دل کی باتیں

سیدہ تحریم فاطمہ

گذشتہ دنوں معمول کے کام نمٹاتے ہوئے ایک دوست کی یاد آئی تو موبائل اٹھا کر بس اتنا پیغام لکھا: ’’دعا میں یاد رکھنا‘‘ شام کو جوابی پیغام موصول ہوا کہ صبح تمہارا میسج دیکھا تھا سب خیریت ہے؟‘‘ الحمد للہ! سب خیریت ہے۔ بس تمہاری یاد آئی تو پیغام بھیجا کہ دعاؤں کی ضرورت تو ہمیشہ ہی ہوتی ہے۔ ‘‘جوابی پیغام موصول ہوا‘‘ اچھا ایسی ہی بات ہے نا؟ تمہاری کوئی چیز تو میرے پاس نہیں؟‘‘ بات گو مذاق میں کہی گئی تھی مگر نہ جانے کیوں مجھے کسی اور انداز سے کلک کر گئی۔

ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں کتنے لوگوں سے ملتے ہیں، ہمارے گھر والے، عزیز و اقارب، دوست، ساتھی، استاد شاگرد اور اجنبی، غرض کتنے ہی رشتے ہم روز نبھاتے ہیں اور ہر ملاقات خواہ وہ چند لمحوں پر محیط ہو یا سالوں پر، اپنے اثرات ضرور رکھتی ہے اور یہ وہ اثرات ہوتے ہیں جو ہم دوسروں کے پاس چھوڑ آتے ہیں۔ کیا ہم کبھی یہ غور کرتے ہیں کہ ہماری کون کون سی چیزیں دوسروں کے پاس ہیں یا جب ہم نہیں ہوں گے تو ہماری کون سی چیزیں دوسروں کے پاس رہ جائیں گی؟

ہر فرد یہ سوچتا اور سمجھتا ہے کہ وہ بے حد ملنسار اور خوش اخلاق ہے، لیکن ہم خود کو کبھی اس پیمانے پر نہیں پرکھتے کہ ہم اپنے پیچھے کیا چھوڑے جا رہے ہیں۔ ہمارا تو یہ حال ہے ہم دن بھر بے تکان بولتے رہتے ہیں اور گھر آتے ہی بیزاری اور بدمزاجی لوٹ کر آجاتی ہے۔ کمال یہ نہیں ہے کہ آپ باہر کی دنیا میں کیسے ایڈجسٹ کر رہے ہیں۔ کمال تو یہ ہے کہ آپ کی گھر والوں سے کتنی ذہنی ہم آہنگی ہے۔ آپ کے گھر میں اگر کوئی روٹین سے ہٹ کر تھکا ہوا یا غیر معمولی خاموش ہے تو آپ کو اس بات کا ادراک کتنی جلدی ہوجاتا ہے۔ کوئی اگر روٹھ گیا ہے تو اس کو منانے کی سب سے کارآمد تدبیر کون سی ہے؟ یا پھر اگر کسی کی غیر موجودگی میں اس کی ذمے داری سنبھالنی پڑے تو آپ کی پیشانی کتنی بار شکن آلود ہوتی ہے۔ یہ سب باتیں روز مرہ کی معمولات کا حصہ تو معلوم ہوتی ہیں مگر ذرا سارویہ بدل کر دیکھیں تو گھر میں آپ کی جگہ اور آپ کی ذمے داریوں کا بہتر طریقے سے احساس دلاتی ہیں اور ان کو اچھا کرلینے سے آپ کی اچھی چیزیں دوسروں کے پاس رہ جاتی ہیں۔

گھر سے باہر نکلتے ہی ہم سب شہر میں ڈوبے لوگ بن جاتے ہیں، مگر سوال وہی کہ دوسروں کے پاس ہم کیا چھوڑ آتے ہیں؟ بات کریں پڑوسیوں کی تو اپنا گھر صاف کر کے کچرا دوسروں کی دہلیز پر پھینک دیتے ہیں۔ کس کے گھر میں کون آرہا ہے، کون جا رہا ہے، کس کی بہو کام چور ہے اور کس کی ساس ظالم۔ یہ سب باتیں ہمیں معلوم ہوتی ہیں، مگر ساتھ والے گھر میں کوئی بیمار ہے یا خدا نخواستہ کوئی مسئلہ در پیش ہے تو اپنی انا طاق میں سجا کر بولتے ہیں ہم کیوں جائیں؟ ہمیں بتایا ہے کیا؟ یوں بھی تو یہ اب پرانے قصے رہ گئے ہیں۔ پوش علاقوں میں تو ساتھ والے گھر سے جنازہ بھی اٹھ جائے تو خبر نہیں ہوتی اور اسی طرح جب ہم محلے چھوڑ آتے ہیں توکسی کو فرق نہیں پڑتا۔ کوئی ہمارے لیے آگے نہیںبڑھتا کیوں کہ ہماری کوئی اچھی بات یا اچھی یاد ان کے پاس ہوتی ہی نہیں۔

اسی طرح دفتری معاملات میں اگر آپ اپنی فیلڈ کے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں اور آپ کے ماتحت کوئی نیا بندہ آجائے تو یہ بھی آپ ہی کے ہاتھ میں ہے کہ آپ اسے کیا دیتے ہیں۔ اپنا تجربہ، اپنائیت یا طنز کے نشتر اور یہ بات یقینی ہے کہ جو ہم دیتے ہیں وہی ہمیں دو گنا کر کے لوٹا دیا جاتا ہے۔ استاد وہ بھی ہے، جو اتنا خوف پیدا کردے کہ طالب علم سوال کی جرات نہ کر سکے اور استاد وہ بھی ہے جو طالب علم کا چہرہ پڑھ لے۔ مگر دونوں یکساں عزت و احترام نہیں کماتے۔

پچھلے دنوں سنی ہوئی ایک آدھی ادھوری بات اپنے مفہوم میں کامل تھی۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ ایک بزرگ کینو کا ٹھیلا لگاتے تھے۔ منفرد بات یہ تھی کہ ان کا درجن تیرہ کا ہوتا تھا اور کاروبار میں برکت بے حساب تھی۔ ایک دن کسی نے پوچھا: ’’جناب جب سب لوگ درجن میں بارہ دیتے ہیں تو آپ تیرہ کیوں؟‘‘ انھوں نے کہا ’’اس سے میرے رزق میں کمی نہیں ہوتی اور جو درجن کا تیرہ نہ دے سکے وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ اور یہ بات مجھے چند ثانیے کے لیے منجمد کر گئی۔ کیا ہم میں ہے اتناظرف کہ درجن کا تیرہ دے سکیں؟

انسان بے بس اور ہر معاملے میں ذاتِ کریم کا محتاج ہے، مگر المیہ ہے کہ کچھ اچھا ہو تو سارا کریڈٹ اپنے نام پر لے کر خوش ہوتے ہیں اور اچھا نہ ہو تو شکوے شکایتوں پر اتر آتے ہیں۔ خود سے ہزار غلطیاں ہوجائیں تب بھی اپنا احتساب نہیں کرتے اور دوسروں کی چھوٹی چھوٹی کوتاہیاں بھی معاف کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ ہمارا آئینہ ہمیں اسنو وہائٹ کی سوتیلی ماں کی طرح خود کو سب سے خوب صورت دکھاتا ہے اور جس دن وہ سچی تصویر دکھادے اس دن ہم آئینہ توڑ دیتے ہیں۔

زندگی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے عبارت ہوتی ہے۔ اپنی ذات سے کسی کو تھوڑا سا بھی فیض پہنچا سکیں تو قدم پیچھے نہ ہٹائیے۔ کسی کو درست مشورے کی ضرورت ہو یا ذرا سی گائڈ لائن آپ کے دائرہ کار میں ہو تو پیش کر دیجیے۔ہمارے آس پاس کتنے ہی ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے آدھے مسائل اور ٹینشن اپنی بات سنا دینے سے ختم ہو جاتی ہے۔ اگر آپ کے پیاروں میں کوئی ایسا ہوتو خاموش سامع بن جائیے۔ کسی کا دکھ بانٹ لیجیے۔ ایسا کنواں بن جائیے جس میں لوگ اپنے مسئلے ڈال کر خود ہلکے ہوجائیں۔آپ کا ذرا سا وقت لگے گا اور جواب میں بھروسہ اور رشتوں کا اعتماد ملے گا۔ کسی کی خوشی میں خوش ہو جانا اور لوگوں کے ساتھ پرخلوص رہنا زندگی میں اطمینان کو بڑھا دیتا ہے۔ کسی کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ ہو جو آپ کے اختیار سے باہر ہو تو اس کے حق میں ہاتھ اٹھا کر دعا کردیں، آپ کی اپنی زندگی کے مسئلے آسان ہوجائیں گے۔ وہ لوگ جو دوسروں کی زندگیوں میں دخل اندازی کرتے ہیں، وہ اپنی ذاتی زندگی میں سب سے زیادہ بے سکونی کا شکار رہتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ دوسروں کی ذاتیات میں دخل دینے سے گریز کریں۔ ٹوہ، تانک جھانک اور دوسروں کی خامیوں سے صرف نظر کرنا سیکھ لیں۔ اپنے مزاج کو آسان بنائیں کہ لوگ آپ پر بھروسہ کرنا سیکھ لیں اور یہ بھروسہ کمالیں تو اس کو نبھائیں بھی بغیر کسی صلے کی امید کے۔ لوگوں کو درجن کا تیرہ دینے کا ظرف پیدا کریں، جو آپ کو چھوڑ جائیں، ان کو نہ روکیں اور جو پلٹ کر آئیں ان کو نہ لوٹائیں۔ یہ ہی اللہ کو پسند ہے۔ عزت دینے والوں کو ہمیشہ عزت ضرور ملتی ہے۔ بس اپنے حصے کا چراغ جلاتے جائیے۔ کیا پتا یہ ہی چراغ ہماری قبر کا اندھیرا دور کردیں۔ اپنا اخلاق، خلوص، دعا اور محبت دوسروں کے پاس رکھوا کر بھول جائیں کہ یہ چیزیں سود سمیت آپ ہی کے پاس لوٹ کر آئیں گی۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں