دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت

جنید رضا

ہمارے دور کا المیہ یہ ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ آتے ہی حضور اکرمؐ کی زندگی اور فضائل و مناقب پر خطابات اور جلسوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ان جلسوں اور خطابات میں سیرت نبوی کے واقعات تو بیان کیے جاتے لیکن اس سے سماجی تبدیلیوں اور آپ کی دعوتی و انقلابی جدوجہد کے حوالے سے کوئی راہ نمائی نہیں حاصل کی جاتی اور نہ ہی آپ کی سیرت پاک کو بہ طور نظام زندگی اور اسوہ عمل اپنانے اور اس کی ترغیب دینے کی فکر کی جاتی ہے۔

اس تناظر میں بہ حیثیت مسلمان ہمارا یہ فرض نہیں بنتا ہے کہ ہم اپنے کامل راہ بر و راہ نما رسول کریمؐ کی عملی زندگی سے آگہی حاصل کریں۔ کیوں کہ آپ کی زندگی اخلاق و کردار ہی میں نہیں بلکہ خاندانی و معاشرتی معاملات میں، سیاسی و سماجی فیصلوں اور ہدایات میں اور انسانی خدمات اور انسانیت نوازی کی ایسی عملی بنیادیں فراہم کرتی ہے جو نظریہ اسلام کی عملی شکل پیش کرتی ہے۔

اس لیے جب تک حضور اکرمؐ کی سیرت سے مکمل واقفیت حاصل نہ کرلیں، تب تک ہم اپنے نظریے اور ایمان کو بھی مکمل طور پر نہ خود سمجھ سکتے ہیں اور نہ اسے دوسروں پر واضح نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ آپؐ کی سیرت مبارکہ ہی ہمارے نظریے اور ایمان کی اصل بنیاد اور اس کا عملی مظہر ہے اور حضورﷺ کی سیرت مبارکہ ہی ہمارے لیے ایسا ماڈل ہے کہ جس کے ذریعے ہم زمین پر بسنے والی تمام اقوام کے اقتصادی، سیاسی، اخلاقی اور معاشرتی قوانین کا تقابلی مطالعہ کرسکتے ہیں۔

مسلمانوں کی زندگی کا ہر شعبہ خواہ عبادات ہوں یا معاملات زندگی یا پھر کاروبار زندگی مثلا سیاسیات، معاشیات، عائلی زندگی کے قوانین، جنگ و جدل کے اصول اور انسان دوستی و دشمنی کے اصول و قوانین ہوں الغرض حضور اکرم ایک کامل و اکمل ترین شخصیت ہیں کہ جن کی حیات مبارکہ ہمیں زندگی کے ہر موڑ پر راہ نمائی فراہم کرتی ہے۔ دوسرا درجہ آتا ہے کہ حضور اکرمؐ نے کام یاب زندگی گزارنے اور دنیاوی و اخروی کامیابی کے حوالے سے ترقی حاصل کرنے کے جن اصولوں کو دنیا میں متعارف کرایا ہے، ان کو اپنایا جائے اور منظم و شعوری جدوجہد کے ساتھ اپنی زندگی میں اور اپنے معاشرے میں ان کو غالب کرنے کی کوشش کی جائے۔ سیرت دراصل حضور پاک کی زندگی کا وہ اسوہ عمل ہے جسے امت کے ہر صاحب ایمان کو اسی طرح اپنی زندگی میں نافذ کرنا ہے، جس طرح رسول پاک کی زندگی میں دیکھاگیا۔ یہی ایمان کا بھی تقاضہ ہے اور یہی اللہ کو مطلوب ہے کہ وہ فرماتا ہے: تمہارے لیے رسولؐ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔ جب ان کی زندگی نمونہ ہے تو پھر صرف اس کا ذکر اور اس کی مدح و ستائش پر ہی اکتفا کیوں ہو؟ یہ دین کی اسپرٹ، نبوت کے مقاصد، رب کی ہدایات اور خود ہمارے اپنے دعوؤں کے بھی خلاف ہے۔ محض چند معجزات اور عبادات تک محدود کردینا یا محض عبادات میں مقید کر دینا یا صرف حضور اکرم کی تعریفات و مدح و ستائش کو منشائے حیات بناتے ہوئے باعث اجر و ثواب تصور کرنا آپؐ کے عملی اور انقلابی کردار کو پس پشت ڈال دینا دین کو پس پشت ڈالنے کے مترادف ہے۔

حضور اکرمﷺ جس کامل و اکمل نظام حیات کا تعارف کراتے تھے، تو ایک طرف تو وہ خود اپنی عملی زندگی میں اس کی تصویر ہوتے تھے دوسرے محنت اور جدوجہد سے اس کو اپنے معاشرے میں متعارف کرا کر اسے سماج میں رائج اور غالب کرنے کی جہد مسلسل کرتے تھے۔ مگر آج ہم سیرت کا مطالعہ تو کرتے ہیں لیکن اس کے مطابق اپنی زندگی کو نہ تو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ دوسروں کی زندگی کو اس سے منور کرنے کی فکر کرتے ہیں اور اگر سیرت النبیؐ کے کچھ پہلوؤں پر عمل کرتے بھی ہیں تو محض رسمی، انفرادی اور غیر شعوری بنیادوں پر جس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے کے اندر اجتماعی حوالے سے کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ہم اجتماعی تبدیلی کی سوچ کو آگے بڑھا پاتے ہیں۔

حضور اکرمﷺ کی سیرت کا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ہمیں اجتماعیت کی دعوت دیتا ہے، اس اجتماعیت کی دعوت کی شروعات چند افراد کے ایک ساتھ رہنے اور مل کر جدوجہد سے ہوتی ہے اور پوری انسانیت کے لیے مل کر جدوجہد کرنے پر ختم ہوتی ہے۔ اسی بنیاد پر حضور اکرمؐ کی حیات مبارکہ کا اگر بہ غور مطالعہ کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ آپ کے نظریے اور عمل نے سماجی و معاشرتی زندگی کے میدانوں میں دور رس تبدیلیاں انجام دیں۔ اندازہ کیجیے کہ ایک ایسا معاشرہ کہ جس کا تعلق خدا سے کٹ چکا تھا، دنیاوی معاملات میں دھوکا دہی، چوری، زنا، ظلم و ناانصافی، حقوق کو غصب کرنا اور نسلی امتیاز پایا جاتا تھا۔ ایسے ماحول اور نظام میں رہنے والوں کی حضور اکرمؐ نے آکر زندگی بدل ڈالی۔ عدل و انصاف پر مبنی ایک مثالی معاشرہ تشکیل دے دیا۔ یہ باتیں کیا صرف تقریروں کا موضوع رہیںگی یا کبھی سننے اور سنانے والوں سے انفرادی و اجتماعی زندگی میں نفاذ کا بھی مطالبہ کرنے کی حق دار ہوں گی۔ نبوت کا مقصد محض چند عبادات یا اخلاقیات کا سبق دینا نہیں ہے، بلکہ ہر شعبہ حیات میں مکمل طور پر ظلم کے نظام کو ختم کر کے عدل و انصاف کے نظام کا قیام ہے۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیﷺ نے جدوجہد کی اور سب سے پہلے اپنی سرزمین پر ایک تربیت یافتہ جماعت کے ذریعے ظلم پر مبنی نظام کو ختم کیا اور اس راہ میں جتنی تکلیفیں آئیں انہیں برداشت کیا۔ برداشت صرف اس لیے کیا کہ آپ انسانیت کو ظلم و جبر سے نجات دلانے اور اسے خیر سے ہم کنار کرنے کے جذبے سے بھرے ہوئے تھے۔ آپؐ انسانوں کی بھلائی کے بارے میں سوچتے اور ان کے لیے فکر مندر رہتے تھے۔

ایک مرتبہ آپؐ نے لوگوں سے ارشاد فرمایا کہ میری مثال ایسی ہے جیسے ایک جنگل میں کسی نے آگ جلائی اور اس آگ پر پتنگے ٹوٹے پڑتے ہیں۔ ایک شخص انہیں آگ میں گرنے سے روک رہا ہے پھر فرمایا پتنگے تم لوگ ہو اور آگ سے بچانے والا میں ہوں۔

اندازہ کیجیے کس قدر تڑپ اور جذبہ خیر خواہی تھا آپؐ کے اندر عام انسانوں اور انسانیت کے لیے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ سیرت نبیﷺ اور اس کے تقاضوں کا صحیح شعور حاصل کیا جائے اور اس پر انفرادی و اجتماعی طور پر عمل کی حکمت عملی ترتیب دیتے ہوئے عدل و انصاف کے اس نظام کو متعارف کرانے کی جدوجہد اور کوشش کی جائے، جو آپ نے پیش کیا تاکہ ہم اپنی آخرت کو سنوار سکیں اور انسانیت سکون کا سانس لے سکے، یہی انسانیت کی معراج ہے اور تب ہی ہم حضور اکرمؐ کی وراثت کا صحیح حق ادا کرسکتے ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں