دعوت و اصلاح کے اجتماعی جدوجہد اور عورت

ناز آفرین (رانچی)

دینِ اسلام مردوں اور عورتوں کو مساوی طور پر ایمان لانے اور اُس پر جم جانے کی دعوت دیتا ہے ۔ ان کے ذمہ اقامت دین کے انفرادی و اجتماعی فرائض عائد کرتا ہے ۔ دین کے قیام کی جدوجہد کے لیے دونوں کو یکساں طور پر متوجہ کرتاہے۔ ایمان لانے، اس پر عمل کرنے اوراپنے رب کے حضور اعمال کی جواب دہی کے لیے دونوں برابر کے ذمہ دار ہیں ۔ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے لیے نجات کا باعث نہیں بن سکتے۔ نہ ہی کسی کی خدمات کا حوالہ دے کر راہِ فرار حاصل کرنے کی گنجائش ہے ۔ یہی وہ فرض عین ہے ۔جس کی طرف محمد ﷺ نے اپنی عزیز ترین بیٹی اور بہن کو مخاطب کیا۔ ـ’’اے محمد ﷺ کی بیٹی فاطمہ ؓ ،اور اے رسول ﷺ کی پھوپھی صفیہ ؓ دوزخ سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرو۔کیوں کہ میرا رشتہ خدا کے یہاں تمہارے لیے مفید نہیں ہو سکتا۔ ‘‘

محمد ﷺ نے اپنے آخری حج میں تاکید کی تھی۔ وہ تمام لوگ جو یہاں موجود ہیں ۔ اپنے قول وعمل کے ذریعے اللہ کا پیغام ان تک (جو موجود نہیں) بالکل اسی طرح پہنچائیں ،جس طرح خود محمد ؐ نے ان تک پہنچایا ہے۔ دعوت دین کا کام پوری اُمت کا ہے۔ یہ امت داعی اُمت ہے۔ جسے خود کو اور تمام انسانوں کو جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ سے بچانے اور جنت کی دائمی زندگی کی طرف لے جانے کی سعی و جہد کرنی ہے۔ قرآن مبین میں اللہ رب العزت اپنے بندوں سے مخاطب ہیں۔ ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے لوگوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے ۔تم نیکی کا حکم دیتے ہو ۔بدی سے روکتے ہو۔اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘(آل عمرانـ:۱۱۰)

اس گروہ میں مرد و زن دونوں شامل ہیں ۔ ان کی کوئی واضح شکل متعین نہیں کی گئی ہے۔ لیکن اس صالح گروہ میں وہی لوگ ہوں گے جو کلمۃ اللہ کا پرچم بلند کرنے والے ہیں۔

دعوت دین اور خواتین

دعوت وتبلیغِ اسلام میں داعی کے سیرت و کردار کو بہت دخل ہے ۔عورتوں کے اعلی ترین اخلاق سے متاثر ہوکر کئی صحابہ کرام مشرف بہ اسلام ہوئے۔ خواتین گھر گھر جاکر دعوت اسلام دیتیں۔ وہ ماں بہن کتنی عظیم ہیں جنھوں نے حضرت عمر ؓ کو اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی۔

وادی مکہ میں جب صدائے حق بلند ہوئی تو اس پر سب سے پہلے لبیک کہنے والی ایک خاتون حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ تھیں۔حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی زندگی فہم و فراست، حکمت و تدبر، خدمت و اطاعت، ہمدردی و خیر خواہی، بلند اخلاق و سیرت، رحم دلی اور غریب پروری کی عظیم مثال ہے۔ اسلام کی اشاعت و تریج میں آپ نے اپنا تمام مال و اسباب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دہلیز پر قربان کردیا۔ اپنی زندگی بھی اس عظیم کام کے لیے وقف کردی۔ جن کی سیرت سے خواتین تا قیامت فیض یاب ہوتی رہیں گی۔ اس کا بھرپور اجر بھی حاصل ہوگا ۔قرآن کہتا ہے ۔’’جو کوئی نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت اور وہ ایمان پر ہے تو ہم اس کو ایک پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور ہم ان کو جو کچھ وہ کرتے رہے، اس کا بہتر صلہ دیں گے۔‘‘(النحل:۹۷)

دعوت دین بلا شرکت خواتین

دعوت الہ اللہ پیغمبرانہ مشن ہے جوآدم ؑ سے شروع ہوا، محمد ﷺ پر ختم ہوا۔ انبیائی مشن کی ذمہ داری اب اُمت محمدیہ ؐپر ہے ۔ انسانی زندگی کے تمام تر شعبوں میں مرد و عورت معاون ہیں ۔ ـ’’ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔نیکی کا حکم دیتے ہیں ،برائی سے روکتے ہیں ۔نماز کا اہتمام کرتے ہیں۔زکوۃٰ دیتے ہیں ۔اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرتے ہیں ۔ یہ لوگ ہیں کہ اللہ ان کو اپنی رحمت سے نوازے گا۔‘‘(سورہ التوبہـ: ۷۱)

دنیا میں جتنے بھی انبیاء کرام مبعوث کیے گئے ،تمام کے ساتھ ان کی خواتین بھی دعوت الی اللہ میں اپنی استطاعت کے مطابق شریک رہیں۔ دین بلا شرکت خواتین کا تصور بھی محال ہے ۔ جس طرح گھر عورت کے بغیر ویرا ن ہوتا ہے، ٹھیک اسی طرح دعوت دین کا کا م ان کے بغیر نا مکمل ہے۔ اگر خواتین دعوت دین کے فریضہ سے الگ ہو جائیں تو ممکن ہی نہیں کہ قوم کی اصلاح ہوگی۔ نہ صرف گھر کا سکون غارت ہوگا، رشتوں کا تقدس بھی پامال ہو جائے گا، بچوں کی تربیت نہیں ہوگی، معاشرے میں انتشار پھیلے گا، عریانی و فحاشی عروج پر ہوگی، ذلت و رسوائی عام ہو جائے گی۔ شراب و شباب کا کا دور چلے گا بلکہ یہ ساری چیزیں عام ہیں۔ اللہ کی رحمت بھی ایسے لوگوں پر نہیں اترے گی۔

کارِ دعوت میں خواتین

موجودہ صورت حال میں انسانی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو ان کی زندگی کا ہر پہلو مکمل طور پر بگاڑ کا شکار ہوچکا ہے ۔کوئی بھی گوشہ ایسا نہیں ہے جسے اصلاح کی ضرورت نہ ہو۔ اُمت کی اصلاح اسی صورت میں ممکن ہے جب ہر محاذ پر بدی کو روکنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ ایسے افراد کی کوششوں کو سراہا جائے جو امت کی اصلاح میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں ۔اگر خواتین اس بدی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوجائیں تو انقلاب کا راستہ ہموار کیا جاسکتا ہے۔ انقلابی مشن کی تکمیل کے لیے خود غرضی، مفاد پرستی، مایوسی اور بے مقصدیت کا خاتمہ کرکے اتحاد اور ملی وحدت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اس کام کو خواتین بہتر انداز میں سرانجام دے سکتی ہیں۔

پہلی وحی کے بعد حضرت خدیجہ ؓ کے حوصلہ بخش جملے خواتین کو دعوت دین کے میدان میں عملی شہادت پیش کرنے پر اُکساتے ہیں۔’’اللہ آپؐ کو رسوا نہیں کرے گا۔آپؐ کنبہ پرور ہیں ۔بے کسوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ لوگوں کو کمانے کے قابل بناتے ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں ۔حق کی باتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔ــ‘‘ دختران اسلام پر فرض عین ہے کہ وہ اپنی عظیم ماں کی تقلید کریں۔ حکم قرآن ہے کہـ’’ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم دے اور بُرے کاموں سے روکے۔ اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں ۔ ‘‘(آل عمران:۱۰۴)

اسلام ایک مکمل راہِ نجات ہے اسے عملی طور پر پیش کریں ۔اسلام نے جو عزت وعظمت ،تحفظ و سکون اور آرام خواتین کو عطا کیا ہے وہ کسی مذہب میں نہیں ہے۔ اس لیے مسلم خواتین صالحیت و صلاحیت کے مظاہرہ کے لیے ضرور میدان میں آئیں۔اپنی آواز ،کردار، لباس، شخصیت، اعمال و افعال کا ثبوت دیں ۔ صرف اس لیے کہ اقامت دین کے ذریعے خدا کو راضی کرنا ہے۔ اور دنیا کو ایک مثبت سوچ دینی ہے۔

خواتین میں دعوتِ کی اسٹریجی

(i) گھر کے محاذ پر:۔ سب سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم خواتین اپنے دین سے زیادہ سے زیاہ واقفیت حاصل کریں ۔قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھیں ساتھ ہی ساتھ حدیث و فقہ میں بھی اپنے علم میں اضافہ کریں ۔ دین اسلام کو سمجھنے کا بہترین ذریعہ مطالعہ ہے۔ خواتین کی گرفت قرآن پر مضبوط ہونی چاہئے۔خواتین نہ صرف دین کی بنیادی باتوں اورایمان کے تقاضوں کو جانیں بلکہ یہ بھی معلوم کریں کہ آپ کی ذاتی زندگی، خاندانی زندگی اور عام معاشرتی زندگی کے بارے دینی احکام کیا کہتے ہیں۔یہی وہ بنیادی چیزیں ہیں جن جس کے ذریعے خواتین اپنی ذاتی و معاشرتی زندگی میں دعوت و اصلاح کا کام کر سکتی ہیں۔مسلمانوں کے گھروں میں جو غیر شرعی طریقے رائج ہیں ،اسے دفع کرنے کی ذمہ داری بھی ان ہی پر ہے ۔غیر مذہبی رسومات کے خلاف آواز اٹھانا ہوگا ورنہ زندگی جہنم بن جائے گی ۔

ایک مسلمان عورت اور لڑکی کے کردار میں اتنی مضبوطی ہونی چاہئے کہ وہ جس شئے کو خدا اور رسول ؐکے خلاف سمجھیں اس کے مخالف ڈٹ جائیں۔ اپنی بات کو قرآن و حدیث کے حوالے سے استدلالی انداز میں پیش کریں ۔ انھیں سمجھائیں کہ حق ہمیشہ حق رہے گا اور باطل حق نہیں ہو سکتا۔اس بات کی سمجھ بچوں میں بھی پیدا کریں۔ہماری باتوں میں وزن ہو تو سامنے والے کو زیر ہونا ہی پڑے گا۔

(ii) معاشرہ میں کام: ہمارے دوست، عزیز و اقارب اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی دین پر بے عملی سے چڑنے اور نفرت کرنے کے بجائے ان کی اصلاح کی جائے ۔ ان کی نا فرمانی کو فرمابرداری میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ان سے محبت کی جائے ،ادب اور لحاظ کیا جائے لیکن پہلا حق اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا ہے ۔ اِتباع دین میں خواتین کے اندربعض معاملوں میں نرمی تو بعض معاملوں سختی بھی ضروری ہے ۔اس کا اثر سارے ماحول پر پڑے گا ۔ خواتین کی یہ حکمت عملی اسے ہر دل عزیز بنائے گی اور عزت بخشے گی۔ غیر ضروری مطالبات و رسوم کی پیروی زندگی کو اجیرن بنا دیتی ہے۔ اس کا اثر انفرادی و اجتماعی زندگی میں ہوگا۔ رفتہ رفتہ اس اصلاح کے جو اثرات مرتب ہوں گے، ان سے فرد کاضمیر مطمئن ہوگا اور دل کو تقویت ملے گی۔ ان کے سامنے صحابیات، بہادر اور مثالی خواتین کی رہ نمائی موجود ہے۔ اس سے یقینا فائدہ ہوگا، جو ایمان اور اخلاص میں اضافہ کرے گا ۔ جن خواتین کے شوہر کا مزاج دینی ہے ان کی تو مشکل ایسے ہی آساں ہو جاتی ہے ۔وہ شوہر کی مدد کریں۔ان کے نیک کاموں کو سراہیں۔ چند سچے تعریفی جملے ان کی ہمت، ارادے اور عزم میں مضبوطی پیدا کر دیں گے۔ مشکلات میں صبر کی تلقین کریں۔غیر شادی شدہ لڑکیاں یہی کام تھوڑی تبدیلی اور مواقع کی مناسبت سے اپنے والدین اور دوسرے رشتہ داروںکے ساتھ انجام دے سکتی ہیں۔ دعوت واصلاحی کاموں کے لیے وقتاً فوقتاً ان کو کتابیں بہ طور تحفہ پیش کریں ۔ یہ مؤثر ذریعہ ہیں۔اس سے آپس کی کھٹاس جاتی رہے گی اور دلوں میں محبت پیدا ہوگی۔

(iii) برادرانِ وطن کے درمیان دعوت: وطنی بہنوں میں شرک اور اوہام پرستی پائی جاتی ہیں۔ان کو خواتین دور کرنے کی کوشش کریں۔ پردے کے اثرات اور خوبی سے متعارف کرائیں۔ممکن ہو تو اس کے لیے اپنی ہم خیال خواتین کے ساتھ چھوٹے چھوٹے اجتماعی پروگرا م رکھیں ۔ان میں خصوصی طور پر موجودہ حالات پر سوال و جواب کا پینل رکھیں۔جس طرح بھی بات سمجھائی جاسکتی ہو اس انداز کو اختیار کریں۔یقین مانیے یہ کوششیں رائیگاںنہیں جائیں گی۔ تعلیم یافتہ طبقہ اس بات کے لیے زیادہ ذمہ دار ہے۔ان کے پاس ایسے ذرائع بہت کم ہوتے ہیں ،جن کے ذریعے سے وہ مغربی ممالک میں عورتوں پر ہونے والے مظالم کو جان پائیں۔ ان ممالک میں عورت محض ایک ضرورت کی شئے ہے، جسے تفریح کا سامان سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں۔ اسلام میں خواتین کی کیا اہمیت و شناخت ہے، اس کا نمونہ بنیں اور ان لوگوں کو بھی ایسا ہی بتائیں ۔حضرت حذیفہ ؓ راوی ہیں ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایاـ۔’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ،تم ضرور نیک باتوں کا حکم دیتے رہنا اور بری باتوں سے روکتے رہنا ،ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر عذاب مسلط کر دے گا پھر تم دعا کروگے مگر تمہاری دعا قبول نہیں ہوگی۔‘‘ (ترمذی)

دعوت دین کو موثر بنانے میں غیر مسلموں سے بہتر روابط بھی ضروری ہیں ۔سماجی و معاشی مسائل کے حل کے لیے کوششیں کی جا سکتی ہیں۔جہیز، شراب، صحت، صفائی، رشوت، خود کشی کا بڑھتا رجحان،معذورین کی خدمات،معصوم بچیوں کے تحفظ،خواتین کی اجتماعی عصمت دری اور زنا بالجبر وغیرہ معاملات پر ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ان سماجی و اصلاحی امور سے انھیں بھی اس بات کا احساس ہوگا کہ ’اسلام سراسرخیر خواہی کا نام ہے۔ ان اقدامات سے ہم وطنوں کے ساتھ روابط بڑھیں گے ۔غلط فہمیوں کو دور کرنے کا موقع ملے گا۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کی جو صور ت پیش کی جار ہی ہے اصلاً ایسا نہیں ہے۔ ان اقدام سے اسلام کی حقیقی شکل واضح ہوگی۔ ’’وہ مسلمان جو عوام سے میل جول رکھتا ہے ۔اور ان کے درمیان سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کرتا ہے ۔وہ یقینااس مسلمان سے بہتر ہے جو نہ عوام سے روابط رکھتا ہے اور نہ ان کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف برداشت کرتا ہے ۔ــ‘‘ (ابن ماجہ)

داعیات کو دو پہلوئوں سے دعوت دین انجام دینا ہے۔ ایک طرف مسلم خواتین ہیں تو دوسری جانب غیر مسلم بہنیں بھی ہیں۔اوسطاً ملک کی آبادی سوا اَرب ہے۔ان میں غیر مسلموں کو اللہ کا پیغام پہنچانا ہے۔ ان میں خواتین کو مرکز و محور بنایا جائے تو نصف تعداد ہوگی۔ ہمارا میدان کار اتنا وسیع ہے۔اس کا تصور کسی داعی حق کو چین سے بیٹھنے نہیں دے گا۔جب تک کہ قوت عمل اور مہلت عمل باقی ہیں ،اقامت دین کا کام جاری رہے گا۔

دعوت دین کے لیے تیاری

(i) علم:’’ ہر مسلمان مرد و عورت پر علم حاصل کرنا فرض ہیـ‘‘ (ابن ماجہ)ہمیں اکثر حضرت علی ؓ کا یہ قول بھی سننے کو ملتا رہتا ہے ’’جس نے ایک لڑکے کو پڑھایا اس نے ایک فرد کو پڑھایا اور جس نے ایک لڑکی کو پڑھایا اس نے ایک قوم کو پڑھایا۔‘‘

تعلیم خواتین کوسمجھدار، معاملہ فہم، عقل مند، راسخ العقیدہ،ہمت ور اور حوصلہ مند بناتی ہے۔ صحیح و غلط میں فرق کرنے کا طریقہ بناتی ہے ۔ اپنی ذمہ داریوں کا احساس پیدا کرتی ہے۔اخلاق ،سیرت اور کردار کی تعمیر وتشکیل میں نمایاں اور اہم رول اس کی تعلیم و تربیت کا ہو تا ہے۔ علم کی تعریف یا اس کے اوصاف کا احاطہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ علم کے ذریعے انسان کو اخلاقی بلندی ملتی ہے۔ خیالات میں پاکیزگی آتی ہے۔ کردار کی پختگی حاصل ہوتی ہے۔ سیرت میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ مزاج میں نرمی پیدا ہوتی ہے۔ انداز میںشائستگی رونما ہوتی ہے۔ تعلیم ایک اچھے شہری کی پہچان عطا کرتی ہے۔یہ زندگی کو سنوارتی، غور و فکر کو پروان چڑھاتی ہے ۔ اپنے خاکی ہونے کا احساس ہمہ وقت رہتا ہے ۔خدا تعالیٰ کی بزرگی کا اعتراف اور جواب دہی کا خوف پیدا ہوتا ہے۔ تعلیم کا مقصد ذہنی ،جسمانی اور روحانی ارتقاء حاصل کرنا ہے ۔جنگ بدرکے واقعہ سے علم کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جنھوںنے جنگ میں فدیہ دیا انھیںرہا کر دیا گیا۔ جوفدیہ نہیں دے سکے انھیں محمد ﷺ نے مسلمانوں کوعلم سکھانے کو فدیہ بنا دیا ۔

اور سب سے بڑھ کر ہر کام کے لیے جواب دہی کا شعور عطا کرتی ہے ۔داعیات جہاں دینی علوم حاصل کر رہی ہیں انھیںاپنے مذہب کے علاوہ ہندستان کے دیگر بڑے مذاہب کی بھی اچھی معلومات ضروری ہیں۔وہ دوسرے مذاہب میں دلچسپی لے کر،سوالات کرکے، اپنے مدلل انداز میں اسلام کو پیش کر سکتی ہیں۔ مثلاً چار ویدوں میںمنتروں میں کوئی منتر ایسا نہیںجہاں شرک یعنی مورتی پوجا کی بات آئی ہے۔ ہر جگہ ’’ نا تسیہ پَرتِما اَستِ‘‘ (اُس ایشور کی کوئی صورت نہیں) ہے ۔ پہلی دعوت تو دی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد راستے ہموار ہوں گے۔گمراہی سے بچنے اور بچانے کا واحد ذریعہ علم دین ہی ہے۔

خود اعتمادیـ: انسان کے لیے خود اعتمادی بہت ضروری ہے ۔ ایک ایسا فرد جو احساس کمتری کا شکار ہو،وہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ نہ ہی اپنے رشتے داروں اور عزیزوں کو خوش رکھ سکتا ہے ۔ اس لیے کسی کام میں آغاز سے قبل خود پر اعتماد اور خدائے واحد پر مکمل توکل ضروری ہے۔ خود اعتماد لوگ کسی بھی محفل میں چھا جاتے ہیں۔ بعض اوقات کسی کام میں ناکامی کا سبب صلاحیت یا ذہانت کی کمی نہیں ،بلکہ اس کی وجہ اعتماد کی کمی ہوتی ہے ۔ مصنوعی خطرات سامنے ہوں تو خود اعتمادی کی کمی ہونے لگتی ہے۔ مثبت فکر رکھنے والیاں ایمان و یقین سے بھری ہوتی ہیں۔ وہ مخالف حالات کا بھی عزم و ہمت کے ساتھ مقابلہ کرتی ہیں۔ ایسے لوگ غیر ضروری کاموں یا تنقید میں اپنا وقت ضا ئع نہیں کرتے اور تعمیری کاموں میں لگے رہتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے :ـ’’اللہ کی رحمت سے مایوس تو کافر ہی لوگ ہوتے ہیں۔‘‘(الیوسف:۸۷)

(iii)منصوبہ بندی:نبیؐ کا ہر کام حکمت و تدبر ،فہم و فراست کے ساتھ منصوبہ بند طریقے سے ہوتا تھا۔جس کا علم ہمیں اسوہ نبی ؐ ؐ سے ہوتا ہے۔خواتین بھی اپنا منصوبہ اپنے روز مرہ کے معمولات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بنا سکتی ہیں۔ منصوبہ بند طریقے سے انجام دیئے گئے کام کے بہتر نتائج کا علم کم و بیش پہلے سے ہو جاتا ہے۔ اس بہتر امکانات کے سبب آئندہ کے لائحہ عمل بنانے میں بڑی آسانی ہوگی۔ دعوت کا کام ہو یا گھریلو امور خواتین خود اس بات سے واقف ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا استعمال پلاننگ کے تحت کرتی ہیں تو کس قدر کامیابی ملتی ہے۔دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ کہیں کوئی نقص یا خامی رہ جائے تو قبل از وقت اسے دور کیا جا سکتا ہے۔

طریقہ کار

دعوت کے سلسلے میں تین باتوں کا خیال بہت ضروری ہیں۔ پہلا دعوت کیوں دیں؟ دوسرا دعوت کہاںدیں؟ اور تیسرا دعوت کیسے دیں؟ ایک داعی کو اولاً ان تینوں امور کا خیال رکھتے ہوئے ہی میدان میں قدم رکھنا چاہئے ،تاکہ حتی المقدور کامیابی نصیب ہو۔ واضح رہے کہ داعی کا مقصد صرف اور صرف رضائے الہیٰ ہو۔ ایسے لوگوں کو شیطان ہر وقت خود ستائش میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔دعوت اس لیے دیں کہ ہمیں امت محمدیہ ؐ ہونے کے ناتے اس کام پر مامور کیا گیا ہے۔ہم نے بھی اس کی ربوبیت کا اقرار کیا ہے۔دعوت ہر جگہ دیں جہاں کوئی ایک انسان بھی رہتا ہے۔ نبی ؐ کی سنت کو زندہ کرنے کا یہی سب سے عمدہ طریقہ ہے۔کسی بھی فرد ، علاقے،گروہ ،قوم ،شہر و ملک کو شامل کر سکتے ہیں۔ اسکول، کالج اور یونی ورسٹیوں میں خاص مواقع میسر ہوتے ہیں ۔ شادی ،میت، سفر اور اسپتال میں بھی خاص مواقع مل جاتے ہیں ۔ یہ فرد پر منحصر ہے کہ وہ اپنے وقت کا استعمال حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کرے۔دعوت کا میدا ن کار کافی وسیع ہے۔ اس میںعزیز و اقارب کے ساتھ بد ترین دشمنان بھی شامل ہیں۔ ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ کا یہی تقاضا ہے۔دعوت کیسے دیں اس سلسلے میں قرآن ہمیں تین باتیں بتاتا ہے۔

حکمت: اس کے تحت مہارت،موقع کی نزاکت، فرد کی سمجھ،زبان و بیان اور ہوشیاری کا خیال رکھنا چاہیے۔

موعظہ حسنہـ: یعنی تبلیغ اس انداز میںکی جائے کہ اس میں اگلے کی دلچسپی ہو،فصاحت کے ساتھ عام فہم الفاظ کا استعمال کیا جائے اور سننے والے کو برا نہ لگے۔

مباحثہ: اس میں سامنے والے کی سمجھ کے مطابق استدلالی انداز اختیار کرنا ہے۔ مکالمہ و مباحثہ کے لیے داعی کو قرآن پاک سے اپنا تعلق بہت مضبوط کرنا ہوگا۔ ہمارا تعلق قرآن و سنت سے جتنا گہرا ہوگا ہماری مخلصانہ کوششیں اتنی ہی کامیاب ہوں گی ۔

ہندستان میں دعوت و اصلاح

عصر حاضر میں دعوت و اصلاح کے انگنت محاذ ہیں۔ اس کی نوعیت کیسی ہو۔ کس دائرہ کار میں خواتین اجتماعی شکل میں سرگرم عمل رہیں ۔اسے سمجھنے کے لیے یہ حدیث معاون ہوگی۔حضرت ابن عباس ؓ راوی ہیں ۔’’جس قوم میں خیانت رواج پا جاتی ہے ،اللہ تعالیٰ اس قوم کے دل میں رعب ڈال دیتا ہے ،او جب کسی قوم میں زنا عام ہو جائے تو اس میں اموات کی کثرت ہو جاتی ہے ، اور جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرنے لگتی ہے تو اس کا رزق روک دیا جاتا ہے ،اور جب کوئی قوم حق کے خلاف فیصلے کرنے لگتی ہے تو اس میں خوں ریزی ہونے لگتی ہے ،اور جب کوئی قوم معاہدہ شکنی کرنے لگتی ہے تو اس پر دشمن مسلط کر دیا جاتا ہے۔‘‘(مالک:۵۱۳۶)

ہمارا ملک ہندوستان دنیا کا سب سے بڑاجمہوری ملک ہے۔یہاں مسلمانوںکو دستوری سطح پر بنیادی حقوق حاصل ہیں۔جان ومال،عزت وآبروکا تحفظ اورعقیدہ وعبادت کی آزادی میسر ہے۔ عائلی قوانین نکاح، طلاق، وراثت اوروقف وغیرہ جیسے معاملات میں اسلامی قوانین پر عمل کرنے کی اجازت قانوناً حاصل ہے۔

دنیوی تعلیم کا نظم کرنے اوردینی تعلیم کے لیے مدارس قائم کرنے کا حق بھی ہم رکھتے ہیں۔ ہم آزادنہ طور پر اپنے ضمیر کی آواز پر چل سکتے ہیں۔کسی بھی مذہب پر عقیدہ رکھ سکتے اور اس پر عمل پیراہوسکتے ہیں۔ ا س سے بڑھ کراس کی تبلیغ بھی کرسکتے ہیں۔ہمارا ملک اس وقت انتشار کا شکار ہے۔ ایک عجیب سے کیفیت سے باشندگان وطن دوچار ہیں۔حق کی تلاش اور سچائی کے پیاسے ہیں۔مذاہب کے حوالے سے بڑی جہالت پائی جاتی ہیں۔ اوہام پرستی،خود ساختہ خرافات و رسم رواج سے قوم عاجز آ چکی ہے۔ہمارے لیے یہ مواقع بہت مناسب ہیں۔ حکمت کا استعمال کر کے احسن طریقے سے اللہ کا پیغام غیر مسلموں تک پہنچا سکتے ہیں۔

اسلامی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کوئی کچا یا پکا گھر ایسا نہ ہوگا جس میں دین داخل نہیں ہوگا۔ساری دینا میں یہ دین غالب ہو کر رہے گا۔ پھر ہندوستان کی کیا بات ہے !! اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس کی ذمہ داری بھی اہل وطن بالخصوص صالح گروہ پر ہی صادق آتی ہے۔ کیوں کہ کسی بھی ملک میں اسلامی انقلاب اس کے باشندوں کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے۔ مذکورہ بالا ذیلی عنوان پر مسلسل عمل پیرا رہیں تو اس ملک کے باشندے ایک اللہ کے پیروکار بن سکتے ہیں۔ فی الوقت تصور میں ہی اس کی تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146