دوستی اور اسلامی تعلیم

حافظ کرناٹکی

مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور معاون ہیں۔(توبہ:۱۷)
ہمارے پیارے نبیﷺ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے سارے ساتھیوں سے بے حد محبت کرتے تھے، ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ ان کے سبھی ساتھی یہ محسوس کرتے تھے کہ نبیﷺ سب سے زیادہ مجھ ہی سے محبت کرتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ مل جل کر رہنا، خوشی خوشی زندگی گزارنا ان کے ساتھ خلوص اور محبت کابرتاؤکرنا ہمارے پیارے نبیﷺ کا طریقہ ہے۔ جب انسان اپنے دوستوں کے ساتھ گھل مل کررہتا ہے، بے تکلفی سے رہتا ہے تو اسے بہت سی ایسی باتیں بھی سننی پڑتی ہیں جو اس کے مزاج کے خلاف ہوتی ہیں۔ ایسی باتوں پر صبر کرنا اور اپنے وقار کا مسٔلہ نہ بنانا آپسی رشتوں کو مضبوط بناتا ہے۔ دوستوں کی وجہ سے کبھی کبھی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ اور کبھی اپنے کاموں کو چھوڑ کر ان کے لیے وقت نکالنا پڑتا ہے یہ ساری باتیں اور چیزیں انسان کے مزاج کی تربیت کرتی ہیں۔ اس میں تحمل اور بردباری پیدا کرتی ہیں۔ جس سے ایثار، انکسار، مروت اور وفاداری کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ اس سے معاشرے میں خیر اور فلاح کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ سبھی کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ؛
’’جو انسان لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہونچنے والی تکلیفوں کو برداشت کرتا ہے وہ کہیں بہتر ہے اس شخص سے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہونچنے والی تکلیفوں سے دل برداشتہ ہوتا ہے۔‘‘
ایک کہاوت مشہور ہے کہ لوگ اپنے دوستوں سے پہچانے جاتے ہیں، اس لیے دوستی ہمیشہ نیک، صالح، پڑھے لکھے، علم دوست، اور مہذ ب انسانوں سے کرنی چاہیے۔ اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ ہم جن لوگوں سے دوستی بڑھارہے ہیں ان کے افعال و کردار کیا ہیں؟ وہ دین وایمان اور علم و فن کے معاملے میں کس طرح مفید ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کسی انسان کی اخلاق اور علمی حالت معلوم کرنی ہے تو ان کے دوستوں کی علمی اور اخلاقی حالت پر نظر کرو۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اس لیے ہرآدمی کو غور کرلینا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کررہا ہے۔
دوست کے دین پر ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی کا دوست دوسرے مذہب کا ہے تو اس کا مذہب بھی وہی ہوگا اس کا مطلب ہے کہ جب وہ اپنے دوست کی صحبت میں بیٹھے گا تواسی طرح کے جذبات واحساسات سے اثر لے گا جو اس کے دوست کے ہوں گے۔
اچھے اور برے دوست کی مثال مشک کے تاجر اور لوہا سے دی جاتی ہے مشک کے تاجر سے دوستی کا فائدہ یہ ہوگا کہ یا تو آپ مشک خریدیں گے یا پھر نہیں تو کم از کم مشک کی خوشبو پائیں گے۔ لیکن لوہار کی بھٹی یا تو کپڑے جلائے گی یا نہیں تو کپڑوں پر سیاہی کے دھبے لگائے گی۔ ایک اور بات وہ یہ کہ کسی سے محض اپنے مفاد کے لیے یاذاتی فائدہ حاصل کرنے کے لیے دوستی نہ کریں، کیوں کہ آپ جس طرح کی نیت اور ارادے سے دوستی کریں گے اس کا اثر دوست کے دل پر بھی پڑے گا اور وہ بھی آپ سے ایسا ہی برتاؤ کرے گا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے بندوں سے اللہ کی محبت کے لیے محبت کیجئے، حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ؛
’’قیامت کے دن خدا فرمائے گا کہ وہ لوگ کہاں ہیں جو صرف میرے لیے لوگوں سے محبت کیا کرتے تھے، آج میں ان کو اپنے سائے میں جگہ دوں گا۔‘‘
حضرت معاذ بن جبلؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ خدا کاارشاد ہے؛
’’مجھ پر واجب ہے کہ میں ان لوگوں سے محبت کروں جو لوگ میری خاطر آپس میں محبت اور دوستی کرتے ہیں اور میرا ذکر کرنے کے لیے ایک جگہ جمع ہو کر بیٹھتے ہیں اور میری محبت کے سبب ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں اور میری خوشنودی چاہنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں۔‘‘
حضرت جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کی صحبت میں سو مجلسوں سے بھی زیادہ میں بیٹھا ہوں ان مجلسوں میں صحابہ کرام ؓ اشعار بھی پڑھتے تھے اور زمانہ جاہلیت کے قصّے بھی سناتے تھے۔ حضورﷺ خاموشی سے یہ سب سنتے رہتے تھے بلکہ کبھی کبھی خود بھی ان کے ساتھ ہنسنے میں شریک ہوجایا کرتے تھے۔ معلوم یہ ہوا کہ دوستوں کے ساتھ خوش طبعی کا مظاہرہ کرنا بھی ضروری ہے تاکہ دوستوں کی مجلس بے رونق اور غیر دلچسپ نہ ہو۔
حضورﷺ اپنی مجلس میں کبھی کبھی خود بھی قصّے سنایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک بار آپ ﷺ نے گھر والوں کو ایک قصّہ سنایا۔ ایک خاتون نے کہا کہ یہ عجیب و غریب قصّہ تو بالکل خرافہ کے قصّوں کی طرح ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا تمہیں خرافہ کا صحیح قصّہ بھی معلوم ہے اور پھر آپﷺ نے خودہی خرافہ کا اصل قصّہ تفصیل سے سنایا۔
معلوم یہ ہوا کہ ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے بھی انسان کو خوش طبعی سے کام لینا چاہیے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ؛ دل کو آزاد بھی چھوڑ دیا کرو، خوش کن نکتے بھی سوچا کرو کیوں کہ جسم کی طرح دل بھی تھک جاتا ہے۔
عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ اپنے غصّے اور اپنی نفرت کا اظہار تو بہت زور دار انداز میں کرتے ہیںمگر اپنی دوستی اور محبت کا اظہار کرنے میں نہایت تکلّف سے کام لیتے ہیں۔ جبکہ محبت، خلوص، اور دوستی کے جذبات انمول ہوتے ہیں۔ طریقہ یہ ہے کہ اگر آپ کسی سے محبت کرتے ہیں تواس سے اپنی محبت کا اظہار ضرور کیجئے اس کا نفسیاتی اثر یہ ہوگا کہ وہ انسان خوش ہوگا اور آپ سے قربت اور لگاؤ محسوس کرے گا اور پھر دونوں کی محبت میں اضافہ ہوگا۔ حضورﷺ کا فرمان ہے کہ ’’جب کسی شخص کے دل میں اپنے بھائی کے لیے خلوص و محبت کے جذبات ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے دوست کو بھی اپنے ان جذبات سے آگاہ کردے اور اسے بتادے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔‘‘
دوستی کا رشتہ مضبوط بھی ہوتا ہے اور نازک بھی اگر کسی دوست کی طرف سے کوئی ایسی بات ہوجائے جو آپ کی طبیعت اور مزاج کے خلاف ہو تو ٹال جائیے اور خود پر قابو رکھیے یعنی جواب میں اس سے بھی سخت بات مت کہیے کہ رشتہ ہی خراب ہو جائے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ ایک بار حضرت موسیٰؑ علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے پوچھا! اے میرے رب آپ کے نزدیک آپ کے بندوں میں کون آپ کو سب سے پیارا ہے تو خدا ئے تعالیٰ نے جواب دیا وہ جو انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردے گا۔
دوست کا مطلب خوشامدی، اور چاپلوسی کرنے والا نہیں ہوتا ہے۔ دوست وہ ہوتا ہے جو اپنے دوست کی اصلاح کی فکر کرتا ہے، اسے غلط باتوں اور غلط حرکتوں سے بچاتا ہے۔ اسے صحیح مشورہ دے کر مشکلوں میں گرفتار ہونے سے بچاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ انسان اپنے اندر خودپسندی و خود پرستی کی بیماری نہ پالے کیوں کہ جب لوگوں کو معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ کو چاپلوسی، خوشامد، جھوٹی تعریف پسند ہے تو پھر دوست احباب بھی آپ کے سامنے سچ بولنے سے گھبراتے ہیں۔
تنقید اور احتساب ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے اخلاق و کردار میں پیدا ہونے والی ساری خرابیوں کو دور کیا جاسکتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اگر آپ کسی کے دوست ہیں اور آپ کے دوست کے دامن پر کوئی داغ ہے تو اسے دھونے اور صاف کرنے کی کوشش کیجئے۔ اور خود بھی اپنے دوستوں کو خوشی خوشی اس کا موقع دیجئے اور جب کوئی دوست آپ کو آپ کی کمزوریوں، کوتاہیوں اور خرابیوں سے آگاہ کرے تو آپ اس کا خوش خلقی سے استقبال کیجئے اور شکریہ اداکیجئے۔ حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ؛ ’’تم میں سے ہر ایک اپنے بھائی کا آئینہ ہے۔ پس وہ اپنے بھائی میں کوئی خرابی دیکھے تو اسے دور کردے۔‘‘
دوستوں سے خلوص و محبت بڑھانے کے لیے تحفوں اور ہدیوں کا تبادلہ بھی کرتے رہنا چاہیے۔ ہدیوں اور تحفوں کے لین دین سے محبت بڑھتی ہے۔ تحفہ محبت کا اظہار ہوتا ہےسامنے والے کی حیثیت کا ترازو نہیں ۔
جس طرح دوستوں کے لیے تحفے کا اہتمام کرتے رہنا بہترین طریقہ ہے، اسی طرح اپنے دوستوں کے لیے دعا کرتے رہنا بھی بہترین عمل ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے لیے غائبانہ دعا کرتا ہے تو خدا اس کو قبول فرماتا ہے اور دعا کرنے والے کے سرہانے ایک فرشتہ مقرر رہتا ہے کہ جب وہ شخص اپنے بھائی کے لیے دعا کرتاہے تو فرشتہ آمین کہتا ہے۔ اور کہتا ہے تیرے لیے بھی وہی کچھ ہے جو تو اپنے بھائی کے لیے مانگ رہا ہے۔ہم سبھی لوگوں کو خدا سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ خدا ہمارے دلوں کو بغض و عناد اور کدورتوں سے پاک کردے۔ اور ہمارے سینوں کو خلوص و محبت کی خوشبو اور روشنی سے بھردے۔ آمین!ll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں