہی تو کرتی ہوں۔۔ ۔ ۔ پھرخواہ مخواہ آپ کیوں میری باتونی فطرت کو کوستے رہتے ہیں؟‘‘

حالات کی سنجیدگی کے مدِنظر میں نے اسے ٹالتے ہوئے کہا:

’’بے کار کی باتیں چھوڑو بیگم،وہ ۔۔۔۔میں بس مذاق کر رہا تھا۔پھر کیا ہوا ۔۔۔۔یہ تم نے بتایا ہی نہیں؟‘‘ اس کی پیشانی سے پریشانی کی لکیریں غائب ہو گئیں جو میری طنزیہ باتوں سے اُبھر آئی تھیں۔اس نے پُر سکون لہجے میں کہنا شروع کیا:

’’پھر کیا ہونا تھا؟۔۔۔۔ میں نے اس مفلس ماںبیٹی سے کہہ دیا ہے کہ وہ آج سے کہیں اور بھیک مانگنے کے لئے نہیں جائیں گی۔وہ مفلس عورت آکر گھر کے کاموں میں میرا ہاتھ بٹادیا کرے گی اور اس کی معصوم بچی کو آپ پہلی فرصت میں جاکر اسکول میں داخلہ دلوا ئیں گے !۔۔۔۔۔۔‘‘

اتنا کہہ کر وہ چند ساعتوں تک میری آنکھوں میں جھانکتی رہی اور پھر سنجیدہ لہجے میں کہنے لگی:

’’آپ قرآن کی تلاوت کے ساتھ ساتھ ترجمہ بھی پڑھ لیا کیجئے،پتہ چلے گا کہ مرد عورتوں سے عالی اس لئے ہیں کہ وہ اپنی کمائی عورتوں پر خرچ کرتے ہیں۔ اب جائیے۔۔۔جاکر اپنا کاروبار سنبھالئے ،گھر میں ہم عورتوں کے معاملات میں اپنی ٹانگ اڑانا بند کیجئے۔۔۔۔اورہاں، ایک بات اور۔۔۔۔۔وہ آپ کے دوست، رفیق بھائی۔۔۔۔جن کی بیوی کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے،انکے نکاحِ ثانی کے تعلق سے آپ سے مشورہ کرنا ہے جلدی گھر آجائیے۔‘‘

اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا،اس نے گھڑی کی طرف اشارہ کیاا ور اپنا نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر میری طرف لپکی!میںاپنے آپ کواس بپھری شیرنی سے بچاتے ہوئے دوڑکرحمام میں گھس گیا۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں