دل کی باتیں

مدیحہ اعجاز

وہی صبح و شام، وہی کھانے، وہی گھر بیٹھنا، وہی پڑھائی، وہی چند دوستوں سے ملنا ملانا… بس وہی ایک گھسا پٹا معمول بن گیا ہے۔ نہ کوئی تبدیلی ہے نہ کوئی مزہ، روز کی بس ایک ہی ٹینشن… کل ٹیسٹ میں کیا ہے؟ روز کی وہی خبریں، ہنگامے، فائرنگ، دھماکے، اغوا وغیرہ… روز کے وہی سوالیہ نشان کہ کس نے کہا؟ کیوں کہا؟ اب تو لائف میں جو Change آیا وہ یہ آیا کہ گھر میں بھی بالکل بند ہوکر رہ گئے۔ اب بلا خوف و خطر کہیں آ جا سکتے ہیں، نہ دوستوں کو بلا سکتے ہیں… ایک خوف ہی رہ گیا ہے بس۔ پہلے ہی اتنا بورنگ روٹین، اتنی بورنگ لائف تھی، کچھ مزہ ہی نہیں تھا… اور اب؟ ہم سے اچھے تو وہ لوگ ہوئے نا جو امیر گھر کی اولاد ہیں… اپنے گھروں میں، اپنے کمروں میں ایئرکنڈیشنڈ میں آرام فرماتے ہیں… جب دل چاہے، جہاں دل چاہے ڈرائیور سے کہا گاڑی نکالو اور نکل لیے۔ ان کے تو آئے دن نئے نئے مزے، کبھی شاپنگ، تو کبھی دوستوں کے گھر… کبھی بہت بوریت ہوئی تو شہر و ملک سے باہر کے چکر لگا آئے۔ آہ!! کیا مزے ہیں ان کے۔

اور چلو ان امیروں کی چھوڑو… اس ملک سے باہر نظر دوڑائو، امریکا کو ہی لے لو… ان کے تو گھر میں ہی سب موجود ہوتا ہے، اور جب اور جہاں جانا ہو چلے جاتے ہیں… نہ کوئی پابندی، نہ اکیلے نکلنے پر پابندی… کھانے پینے کی بھی ورائٹیز (Varieties) اور شاپنگ بھی آسان… بلکہ جب دل چاہے اپنی دوست کے ہاں Night stay کے لیے بھی چلے جائو، بلکہ اس سے بھی زیادہ یہ کہ دوستوں کے ساتھ آئوٹنگ پر نکلو تو کوئی پابندی نہیں۔ اس شہر کی مارکیٹ میں گھومو یا کسی پکنک پوائنٹ پر جائو، یا کسی دوسرے شہر کا رخ کرلو، جہاں دل کرے جائو… واہ! کیا مزے ہیں، کتنی مزے دار لائف ہے ان کی… اور ہم، ہم تو ان آسائشوں، مزوں کے لیے ترستے رہتے ہیں…

ارے یار! یہ مزے نہیں مل سکتے تو کم سے کم لائف میں کوئی چینج تو آنا چاہیے نا، اب تو بستر سے اٹھنے کو دل ہی نہیں کرتا کہ کچھ کرنے کو جو نہیں ہے… کاش کہ میرے ہاتھوں میں بھی کچھ پیسے ہوتے، کاش کہ میں بھی ایک امیر زادی ہوتی، کاش کہ میں اتنے بڑے گھر کی بیٹی ہوتی کہ جب جو دل میں آتا وہ مل جاتا… کاش میں اس ملک کے بجائے امریکا کی رہنے والی ہوتی…

آپ بھی یہی سوچتی ہوں گی ناں؟ بس اب تو ہر عام مشرقی لڑکی کے ذہن میں یہی بوریت سوار ہے، اور ایک خواہش کہ کوئی شہزادہ آئے اور اسے اڑا لے جائے۔ اس کی یہ سب خواہشات پوری کروائے، مزے کروائے اور لائف میں چینج لائے… انہی خوابوں پہ تو ہماری دنیا قائم ہے۔

’’یہ کہاں ہر وقت سوچوں میں گم رہتی ہو؟‘‘ امی کی آواز آئی اور میرے خیالات یا خواب وہیں رک گئے جیسے کہ ٹھنڈی جمی برف پہ کسی نے گرم کھولتا پانی ڈال دیا ہو… ہائے، یہ خواب کب سچ ہوں گے!

’’اچھا اب اٹھو، پکڑو یہ کتاب، پڑھو‘‘۔ امی کتاب پکڑا کر چلی گئیں… ’’جی امی اچھا‘‘… اب کون بتائے امی کو کہ کن خوابوں و خیالوں کی دنیا سے نکال کر مجھے ایک عجیب و غریب بورنگ کتاب پکڑا دی… خیر اب میں نے کتاب کھولی، اپنے آپ کو ان سوچوں سے نکالتے ہوئے جب پڑھنے کی کوشش کی تو حیرت انگیز! مجھے میری ان سوچوں کے جواب ملنا شروع ہوگئے… جہاں آپ سے اپنی ہر سوچ Share کی ہے، وہیں ان کے جواب بھی Share کرنا پسند کروں گی۔ اس کتاب سے اقتباس کے بجائے اس میں موجود آیات و احادیث و اشعار Share کروں گی بس…

’’جان رکھو کہ دنیا کی زندگی کھیل اور تماشا ہے اور زینت (و آرائش)، اور تمہاری آپس میں فخر (و غرور) اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ کی طلب (و خواہش) اس کی مثال ایسی ہے جیسے بارش، کہ اس سے کھیتی اگتی ہے اور کسانوں کو کھیتی اچھی لگتی ہے۔ پھر وہ خوب زور پر آتی ہے، پھر (اے دیکھنے والے) تْو اس کو دیکھتا ہے کہ (پک کر) زرد پڑ جاتی ہے، پھر چورا چورا ہو جاتی ہے اور آخرت میں (کافروں کے لیے) عذاب شدید اور (مومنوں کے لیے) اللہ کی طرف سے بخشش اور رضا مندی ہے، اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کے سامان کے سوا اور کچھ نہیں۔‘‘ (الحدید:20)۔ آگے پھر ایک اور آیت جو میرے سامنے آئی، وہ یہ تھی:

’’اور جو کافر ہیں ان کے لیے دنیا کی زندگی خوش نما کردی گئی ہے، اور وہ مومنوں سے مذاق کرتے ہیں۔ لیکن جو پرہیزگار ہیں، وہ قیامت کے دن ان پر غالب ہوں گے۔ اور اللہ جس کو چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے۔‘‘ (البقر?: 212)

اس آیت سے تو ایک خوف طاری ہوگیا کہ یہاں تو کافروں کے لیے کہا گیا ہے کہ دنیا خوشنما کردی گئی۔ تو کیا میں خدانخواستہ مسلمان نہیں؟

’’اور دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور تماشا ہے، اور بہت اچھا گھر تو آخرت کا گھر ہے (یعنی) ان کے لیے جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔ کیا تم سمجھتے نہیں؟‘‘ (الانعام: 32)

اس آیت میں اللہ نے دنیا کو کھیل اور تماشا کہا ہے اور میں ایک مسلمان، اس کھیل اور تماشے کے پیچھے بھاگنے کی خواہش مند؟؟

جیسے جیسے میں اس کو پڑھتی گئی، دل سے بوریت نکلتی گئی۔ میرے دل میں میرے کرنے کے کام، وہ کام جو مجھے مصروف رکھیں، بوریت سے بچائیں، ان جھوٹے خوابوں کی دنیا سے نکالیں، آتے چلے گئے کہ اب یہ آیت بھی سامنے آگئی:

’’تو جو ہماری یاد سے روگردانی کرے اور صرف دنیا کی ہی زندگی کا خواہاں ہو اس سے تم بھی منہ پھیر لو۔‘‘ (انجم: 29)

اب میرے دل میں خواہشِ دنیا، خواہشِ مال و دولت کے بجائے اس چیز کی خواہش پیدا ہونے لگی جو عارضی نہیں حقیقی ہے‘ جو مسلمانوں کی، مومنوں کی اصل جائے قیام ہے… اصل آرائش، مزے تو وہاں ہوں گے… نہ کوئی دکھ درد، نہ تکلیف، بس آرام و سکون…مجھے اب اس دنیا کی نہیں اْس دنیا کی خواہش رکھنی ہے، وہیں کے لیے کوششیں کرنی ہیں، وہیں کی خواہش رکھنی ہے۔

’’جو شخص آخرت کی کھیتی کا طالب ہو اْس کے لیے ہم اس کی کھیتی میں افزائش کریں گے، اور جو دنیا کی کھیتی کا طلب گار ہو اس کو ہم اس میں سے دیں گے اور اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہ ہوگا۔‘‘ (الشوریٰ: 20)

اب مجھے اس بوریت کی اصل وجہ سمجھ میں آئی، ان خیالی پلائو سے چھٹکارے کا ذریعہ معلوم ہوا، اور میں نے اس دنیا سے کہہ دیا کہ:

پکار مجھ کو نہ دنیا، چلا ہوں سوئے رسولؐ

تجھے تلاش میری، مجھے جستجوئے رسولؐ

میری وہ بے چینی کی کیفیت، وہ خواب و خیال میں گم رہنے کی عادت، وہ خواہشاتِ نفسانی کے حصول کے خواب سے میرے اندر سکون و اطمینان… اس کے بجائے جذبۂ حصولِ آخرت نے ایک ہی لمحے میں جگہ بنا لی، خدا خوفی اور محبت ِالٰہی نے میرے اندر ایسے جنم لیا کہ اب ان خوابوں کی دنیا سے جب مجھے جھنجوڑا گیا، نکالا گیا تو یوں محسوس ہوا کہ گویا ایک آگ کو ٹھنڈے پانی سے بجھا دیا گیا ہو:

اب میں دوسرے ہی خیالوں میں گم ہو گئی تھی۔ حصولِ آخرت کی خواہش کے خیالوں میں… انہی خواب و خیال میں صفحہ پلٹا تو سامنے یہ شعر آیا:

آنکھوں میں اک نمی آگئی، دل کی بے چینی یوں پھر بڑھ گئی کہ اب میرا کام کیا ہے۔ میں اپنے رب کی محبت اور خوف اپنے اندر کیسے پیدا کروں… اس کی رضا کے لیے کیا کروں… آخرت کے گھر کے حصول کے لیے، ہلاکت سے بچنے کے لیے اب میرا کیا رول ہو… میری زندگی کا اصل مقصد ہے کیا؟ اور اس کا راستہ؟؟ اب نئے سوالیہ نشان دماغ میں اپنی جگہ بنانے لگے۔

’’بے شک میری نماز، میرا جینا، میرا مرنا اور میرے تمام مراسم عبودیت اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔‘‘ (القرآن)

اس آیت سے یہ تو پتا لگ گیا کہ جو کروں خدا کے لیے کروں، اسی کی رضا کے لیے کروں، لیکن اب یہ آیت پڑھ کر معلوم ہوگا کہ کرنا کیا ہے:

’’اور تم میں سے ایسا گروہ ضرور ہونا چاہیے جو نیکی کی طرف بلائے، اچھائی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔ یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (القرآن)

’’میری طرف سے پہنچا، خواہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ (الحدیث)

مطلب یہ کہ ہم بوریت کے لیے تو پیدا نہیں کئے گئے، بلکہ جب انسان ہی مشقت میں پیدا کیا گیا ہے تو پھر ایک مسلمان کیسے بور ہوسکتا ہے؟ وہ کیسے فارغ ہوسکتا ہے؟ کیا اس کے پاس کرنے کے کام نہیں؟ اپنے رب سے رضا، محبت و خوف کا رشتہ جوڑنا نہیں؟ قرآن سے، سنت سے راستہ تلاشنا نہیں؟ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا کام انجام نہیں دینا؟ کیا ایک مسلمان ہونے کے ناتے جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کی ادائیگی نہیں کرنی؟ اپنا رشتہ قرآن سے مضبوط نہیں کرنا؟ اشاعتِ دین نہیں کرنا؟ جبکہ ہمیں تو ہر ہر لمحے کے کرنے کے کام قرآن و سنت سے مل جاتے ہیں، تو کیوں ہم فارغ ہیں؟ کس کا انتظار ہے اب ہمیں؟ اصل بات بس یہ ہے کہ ہمارا اپنے رب سے، اس کی کتاب سے، رسول اللہؐ سے رشتہ کمزور پڑ گیا ہے۔۔۔جبکہ ہدایت نامہ ہمارے ہی ہاتھوں میں موجود ہے، ہم اس سے ہدایت لیتے نہیں۔ ہمیں سب سے پہلے تو اس سرچشمۂ ہدایت سے اپنا رشتہ مضبوط کرنا ہو گا‘ اس کے ہم پہ جو حقوق ہیں وہ سمجھنے ہوں گے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ لگائیے کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا: ’’اگر میں اس قرآن کو کسی پہاڑ پہ بھی نازل کرتا تو وہ خوف کے مارے پھٹ پڑتا، (مفہوم) اور ہم؟ کیوں نہیں سمجھتے اس حقیقت کو؟ll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں