جمن بھولا گنج کے چھوٹے سے اسٹیشن پر سر جھکائے گاڑی کا انتظار کر رہا تھا۔ بھولا گنج، چھوٹا سا اسٹیشن تھا، قصبہ بذاتِ خود بھی معمولی سا تھا، البتہ شہر کے قریب ہونے کی وجہ سے اب کچھ چہل پہل بڑھ رہی تھی، قصبہ کے زیادہ دور نہ ہونے کی وجہ سے سواریوں کا بھی انتظام نہ تھا، اور یہی وجہ تھی کہ جمن کو روزانہ کوئی نہ کوئی کام مل ہی جاتا تھا۔
آج جمن کسی گہری سوچ میں تھا۔ بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے کل شام کا نقشہ کھینچ جاتا تھا، غصہ سے سیدھے سادھے جمن کی بھنویں تن جاتی تھیں، اور اس کا تنفس تیز ہو جاتا تھا، یوں تو وہ قلی تھا ہی، اور آئے دن اسے توند والے پنڈتوں اور مارواڑیوں، داڑھی و شیروانی والے بزرگوں اور سوٹ والے نوجوانوں سے اجرت کے بارے میں کوئی نہ کوئی شکایت پیدا ہو ہی جایا کرتی تھی، کبھی کوئی مزدوری دینے میں کمی کرتا، کوئی ڈانٹ ڈپٹ کرتا اور کوئی مزوری کے لیے گھنٹہ بھر کھڑا رکھتا۔ یہ سب تو آئے دن کی باتیں تھیں، لیکن کل جس سے پالا پڑا تھا، اس پر آج اسے بے انتہا غصہ آرہا تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ اس کی بڑی بڑی مونچھیں اکھاڑ دے، اس کی حد سے زیادہ پھولی ہوئی توند میں چھرا بھونک دے، اس کے چار منزلہ مکان میں آگ لگا دے اور وہ سب کچھ کر ڈالے جو لال جھنڈے والا کلوا اس سے بیان کیا کرتا تھا۔ اسے ایسے لوگوں سے سخت نفرت ہو چکی تھی۔ یہ پیسے والے سب کمینے ہوتے ہیں۔ اسے کلوا کے الفاظ یاد آرہے تھے، یہ جتنے سرمایہ دار ہیں، سب مزدوروں کے دشمن ہیں، اور وہ سوچتا تھا کو شاید یہ بات بالکل ٹھیک ہے، ’’سرمایہ دار‘‘ اسے اس لفظ سے بہت نفرت ہوگئی تھی، یہ لفظ اس نے جلد ہی سیکھا تھا، لیکن جتنی جلدیہ یاد ہوا، اتنی ہی تیزی سے اسے اس کے ساتھ نفرت بھی ہوگئی تھی۔
یہ سب خیالات اسی وقت اس کے دماغ میں نہیں آئے تھے، بلکہ کل شام ہی سے وہ یہی سب سوچ رہا تھا، کل شام جب یہی چھ بجے والی گاڑی پلیٹ فارم سے آکر لگی تو سکنڈ کلاس کے ڈبہ سے ایک پھولے ہوئے گالوں والے مارواڑی نے قلی قلی کی آواز لگائی سامان کافی تھا، لیکن وہ اکیلے ہی لے چلنے کو تیار ہوگیا۔ قصبہ کے دوسرے سرے تک جانا تھا، اول تو راستہ ہی میں دھیرے چل، ارے بھاگا کیوں جاتا ہے، اور میرے آگے کیوں نکلا جاتا ہے‘‘ کے ساتھ غلیظ گالیوں کی بوچھاڑ سے اس کا جی کھٹا ہوگیا تھا، بوجھ کے تلے دبے ہونے کی وجہ سے جب ایک جگہ وہ سستانا چاہا تو بھی مارواڑی اس پر پل پڑا اور اسے قہراً جبراً بلا سستائے ہی سامان لے چلنا پڑا۔ گھر پہنچ کر مارواڑی جی سامان اتروا کر جو گھر میں گھسے تو آدھ گھنٹے کے بعد، وہ بھی کئی بار چلانے پکارنے پر گالیوں کی جلو میں، برآمد ہوئے اور ایک دو انّی پھینک کر واپس چلنے لگے۔ بس اس پر جمن بھنا گیا، اس نے پہلے تو حضور…‘‘ اور ’’بابو…‘‘ کہہ کر کام چلانا چاہا، لیکن جب اس کی شنوائی نہ ہوئی تو اس نے دو انّی اٹھا کر اس کے سامنے پھینک دی، اور بولا کہ آٹھ آنے کی جگہ دو آنا پیسہ تو مجھ سے نہ لیا جائے گا، اسے بھی رکھ لیجیے، لیکن پھر مارواڑی کے تیور اور آئندہ پیش آنے والی صورت کے پیش نظر اسے وہ ڈھائی آنے کے پیسے اٹھا ہی لینے بڑے جو ڈنڈا دکھا کر اسے دیے جا رہے تھے… یہ پورا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے ناچ رہا تھا، سرمایہ داروں سے اس کی نفرت بڑھتی ہی جا رہی تھی، کلوا کی بہت سی باتیں جنہیں اس نے آج تک قابل اعتنا نہیں سمجھتا تھا، اب اس کے دل میں اترتی جا رہی تھیں، لوٹ مار، آگ لگانا وغیرہ اسے ان سب سے نفرت تھی، لیکن اب وہ ان کے بارے میں بھی سوچنے کو تیار تھا۔ اب تک وہ کلوا کے پاس زیادہ دیر بیٹھنے سے بھی گھبراتا تھا، اس لیے کہ وہ کبھی کبھی مولوی صاحب کے خلاف بھی کچھ نہ کچھ کہہ ہی جاتا تھا۔ کبھی وہ کہتا کہ ان لوگوں کا یہ سارا مسجد، مندر کا ڈھونگ ہم غریبوں کے پیسے لوٹنے کے لیے ہے، پھر کبھی جب وہ دوسرے دیشوں میں مزدور راج کے آنے کی خبر سناتا، تو اس مزے سے آتش زنی، لوٹ مار، خونریزی اور عصمت دری وغیرہ کا تذکرہ کرتا جیسے ان میں سے کوئی چیز بری ہی نہیں تھی۔ انہی سب باتوں کی وجہ سے سیدھا سادھا جمن اس کے پاس کبھی بھی زیادہ دیر تک نہیں بیٹھا، لیکن بہرحال اب تو اسے بیٹھنا ہی تھا۔
اس کے دیکھتے ہی دیکھتے کلوا ہی کی لیڈری میں قصبہ کے سارے دھوبی ایک ہو کر اپنی بات پر جم گئے کہ کل تک جو لوگ جوتے مار کر دو پیسہ میں کپڑا دھلاتے تھے اب انہی سے ہر دھوبی پانچ پیسہ کی بات کرتا تھا۔ اس نے سوچا کہ کلوا کے پاس اُسے بہرحال بیٹھنا چاہیے، اس نے سوچا کہ قصبہ کے سب مزدور … اور اتنے میں گھنٹی بجنے لگی، ٹرین بھولا گنج کے اسٹیشن سے چل چکی تھی، بھولا گنج سے رام گنج دور ہی کتنا تھا، پانچ منٹ میں ٹرین رام گنج پہنچنی تھی، وہ اٹھ کھڑا ہوا اور کھڑے ہی کھڑے اس نے ایک انگڑائی لی، اس کے سوئے ہوئے پٹھے چٹخ کر بیدار ہوگئے، پھر اس نے اپنی جیب ٹٹولی، بیڑی ختم ہوچکی تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر ایک پیسے کی بیڑی خریدی، ایک پیسے کی دو بیڑیاں، اس پر اسے بڑا غصہ آتا تھا، وہ بیڑی خریدی، پیسے کی دو بیڑیاں، اس پراسے بڑا غصہ آتا تھا، وہ بیڑی جو پیسے کو پانچ چھ آتی تھیں، پہلے پیسے کی چار اور ایک دم سے چند ہی دن کے اندر پیسے کو دو ہوگئیں۔ پان والے نے اسے بتایا تھا کہ شہر میں بیڑی کے کارخانے والوں نے ہڑتال کردی تھی، مالک کارخانہ نے مزدوروں کی مزدوری ہی بڑھا دی اور بیڑیوں کے دام بھی بڑھا دیے۔ اسے مزدوروں پر غصہ آنے لگا، لیکن وہ بے چارے کیا کرتے، اس نے سوچا، اونہہ بہرحال اس کو تو اب ایک پیسہ کی جگہ دو پیسے خرچ کرنے ہی تھے، یہ بہرحال ایک بری بات تھی… اور اتنے میں ٹرین آتی نظر آئی وہ مستعدی سے اس جگہ کھڑا ہوگیا، جہاں سکنڈ کلاس کا ڈبہ آکر رکتا تھا۔
گاڑی رُکی، اور اس کی نگاہ جستجو جلد ہی ایک باوقار وجیہہ چہرے پر پڑی، جو کھڑکی سے سر نکال کر قلی کے لیے آواز دینا ہی چاہتا تھا۔ وہ آگے بڑھا اور چوں کہ گاڑی وہاں چند ہی منٹ رکھتی تھی، اس لیے اس نے فوراً سامان اتار کر نیچے رکھ لیا۔
’’یہ ٹرنک، یہ بستر اور یہ سوٹ کیس قصبہ والی مسجد کے سامنے کے مکان میں لے چلنا ہے‘‘ آنے والے نے کہا… ’’کتنے پیسے لوگے پہلے طے کرلو!‘‘ وہ بولا: ’’طے کرنے کی کیا بات ہے حضور‘‘ جمن نے سامان سر پر رکھتے ہوئے کہا، ’’نہیں قاعدے کی بات یہی ہے کہ اگر نرخ مقرر نہ ہو تو طے کرلیا جائے۔‘‘
جمن نے چھ آنے بتائے، جسے مسافر نے بھی مناسب سمجھا اور دونوں چل کھڑے ہوئے۔
سورج ڈوبنے میں دس بارہ ہی منٹ کی دیر رہ گئی تھی، آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے، ہوا ایک دم رکی ہوئی تھی، اور انداز بتا رہا تھا کہ بارش ضرور ہوگی۔ تھوڑی دیر آگے چل کر اس کے دل میں خیال آیا کہ صاحب کے ہاتھ میں جو جھولا ہے اسے بھی لے لوں۔ مگر خیال آنے کے بعد اس نے مڑ کر کہنا ہی چاہا تھا کہ مسافر نے کہا، اگر زیادہ بھاری ہو تو سوٹ کیس مجھے دے دو، مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوگی‘‘ جمن متحیر رہ گیا۔ اسے آج تک اس قسم کے کسی آدمی سے سابقہ نہ پڑا تھا۔ مسافر اپنے بشرہ ہی سے شریف معلوم ہو رہا تھا، لیکن اس کی ظاہری وضع قطع اور اس کا یہ مختصر سامان اس بات کی بھی غمازی کر رہا تھا کہ وہ پیسوں والا آدمی ہے پھر اس کی طرف سے اس رویہ کے کیا معنی یہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
جمن کو خاموش دیکھ کر مسلم بولا ’’یہ نہیں تو جی چاہے تو سستالو! اچھی خاصی گرمی ہو رہی ہے‘‘ لیکن آسمان پر بادلوں کے غیر معمولی اجتماع سے بارش کا خطرہ بڑھتا جا رہا تھااس لیے جمن نے قدم اور تیز کردیے۔ سامان بھی کوئی ایسا بھاری نہ تھا کہ اس کے لیے سستانا ناگزیر ہوتا۔ گھر پہنچتے پہنچتے بوندیں پڑنے لگیں، اور چند ہی منٹ میں اچھی خاصی بارش ہونے لگی۔
سامان اترواکر مسلم نے فوراً جمن کے ہاتھ پر ساڑھے چھ آنے پیسے رکھ دیے۔ جمن نے اس کی طرف دیکھا تو وہ بولا: ’’حرج ہی کیا ہے‘‘ پھر اس نے کہا: ’’دیکھو بارش تیز ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں گھر جانے کا ارادہ نہ کرنا۔ کتنی دور رہتے ہو‘‘ جمن سے یہ معلوم کر کے کہ وہ لائن کے اس پار شکر کی مل کے اسسٹنٹ منیجر کی کوٹھی کے پاس رہتا ہے، اس نے اسے مزید تاکید کی کہ وہ اس پانی میں گھر جانے کا ارادہ نہ کرے، لیکن مسلم یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ آخر بے چارا گھر نہ جائے گا تو کام کیسے چلے گا کیوں کہ وہ ایک قلی تھا۔ یقینا اس کے بیوی بچے اس وقت کی خوراک کے لیے بھی بڑی حد تک اس کے آنے کے منتظر ہوں گے۔ وہ سوچنے لگا۔ اس غیر اسلامی بلکہ حیوانی ماحول میں جو سرمایہ دارانہ اور غیر خدا پرستانہ نظام کی پیداوار ہے، کون ہے جو جمن کے گھر والوں کی خبر لے گا، کہیں پانی دیر تک برستا رہ گیا تو اس بے چارے کے گھر والوں کی کون خبر لے گا۔ آج کل جب کہ خود غرضی اور مفاد پرستی کا ہر طرف دور دورہ ہے، کون ہے جسے اپنے پاس پڑوس کے کسی کی فکر پڑی ہو۔
جمن اسسٹنٹ منیجر صاحب کے پاس ہی رہتا تھا۔ وہ سوچتا تھاکہ آج پانی برستا ہی رہ جائے تو اس کے بچے فاقہ کرنے کے لیے مجبور ہوں گے۔‘‘ اس لیے مجھے جانے دیں۔ یہ سوچنا فضول ہے۔ رازق اللہ ہے مسلم نے سوچا اس کے دل میں خیال آیا کہ جمن کا اس وقت جانا حماقت سے کم نہیں، پھر آخر کیا کیا جائے، بس یہی کچھ سوچتا ہوا جمن کو فکر مند چھوڑ کر سامنے مسجد میں مغرب کی نماز ادا کرنے چلا گیا۔ اور جب وہ مسجد میں داخل ہوا، تو اس نے پھر سوچا کہ چند قدم چل کر مسجد میں جانے میں بھی اس کی چھتری اس کو بارش سے نہ بچا سکی، پھر آخر جمن کا مسئلہ کس طرح حل ہوگا!
جمن کے لیے یہ ایک اہم مسئلہ تھا۔ چاول تو ضرور گھر میں موجود تھے لیکن دال دن میں ہی ختم ہوگئی تھی۔ نمک بھی شاید ہی کافی ہوگا۔ اسے اپنی بڑھتی ہوئی بھوک کی پرواہ نہیں تھی، لیکن اسے اپنی پانچ سال کی چھوٹی سی بچی یاد آرہی تھی… وہ یقینا سوکھا بھات کھا کر سو رہنے پر مجبور ہوگی اس نے سوچا۔ جلد ہی اور خیالات بھی اس کے دماغ میں آنے لگے مگر مسلم کے روئے نے اس کی توجہ جلد ہی اتنے اہم مسئلہ کی طرف سے اپنی طرف مبذول کرلی۔ راستہ بھر اس کا جو رویہ رہا وہ تو خیر تھا ہی، مزدوری کی بابت بھی اس کا رویہ انوکھا تھا۔ طے کرنے کے بعد بھی مسکرا کر دو پیسے زیادہ دے دینا اس نے اب تک نہ دیکھا تھا۔ دو پیسے کیا چیز تھے؟ دو پیسہ میں تو صرف چار بیڑیاں آتی تھیں، لیکن اس کا مسکرا کر بلا مانگے زیادہ مزدوری دینا یہ یقینا دو پیسہ سے کئی گنا زیادہ قیمتی تھا۔ وہ سوچ ہی رہا تھا کہ مسلم مسجد سے نکل کر آگیا۔
جمن نے محسوس کیا کہ وہ اس کے لیے فکر مند تھا۔ اس نے آسمان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا۔ بادل کافی گہرے تھے۔ اس نے جمن سے ایک بار پھر کہا: گو تمہارا اس وقت گھر جانا بہت ضروری ہے، لیکن ابھی تمہارا جانا مناسب نہیں۔ پانی سخت ہے۔ سڑک پر دیکھو کتنا پانی بھر آیا ہے، کچھ دیر اور رکو۔ میں ابھی آیا، اور مسلم گھر میں چلا گیا، تو جمن پھر سوچ میں پڑ گیا، آخر مسلم کو اس سے کیا دلچسپی تھی، اسے کل شام والا مارواڑی یاد آگیا، اور اس کے اندر جیسے پھر غصہ کی ایک لہر سی دوڑ گئی، لیکن پھر وہ مسلم کے رویہ ہی پر سوچنے لگا، اس نے اس مکان کا اچھی طرح جائزہ لیا، جس میں وہ بیٹھا ہوا تھا، یہ ایک اچھا خاصا مکان تھا، اور اس کا مالک یقینا ایک معمولی آدمی نہیں ہوسکتا تھا۔ جمن نے دماغ پر بہت زور ڈالا کہ اس نے اس مسافر کو پہلے بھی کبھی دیکھا تھا یا نہیں۔ پہلے تو اسے بالکل یاد نہیں پڑ رہا تھا، یکایک اس کے ذہن میں جیسے بجلی سی کوند گئی… کوئی ڈیڑھ سال پہلے اس نے شاید مسلم ہی کو دیکھا تھا، لیکن یہ کیا تغیر ہوگیا۔ اس وقت اس کا رنگ کچھ اور ہی تھا، خصوصاً اس کا چہرہ اس داڑھی سے بالکل پاک تھا ، اس کے لباس میں بھی نمایاں فرق تھا، وہ جب سکنڈ کلاس سے اترا تھا، تو اس کے پاس ٹکٹ بھی نہ تھے، ٹکٹ چیکر سے اس کی ملاقات ہوئی، تو وہ اسے دیکھ کر مسکرایا، اور یہ اسے دیکھ کر دونوں نے ہاتھ ملائے، اور ٹکٹ چیکر مصروفیت کا عذر کر کے جلدی سے آگے بڑھ گیا۔
اسے مسافر کا قیمتی سوٹ یاد آرہا تھا، یہ اس کے اندر کیا تغیر ہوگیا وہ حیرت میں ڈوب گیا۔ اتنے میں باہر کا کمرہ کھلا۔ میز پر کھانا لگا ہوا تھا۔ مسلم کے ملازم نے جمن کو بلایا، ’’آؤ کھانا کھالو! صاحب بلا رہے ہیں، اور جمن بھونچکا رہ گیا، اس نے جلدی سے مڑ کر دیکھا کہ نوکر کس کو بلا رہا تھا، اور پھر اسے یقین کرنا ہی پڑا کہ وہ اسی کو بلا رہا تھا۔ مسلم خود اٹھ کر آگیا۔‘‘ وہ دیر ہو رہی ہے، آؤ! کھانا کھالو، بھوک لگ رہی ہوگی۔‘‘ جمن کے گلے میں جیسے پھندا پڑ گیا، اس نے بہ مشکل تھوک کو خشک حلق سے نیچے اتارا۔ اسے پسینہ آنے لگا، اور جیسے اس کے منہ پر کسی نے مہر لگا دی ہو۔ مسلم اور قریب آگیا، اور اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا: ’’آؤنا! کھانا کھانے میں کیا بات ہے! مجھے بھی بڑی فکر ہے کہ تمہارے بیوی بچے پریشان ہوں گے، لیکن تم خود نہ پریشان ہو، کھانا کھاؤ، پانی اب رک ہی جائے گا، چلے بھی جانا۔
لیکن جمن کی زبان کھلی بھی تو اس نے کہا کہ مجھے جانے دیا جائے، وہ اٹھ کر کھڑا ہوچکاتھا۔ اس نے بڑی لجاجت سے کہا کہ اسے جانے دیا جائے۔
مسلم نے معاملہ کو بھانپ لیا۔ جب کوئی غیر متوقع بات اچانک آن پڑتی ہے، تو کمزور انسان کے پاس اس کا پہلا اور واحد علاج فرار ہے۔ جمن اب وہاں ٹھہر نہیں سکتا تھا، مسلم نے سوچا، شاید وہ پھانسی کے لیے وہاں رُک جاتا، لیکن وہ اس کے ساتھ۔ ایک پیسوں والے آقا کے ساتھ کھانا کھانے کے لیے نہیں رک سکتا تھا، اس نے اس کے دل کی غیر معمولی دھڑکن سن لی اور اس سے کہا: ’’اچھا تمہاری یہی خوشی ہے، تو تم جاؤ، اور یہ چھتری اور ٹارچ لے لو۔ اندھیرا راستہ ہے، اور پھر پانی بھی لگا ہوا ہے، کل تمہیں جس وقت بھی موقع ملے دے جانا۔‘‘
جمن مبہوت تھا۔ اس وقت اس کے دماغ میں اتنی قوت ہی نہ تھی کہ وہ سوچ سکے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ اس نے بے حسی کے عالم میں دونوں چیزیں لے لیں، اور چل کھڑا ہوا آگے بڑھتے ہی جب اسے ’’السلام علیکم‘‘ کی آواز سنائی دی تو جیسے اسے دھکا لگ گیا۔ اُف! اسے سلام تک کا ہوش نہ رہ گیا۔ اور اس کا جی چاہا کہ وہ بے تحاشا بھاگ کھڑا ہو۔ کیوں! اس کے دل کی دھڑکن کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا، وہ تیزی سے چلا جا رہا تھا، لیکن آخر اس کی طبیعت سنبھلنے لگی، اور وہ سوچنے لگا، یہ ہوا کیا؟ مسلم اسے یاد تھا، آج سے ڈیرھ سال قبل کا مسلم۔ پھر یہ گھنی داڑھی۔ اور اسے چھوڑو وہ کتنا امیر تھا اور پھر اس کا یہ رویہ! ایک ایک بات اس کے ذہن میں ناچنے لگی، جھولا اور سوٹ کیس۔ زیادہ ضروری اور پھر کھانے پر بلانا۔ ایک قلی کو اپنے ساتھ کھانا کھلانے کے لیے اندر بلانا…! وہ اس کا کندھوں پر ہاتھ رکھ کر محبت سے اس کے گھر والوں کے بارے میں پوچھنا اور پھر وہ شگفتہ گفتگو؟ کیا ہے یہ انسان؟ یہی کچھ سوچتا ہوا جمن تیزی سے چلا جا رہا تھا، پانی اب تک برسنے کے بعد بادل چھٹ رہے تھے اور آسمان کا بدلتا ہوا رنگ بتا رہا تھا کہ جلد ہی یہ بچھائی ہوئی ظلمت ختم ہو جائے گی، اور تاریک بادلوں کی جگہ جگمگ جگمگ کرنے والے تارے دنیا کو پھر منور کر دیں گے۔lll