دعوت و اصلاح کا مشن اور خواتین

محمد رضی الاسلام ندوی

خواتین کے بارے میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ دعوت و اصلاح کا کام ان سے متعلق نہیں ہے۔ ان کا کام تو بس شوہروں اور ان کے گھر والوں کی خدمت کرنا، بچے پالنا اور گھر گھرہستی میں مشغول رہنا ہے۔ جو خواتین تعلیم یافتہ ہوتی ہیں ان کی اکثریت بھی شادی کے بعد گھروں تک محدود ہوجاتی ہے۔ کچھ روزگار اور ملازمت حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتی ہے، لیکن ان کے علم سے سماج اور ملت کو کچھ فائدہ پہنچے ، ایسا بہت کم ہوتا ہے۔

اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ خواتین کو سماج سے کاٹ دیا گیا ہے۔ ان کی حیثیت مسلم سماج میں ایک معطل عضو کی سی ہو کر رہ گئی ہے۔ وہ کوئی سرگرم رول ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ اس لیے کہ ان کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ ان کامقام گھر کی چہار دیواری کے اندر ہے۔ وہ نہ سماجی اور رفاہی خدمات انجام دے سکتی ہیں اور نہ معاشرہ میں پھیلی خرابیوں کی اصلاح میں کوئی سرگرمی دکھا سکتی ہیں۔ پھر جب مسلم سماج میں ان کا کردار اور مقام محدود ترکر دیا جائے تو غیر مسلموں میں دعوت ِ دین کے کام کے بارے میں ان سے کیا امید کی جا سکتی ہے؟!

حقیقت یہ ہے کہ یہ خواتین پر مسلم سماج کا بے جا دباؤ اور ناروا پابندی ہے۔ خواتین سماج کا اسی طرح حصہ ہیں جیسے مرد ہیں۔ دین کے ان سے بھی ویسے ہی تقاضے ہیں جیسے مردوں سے ہیں۔ اس لیے انھیں بھی سرگرم عمل ہونا چاہیے اور اپنے علم، اوقات اور صلاحیتوں سے دوسروں کو اسی طرح فیض پہنچانا چاہیے، جیسے مرد پہنچاتے ہیں۔

اسلام نے مردوں اور عورتوں کو یکساں طور پر مخاطب کیا ہے۔انھیں ایمان لانے کی دعوت دی ہے اور اس پر اللہ کے اجر و انعام کا وعدہ کیا ہے۔ جو بھی اس دعوت پر لبیک کہے گا وہ کام یاب ہوگا اور جو اسے رد کرے گا، ناکامی اس کا مقدر ہوگی۔ ایمان کے تقاضوں پر عمل کے معاملے میں بھی مردوں اور عورتوں کو یکساں حیثیت دی گئی ہے۔ جو بھی اچھے ا عمال کرے گا ان کی جزا پائے گا اور جو برے کاموں کا ارتکاب کرے گا ان کی سزا سے خود کو نہ بچا پائے گا۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:

’’ میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں، خواہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو‘‘۔ (آل عمران: ۱۹۵)

سماج کی تعمیر کا کام ہو یا تخریب کا، اسے اچھے کاموں میں آگے بڑھانا ہویا بری اور غلط راہوں پر ڈالنا، دونوں میں عورت کا حصہ ہوتا ہے۔ نوعِ انسانی کی نصف آبادی کی شرکت کے بغیر دنیا میں کوئی انقلاب برپا نہیں ہو سکتا۔ تہذیب و تمدن کو آگے بڑھانے میں دونوں کی جدّو جہد شامل ہونی چاہیے۔ نظریات کو پھیلانے اور ان کو استحکام بخشنے میں ہمیشہ عورت مرد کے دوش بدوش رہی ہے۔ اسلام نے عورت کے اس کردار کو پوری طرح تسلیم کیا ہے۔ اس کے نزدیک مرد اور عورت مل کر سماج کو بنانے ، سنوارنے کا کام بھی کر سکتے ہیں اور اس میں بگاڑ بھی کر سکتے ہیں۔ وہ اگر اللہ سے ڈرنے والے، نیک فطرت اور باکردار ہوں تو سماج کی تعمیر و ترقی اور اس میں صالح قدروں کے فروغ کے لیے مل جل کام کریں گے۔ لیکن اگر وہ خدانا شناس، غلط رَو اور بد کردار ہوں تو سماج کو غلط رخ پر ڈالنے اور اس میںفتنہ و فساد پھیلانے میں ایک دوسرے کا تعاون کریں گے۔ گویا سماج اچھا ہو یا برا، مرد و عورت کی مشترکہ جدّ و جہد سے وجود میں آتا ہے۔ اس کے بغیر سماج کی اصلاح کا تصور کیا جا سکتا ہے نہ بگاڑ کا۔

سورۂ توبہ میں یہ حقیقت کھول کر بیان کر دی گئی ہے۔ اس میں پہلے منافق مردوں اور عورتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ وہ برائیوں کو پھیلانے اور نیکیوں سے روکنے میں ایک دوسرے کے مددگار بنتے ہیں۔(آیت: ۶۷) پھر چند آیات کے بعد اہل ایمان مردوں اور عورتوں کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے:

’’مومن مرد اور مومن عورتیں ، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی۔ یقیناً اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔‘‘ (التوبۃ: ۷۱)

اس آیت میں اہل ِ ایمان مردوں اور عورتوں کی چند خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ اس میں کئی باتیں قابل ِ غور ہیں:

اول: اس میں مردوں اور عورتوں کو یکساں طور پر اہمیت دی گئی ہے اور ان دونوں کا تذکرہ ساتھ ساتھ کیا گیا ہے۔

دوم: دونوں کے تعلق سے ان کاموں کا تذکرہ کیا گیا ہے جو انھیں ذاتی طور پر انجام دینے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ نماز حقوق اللہ کی تعبیر ہے اور زکوٰۃ حقوق العباد کی۔ اور اللہ اور رسول کی اطاعت میں دین کے تمام تقاضے شامل ہیں۔

سوم: کہا گیا ہے کہ وہ معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے روکتے ہیں۔ یہ قرآن مجید کی ایک خاص اصطلاح ہے جو دعوت ِ دین اور اصلاح ِ معاشرہ کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یعنی ان کا کام صرف ذاتی طور پر ہی دین کے تقاضوں پر عمل کرنا نہیں ہے، بلکہ انہیں دوسروں کو بھی اس کی طرف دعوت دینی ہے اور اس راہ پر چلانے کی کوشش کرنی ہے۔

چہارم: یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اس کام کو تنہا انجام نہیں دیتے، بلکہ اس میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

میدان ِ دعوت میں مسلمان خواتین کے لیے کام کرنے کے بہت مواقع ہیں۔ وہ اپنی صلاحیتوں سے اپنے خاندان ، سماج ، بلکہ پوری انسانیت کو فیض پہنچا سکتی ہیں۔

کام کا پہلا دائرہ عورت کا اپنا گھر ہے۔ اس کا براہِ راست اور قریب ترین تعلق اپنے شوہر سے ہوتا ہے، اس لیے اس کا حق سب پر مقدم ہے۔ زوجین ایک دوسرے کے لیے باعثِ سکون ہیں۔ زندگی کی تگ و دَو میں وہ ایک دوسرے کے شریک وسہیم ہیں۔ حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے اس عورت پر رحمتِ الٰہی کی دعا کی ہے جو رات میں نماز کے لیے اٹھے اور اپنے شوہر کو بھی اٹھائے، پھر دونوں مل کر نماز پڑھیں۔ (ابو داؤد: ۱۳۰۸) یہ صرف ایک مثال ہے، ورنہ دوسرے نیک کاموں میں تعاون پر بھی عورت اسی طرح اجر کی مستحق ہوگی۔ ایک حدیث میں اس عورت کو دنیا کی بہترین دولت کہا گیا ہے جو ایمان کے راستے میں اپنے شوہر کی مدد کرے۔ (ترمذی: ۳۰۹۴) عورت دین کے کاموں میں شوہر کا تعاون کرے تو وہ بڑی تقویت محسوس کرتا ہے اور اس راہ کی مشکلات کو برداشت کرنا اس کے لیے آسان ہوجاتا ہے۔

اگر عورت دین دار ہو ، لیکن شوہر میں اتنی دین داری نہ ہو، یا وہ بے دین ہو تو عورت کے ذمے داری بڑھ جاتی ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ محبت، ہم دردی اور دل سوزی کے ساتھ اسے سمجھانے کی کوشش کرے۔ معروف میں اس کی اطاعت کرے اور وہ کسی منکر کا حکم دے تو نرمی کے ساتھ اس سے معذرت کردے اور کچھ خفگی مول لینی پڑے تو اسے برداشت کرے۔ شوہر کے احترام اور تعلق خاطر میں کمی نہ آنے دے۔ امید ہے کہ اس رویے سے شوہر کا دل جیتا جا سکتا ہے۔

کام کا دوسرا دائرہ بچوں کی اصلاح ہے۔ عورت ان کی نگراں اور سرپرست ہے۔ حدیث میں ہے کہ عورت سے بچوں کے بارے میں باز پرس کی جائے گی۔ (بخاری: ۲۵۵۴، مسلم: ۱۸۲۹) ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرے، دین کا صحیح اور جامع تصور ان کے ذہنوں میں بٹھائے اور ان کے اخلاق و کردار کو اسلام کے سانچے میں ڈھالے۔ آج کل، جب کہ سماج میں برائیاں عام ہیں، بچے گھر سے باہر رہ کر بہت سی غلط اور گندی باتیں سیکھتے ہیں، ان کی اصلاح میں مائیں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔

کام کا تیسرا دائرہ خاندان کی اصلاح ہے۔ مسلمان عورت اپنے بھائیوں، بہنوں، ان کی اولاداور میکہ اور سسرال کے دوسرے رشتے داروں کے درمیان دعوت و تبلیغ اور اصلاح و تربیت کا کام بخوبی انجام دے سکتی ہے۔ بڑوں میں دین سے غفلت یا کوتاہی پائی جاتی ہے تو ان کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے انھیں متوجہ کر سکتی ہے۔ چھوٹوں میں دین کی رغبت پیدا کر سکتی ہے۔ وہ اسلام سے ناواقف ہوں تو اس کی معلومات دے سکتی ہے۔ اسلام کی کسی تعلیم کے بارے میں اگر ان میں کوئی غلط فہمی پائی جاتی ہو تو اسے دور کر سکتی ہے۔ ان میں کوئی اخلاقی کم زوری پائی جاتی ہو تو پیار و محبت سے اسے دور کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ غرض اہلِ خاندان کو دین کے راستے پر چلانے میں ایک تعلیم یافتہ اور دین دار عورت کا کردار بڑا اہم ہے۔

کام کا چوتھا دائرہ ماحول کی اصلاح ہے۔ مسلمان عورت شرعی حدود میں رہتے ہوئے اس میدان میں بھی اہم خدمات انجام دے سکتی ہے۔ جہاں گھر سے باہر کام کے مواقع ہوں وہاں حتّی الوسع اس کی کوشش کرنی چاہیے، مثلاً پاس پڑوس، محلہ اور شہر کی خواتین کے گھروں میں جاکر ان سے انفرادی ملاقات کی جائے ۔اپنے شہر میں یا دیگر شہروں میں خواتین اور بچوں کے دینی پروگرام منعقد ہوتے ہوں اور وہاں آسانی سے اور حفاظت کے ساتھ پہنچا جا سکتا ہو تو ان پروگراموں میں شرکت کی جائے۔ کسی وجہ سے گھر سے باہر جانا ممکن نہ ہو تو گھر میں رہتے ہوئے بھی اصلاح و تربیت کے بہت سے کام کیے جا سکتے ہیں۔سوشل میڈیا نے گھر میں رہتے ہوئے کام کا دائرہ بہت وسیع کرد یا ہے۔واٹس ایپ پر قریبی لوگوں اور متعلقین و احباب کے گروپ بناکر مفید دینی تحریریں عام کی جاسکتی ہیں۔ فیس بک کو اپنے خیالات کی اشاعت کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ یو ٹیوب پر مفید دروس ِ قرآن و حدیث اور تقاریر لوڈ کی جاسکتی ہیں۔ آن لائن تعلیمی و تربیتی کلاسز چلائی جا سکتی ہیں۔

خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے خواتین کو مفید صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔ وہ ان کو کام میں لاکر دعوت و تبلیغ اور اصلاح و تربیت کے میدان میں اہم خدمات انجام دے سکتی ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں